Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ڈبل سٹوری قبرستان۔۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر۔شمع باسط

شیئر کریں:

میں کافی زیادہ یقین سے اگریہ کہہ دوں کہ ہم عوام کو ٹھیک سے سینٹ یا سینٹ کے انتخابات سے کوئی رغبت اور دلچسپی نہیں تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ سینٹ ہے کیا سینٹ کے الیکشن کیوں ہوتے ہیں ادھر سے جو لوگ الیکشن جیتتے ہیں ان کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا کس میدان میں منواتے ہیں سینٹر کاتعلق عوام سے کس طرح کا ہوتاہے سینٹر کیا کام کرتے ہیں ہمیں بطور پاکستانی عوام…صرف عام انتخابات کا ہی علم ہے وہ بھی بخوبی نہیں ہے ہمیں تو یہ بھی نہیں پتا کہ عام انتخابات میں ووٹ کس طرح سے کاسٹ کیا جاتا ہے اور پھر رہی بات سینٹ کے الیکشن کی تو عوام کا چونکہ اس سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں ہے اس لیے ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر بحیثیت قوم ہمیں جاننا چاہئے کہ سینیٹ کیا ہے اس میں کون سے نمائندے کیا کام کرتے ہیں کیسے منتخب ہوتے ہیں کیا عام انتخابات کی طرح ان نمائندوں پر دھاندلی کا الزام لگتا ہے ہارس ٹریڈنگ کی حقیقت کیا ہے.

آج کل سینٹ کے الیکشن کا دور دورہ ہے سینٹ انتخابات کا وقت قریب ہے اب اس سے قبل ایک وائرل وڈیو میں پیسے کی گڈیاں عوام کے سامنے لائی جا رہی ہے کس طرح سینیٹرز منتخب ہو کر سینٹ میں آتے ہیں جب سے یہ وڈیو دیکھی ہے عوام انگشت بدنداں ہیں کہ یہ ڈرامہ آخر ہے کیا یہ سینٹ الیکشن صرف سلیکشن ہے اورگیم پیسوں کا گیم ہے کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے عمران خان تو کافی عرصے سے اس بات کا واضح اشارہ دے رہے تھے کہ ایسا ہوتا ہے ویڈیو میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ پیسے کی گڈیاں بانٹی جا رہی ہیں انتخابات میں واضح طور پر پتہ چل گیا ہے کہ سینٹرز کیسے جیتتے ہیں مگرسیاستدانوں کے مردہ ضمیر یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں ہیں وڈیو میں نظر آنے والوں میں سے زیادہ کا کہنا ہے کہ یہ ویڈیو ویسی نہیں جیسا کہ نظر آ رہی ہے اور بات تو قرآن اٹھانے تک جا پہنچی ہے مطلب یہ کہ ہو نہار بروا کے چکنے چکنے پات اصل میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے آخر میں اس ویڈیو کا انجام بھی اسی وڈیو کی طرح کا ہو گا کہ جس میں ایک باثر سیاستدان پولیس والے کو صاف روندتے ہوئے سڑک کے بیچ دیکھایا گیا ہے مگرنہ جانے کیوں روندنے والا با عزت بری ہے .

