Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

یوم پیدائش سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ۔۔۔۔۔۔ تحریر: راؤعمر فاروق،لاہور

شیئر کریں:

خالق کائنات نے کچھ ہستیاں ایسی پیدا کیں جو اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے ایک نعمت عظمہ ہونے کے ساتھ انسانوں کو جینے کا ڈھنگ سکھایا کرتی ہیں اور یہ وہ ہستیاں ہوتی ہیں جو اللہ رب العزت کی طرف سے انسانوں کو بہادری کا وہ درس دیتی ہیں جن سے آنے والی نسلیں مستفید ہوتی دکھائی دیتی ہیں انہیں ہستیوں میں سے ایک ہستی شیر خدا خلیفة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ کی ہے۔ 

روایات کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت مسلمانوں کی مقدس سرزمین مکہ مکرمہ اور مقدس مقام کعبة اللہ میں 13 رجب سال23 قبل ہجری بمطابق 17 مارچ 599ء کو ہوئی یہ وہ شرف ہے جو صرف شیر خدا رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ کو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔

 آپ رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کا نام جناب ابوطالب ہے یہ ابو طالب جناب محمد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چچا تھے۔ جنہیں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا جناب عبد المطلب کی وفات کے بعد آقا صلی اللہ علیہ وسلم  کی پرورش کا شرف حاصل ہوا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پرورش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں آئی۔ 

یہی وجہ تھی کہ بچپن میں ہی آپ رضی اللہ عنہ حلقائے اسلام میں داخل ہوئے اور بچوں میں سب سے پہلے انا نی من المسمین کہنے کا شرف حاصل کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ہمیشہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست و بازو بنے ہجرت کے موقع پر محبوب کبریا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنے مبارک بستر پر آپ رضی اللہ عنہ کو ہی کو لٹایا گیا۔

 اور امانتوں کی واپسی کی ذمہ داری بھی آپ رضی اللہ عنہ کو ہی سونپی گئی یہ وہ موقع تھا جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور پلاننگ یہ تھی کہ رات کے کسی پہر میں گھر میں داخل ہو کر نعوذباللہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دیں گے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین کے اس ناپاک ارادے خبر بذریعہ وحی دے دی گئی تھی، اور وحی کا حکم دیا جا چکا تھا اس نازک وقت میں آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بستر مبارک پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو سلایا اور خود ہجرت کے لیے روانہ ہوئے۔

 ظاہرا اس بستر پر سونا موت کو دعوت دینے والی بات تھی، لیکن قربان جائے اس اسلام کے شہزادے پر جو نا صرف اس بستر سوئے بلکہ آپ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے جیسی سکون کی نیند مجھے اس رات آئی ایسی سکون نیند مجھے کبھی نہیں آئی کیوں کہ اس رات مجھے تھا کہ میں صبح تک ضرور زندہ رہوں گا، یہ بات سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے کمال ایمان کی گواہی دیتی ہے، اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کمال محبت کی عمدہ مثال ہے چنانچہ اگلے دن صبح آپ رضی اللہ عنہ نے بخوبی حکم کو تکمیل تک پہنچا کر مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ پیارے تھے یہی وجہ تھی کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے فرمایا اور اس کے بعد زبان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اس فرمان کا جاری ہونا “میری اولاد علی کی پشت سے چلی ہے” حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و یگانگت کی واضح دلیل ہے۔

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے اہل بیت میں شمار فرمایا اور حجة الوداع سے واپسی پر غدیر خم کے مقام پر آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت علی علی رضی اللہ عنہ سے اپنی قربت کو بیان فرمایا اور یہاں تک فرمایا علی مجھ سے ہے میں علی سے ہوں جس نے علی کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی۔ 

 آپ رضی اللہ عنہ ہر غزوہ میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے اور ہر جنگ میں بہادری کے نمایاں کارنامے سرانجام دئیے غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمان انتشار کا شکار ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں سے تھے جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اپنی جانوں پر کھیل کر فرما رہے تھے۔ غزوہ خیبر میں خیبر کا قلعہ جو کئی دنوں سے فتح نہیں ہو رہا تھا آپ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اللہ کی طرف سے فتح ہوا اور یہویوں کا سب سے بڑا بہادر آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ جس پر آپ رضی اللہ عنہ کو شیر خدا کے لقب سے نوازا گیا۔

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا شمار اسلام کے ان تین شہاہ سواروں میں ہوتا ہے جنہیں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے غزہ بدر میں مشرکین مکہ کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے سب سے پہلے میدان جنگ میں اتارا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ نے اس کڑے وقت میں اسلام کے دشمن کو تہ تیغ کر کے اسلام کی عظمت کا پرچم لہرایا تھا، میدان جنگ میں جس طرف اس شیر خدا کا رخ ہوتا کفار اس طرف سے الٹے پاؤں بھاگتے نظر آتے تھے۔ 

آپ رضی اللہ عنہ نا صرف میدان جہاد کے اعلی کمانڈر تھے بلکہ علم و ہنر میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں ایک بہت بڑے عالم کی حیثیت رکھتے تھے آپ رضی اللہ عنہ کا شمار اہل فتوی صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم میں کیا جاتا ہے، علم میراث میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے علم نحو کے بانی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی ہیں امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کئی مسائل میں سائلین کو حضرت علی رضی کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا کرتی تھیں، پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان “انا مدینة العلم و علی بابھا” میں علم کا شہر ہوں علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے۔ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی شانِ علمیت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ 

 پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو لحد مبارک میں اتارنے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہ شخین رضی اللہ عنہما اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مشیر خاص رہے۔ شہادت عثمان غنی رضی اللہ کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم کے مشورے سے چوتھے خلیفہ راشد منتخب ہوئے۔

 لیکن شہادت عثمان غنی رضی اللہ کے باعث امت مسملہ میں ایک نہ ختم ہونے والا اختلاف ابھرا جس کے سبب آپ رضی اللہ عنہ کی تمام مدت خلافت مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال میں گزری جو امت مسلمہ کے لیے انتہائی غم ناک دور تھا لیکن سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی حسن تدبیر اور معاملہ فہمی نے اس جنگ کا نا صرف خاتمہ کیا بلکہ دشمنان اسلام کی تدبیروں کو بھی ناکام و نامراد کر دیا، اسی کی پاداش میں آپ کو شہید کیا گیا، آپ رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے ہمیں یہ درس ملتا ہے حق پر ڈٹ جائیں چاہے جان کی بازی لگانی پڑے۔

بالآخر یہ اسلام اور اہل اسلام کے ہیرو، اسد اللہ الغالب رضی اللہ عنہ 19 رمضان المبارک کو جب فجر کی نماز پڑھانے جا رہے تھے تو عبد الرحمان ابن ملجم خارجی بدبخت نے آپ رضی اللہ پرتلوار کا وارکیا جس سے آپ رضی اللہ شدید زخمی ہوئے بالآخر 21 رمضان المبارک 40 ھجری کو اس علم و شجاعت کے علم بردار اور اہل اسلام کے دلوں کی دھڑکن نے دار البقاء کی طرف کوچ فرمایا، اور شہات کے درجہ سے فائز ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا اس دار فانی سے رخصت ہونا اہل اسلام کے لیے وہ کاری زخم تھا جسے کبھی بھی بھرا نہیں جاسکا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
45787