انصاف کاعمل اتنا غیرشفاف سست رفتار کیوں ہے اور روٹی چوری کرنے والے کو فوری سزا جبکہ وڈیرے کو جو روٹی تو کیااسکا سالن بھی کھا جاتا کوئی نہیں پوچھتا ..سینٹ کے الیکشن ہر چھ سال بعد ہوتے ہیں اورسینیٹر قانون سازی میں مددگار ہوتے ہیں اس اہم ترین الیکشن کو سمجھنے کے لیے کئی اہم سوالوں کے لیے جواب حاصل کرنے کے لیے سینیٹ انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہ کار اور نشستوں کے اصول کو سمجھنا لازم قرار دیا جاتا ہے ترجیحی انتخابات کہلانے والے سینٹ الیکشن کے عمل کو آئینی قانونی سیاسی اور انتخابی ماہرین بھی قدرے پیچیدہ جانتے ہیں ہیں یہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے پانی والا عمل ہے اور یہ عمل ماضی میں بھی کئی حیران کن انتخاباتی نتائج کی وجہ سے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے بہرحال ہمارے ملک میں انتخابات کی نوعیت کوئی بھی ہو الیکشن کے ساتھ سلیکشن کا لفظ لگ ہی جاتا ہے ایک پارٹی دوسری پارٹی پر الزامات کی بوچھاڑ کر ہی دیتی ہے کہ حکومت میں آنے والی جماعت دھاندلی اور دھوکہ دہی سے آئی ہے اشرافیہ کے لوٹے صفت لوگ ایک پارٹی سے تو کبھی دوسری پارٹی سے سے حکومت میں آ کر لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں ہیں عام اور غریب لوگ سیاست میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں چونکہ کہ الیکشن کمپین پر پیسہ لگانا عام اور شریف بندے کا کام نہیں رہا ہاں جب سے پاکستان بنا ہے سیاست کے معاملے میں قتل و غارت کی نمایاں کہانیاں ہمارے سامنیرہی ہیں سیاست کا شعبہ میں پتھر دل اور بے ضمیر لوگوں کی زیادتی ہے اس میں اچھے لوگوں کی کمی ہے ہمارے ملک میں میں انتخابات عام نوعیت کے ہوں یا سینٹ کے یا کسی بھی شعبے میں الیکشن ہو دھاندلی کا شور رہتا ہے .

سینٹ کے حوالے سے جو ویڈیو وائرل ہے اس سے کافی کچھ اور سیکھنے میں مدد مل رہی ہے کہ جو الیکشن سینٹ کا ہوتا ہے اس میں بھی کس قدر پیسہ لگایا جاتا ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ سینیٹر کس طرح منتخب ہوتے ہین اور کتنے کتنے کروڑ میں بکتے ہیں سینیٹ کا الیکشن اراکین اسمبلی خفیہ رائیشماری سے کرتے ہیں اور سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے اپنے امیدوار کو منتخب کرتے ہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کس رکن اسمبلی نے کس سینیٹر کو ووٹ دیا ہے یا منتخب کرنا ہیمطلوبہ تعداد پوری ہونے پر ووٹ دوسرے امیدوار کو منتقل ہو جاتا ہے اور اس طرح ووٹ ضائع نہیں ہوتا اب ایک نئے طریقہ کار کو اپنا کر ووٹ ڈالنے کا طریقہ رائج کیا جائے گا جو کہ شفاف ہے جس کے لیے کوشش جاری ہے تاکہ الزام تراشی اور دھاندلی سے بچا جا سکے گادو ہزار ایکس میں سینٹ میں تحریک انصاف کو واضح برتری حاصل ہونے کا امکان ہے اور بڑی جماعت بن کر سینیٹ میں ابھرنے کا بھی امکان ہے جبکہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن ارکان کی تعدادحکومتی ارکان کے مساوی ہوگی اعظم نے اسی بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ شو آف ہینڈ کیطریقہ کار کے نفاذ سے ہارس ٹریڈنگ اور دھاندلی پر قابو پایا جا سکتا ہے مزید وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات سے لے سینٹ کے انتخابات تک پیسوں کی گیم جیت جاتی ہے ہے.

اسی کے پس منظر میں تحریک انصاف نے اپنے بیس لوگوں کو کو پارٹی سے نکال باہر کیا تھا عمران خان کے منشور میں شفافیت کو ہر شعبہ میں لانے کا عزم موجود ہے حکومتی موقف ہے اس سے قبل انتخابات کا طریقہ کار بدلا جائے گا عدالت کا اس ضمن میں موقف ہے کہ کہ موجودہ صورتحال پر حکومت کی بات مان لی جائے تو آئندہ حکومتوں کے لئے بھی اس بات کی راہ استوار ہوگی کہ وہ بھی اپنی مرضی سے سینٹ انتخابات کا طریقہ کار وضع کر سکیں گی لہذا عدالت یہ حکومتی موقف نہایت باریک بینی سے دیکھ کر ہی فیصلہ کرے گی ابھی سینٹ کے معاملے میں حکومت اور اپوزیشن کی لڑائی عروج پر ہے ہے اور ہارس ٹریڈنگ کے خواہاں لوگ بھی آج کل دن رات مصروف عمل ہیں کہ کہاں کسکو اور کیسے خریدنا ہے پی ٹی ایم نے تحریک انصاف کی حکومت گرانے کے لیے آخری مرحلے میں استعفوں کو بھی آپشن میں رکھا ہے جس میں سب اجتماعی استعفے دے کر کر سینٹ کا انتخاب رکوانے کی تحریک کا باقاعدہ آغاز کریں گے ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی حکومت نے تحریک انصاف کیممبران کے استعفے منظور نہیں کیے تھے اور اگر ایک یا دو صوبائی اسمبلیاں توڑ بھی دی جائیں تو بھی ابھی سینٹ کے الیکشن پر کوئی اثر نہ ہوگا.

سینیٹرز سینٹ میں چھے سال کی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتے ہیں اس سال بھی کافی سارے سینیٹرز اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوجائیں گے گے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق اپوزیشن جماعتوں سے ہے ہر تین سال بعد سینیٹ کے ارکان مدت پوری کرتے ہیں اور بعد میں ریٹائر ہو جاتے ہیں ہر سیاسی جماعت اپنے سینیٹرز منتخب کرکے سینٹ کی نمائندگی کے لیے سینیٹ میں بھیجتی ہیں قومی اور صوبائی اسمبلیاں سینٹ کے الیکٹرول کالج ہیں ان اسمبلیوں کے کارکن سینیٹ کے انتخاب میں ووٹ ڈالنے کے اہل ہوتے ہیں قوانین کے مطابق سینیٹ کی خالی نشست پر ساٹھ دن کے اندر انتخابات کروانا لازمی ہوتا ہے سینٹ کے انتخابات کا معاملہ دن بدن پیچیدہ اور اہم ہوتا جا رہا ہے اور نوٹوں کی گڈیاں وائرل ہو چکی ہیں ہر پاکستانی اپنے آپ سے سوال کرتا ہے کہ ہمارے ٹیکس کا پیسہ کیا اسی طرح لٹایا جا رہا ہے ہماری قوم جو کہ پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے جن کے لیے ہر روز میں بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے دو وقت کی روٹی کھانا اور کمانا مشکل ہوگیا ہے حد غم زدہ ہیں اور سینیٹرز کے ایسے بھونڈے انداز سے منتخب ہوکر سینٹ کی نمائندگی کرنے کیا کوئی اخلاقی جواز رہتا کہ وہ سینٹ میں رہیں اور قانون سازی کے لیے اپنا حق ادا کریں کریں .

عوام حکومت پاکستان سے التجا کرتی ہے اپیل کرتی ہے کہ ان بے ضمیروں کو سزا دی جائے جو کہ قوم کے ذہن و دل سے کھیلتے ہیں اور جتنے بھی ہارس ٹریڈنگ میں ملوث افراد ہیں انہیں سرعام پھانسی دی جائے دوسرے تمام ارکان کو بھی تاکہ عبرت حاصل ہو ورنہ اگر یہ سب تبدیلی سرکار نہیں کر سکتی تو عوام کو دھوکے میں نہ رکھے کیونکہ یہ عوامی دعوء حکومت کے اختیار میں ہے عوام کوئی مافوق الفطرت ڈیمانڈ نہیں کر رہی جیسے کہ عوام کے لیے ڈبل سٹوری قبرستان کی منظوری دی جاے حالانکہ حکومت کا کہنا ہے کے سکون صرف قبر میں ہے..


شیئر کریں: