Chitral Times

Apr 18, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چترال اور جی بی کے نوجوانوں کے نام….قلم گفتہ : سیف رحمت الہی صمیمؔ

شیئر کریں:

اس عرضِ پاک کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی خاص رحمتوں سے نوازا ہے۔ قدرتی وسایئل سے ملامال ملک ِ پاکستان کا ہر علاقہ انتہائی دلکش اور اہمیت کے حامل ہے۔ سوات، ناران، کاغان، مری، اور قبائلی علاقہ جات ہو یا پھر وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اپنی قدرتی حسن کے لحاذ سے عالمی شہرت کے حامل ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے جو خوبصورتی چترال اور گلگت بلتسان کی وادیوں کو عطا کی ہے وہ بات ہی کچھ اور ہے۔ ربِ کائینات نے ان علاقوں کو اپنی قدرت سے جو حسن و جمال عطا کی ہے کمال ہے واللہ،، یہاں برف کے چادر اوڑھی بلند تریں چوٹیاں، ان اونچے پہاڑوں سے گرتے ہوئے آبشاریں، پہاڑی پہ مارخور کی مستی، سرسبز وادیوں میں بہتے ہوئے دریا جیسے دودھ کی ندی بہتی ہو اور ان دریاوؤں میں مچھلیوں کی موجیں،ٹراوٹ فش کا شکار، انگور، سیب، خوبانی، ناشپاتی، آخروٹ، بادام اور دیگر لذیذ پھل، مشہور جڑی بوٹیاں، چشموں کے صاف اور ٹھنڈے پانی،سفیدے اور چنار کے اونچے اونچے خوبصورت درختیں اور ان کے ٹھنڈے چھاووٗں میں نرم و نازک گھاس ساتھ پرندوں کی چہچاہٹ، تیتلوں کی پرواز، رنگ برنگ پھولوں کی خوشبو، گرتے آبشاروں اور بہتے دریاوؤں کی آوازیں، اور ساتھ چھاوؤں میں بیٹھے شاہی مزاج کے میٹھے لوگوں کی مہذب محفلیں اور لذیذ دیسی کھانوں کی ضیافت۔۔۔۔۔۔، واللہ ایسا محسوس ہوتاہے کہ خواب میں جنت کا دیدار ہو۔۔۔۔۔،


صرف یہی نہیں بلکہ ان وادیوں کو ربِ کائینات نے چھپے خزانے بھی عطا کی ہے، معدانیات سے مالامال ان علاقوں کی طرف اگر ہماری سرکارِ بدقسمت تھوڑی سی توجہ دے تو واللہ یقین سے کہتا ہوں کہ اس ملک کی تقدیر بدل جائیگی۔اپنی منہ میاں مٹھو بن کے ایک اور بات کروں تواچھاہوگا، یہاں کے باشندے بھی انتہائی مہذب، دلیر، خوبصورت، خوب سیرت اور اور سیدھے سادھے لوگ ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو خداداد صلاحیت سے نوازے ہیں،، لیکن ہمارے لوگوں میں ایک خامی و کمی پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کے باشندے اپنی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کرتے جو اللہ نے عطا کی ہے۔ بہت سارے ٹلینٹڈ لوگ ہیں لیکن وہ اپنی صلاحیت، اپنا فن اور مہارت اپنی اندر دفن کرکے رکھے ہیں، منظرِ عام پہ نہیں آتے، ان صلاحیتوں کا استعمال نہیں کرتے۔ تھوڑے بہت لوگ اگر کرتے بھی ہیں تو معاشرے میں ان کی حوصلہ آفزائی نہیں ہوتی۔ ہمیں ان باصلاحیت لوگوں کی حیات میں ان کی قدر نہیں ہوتی، نہ ان پہ کوئی فخرکرتے نہ ان کو آگے جانے میں سپورٹ کرتے ہیں اور نہ انکو وہ مقام دیتے ہیں جسکا وہ حقدار ہے،، ہم کرتے ہیں تو صرف ایک کام کہ مرنے کے بعد مرثیہ لکھتے ہیں اور قبر کے پہلو کھڑے ہوکے تعریفوں کے پل باندھتے ہیں۔


مثال اگر پیش کروں تو ہزاروں ہیں، لیکن ایک حالیہ واقعے کی طرف آپ کی توجہ دلاوں،، کچھ دنوں پہلے کے ٹو سرمائی مشن کے حادثے کا شکار ہونے والا ہمارا ہیرو علی سدپارہ جسکا نام سے ہم پہلے واقف ہی نہیں تھے، پتہ ہی نہیں تھا کہ علی سدپارہ بھی کوئی ہے، حالانکہ علی سدپارہ وہ شیردل جوان تھا جو دنیا کے چودہ بلندتریں چوٹیوں میں سے آٹھ بلند ترین چوٹیوں کو سر کرکے سبز ہلالی پرچم لہرادئے ۔ اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ چوٹیاں بعیر آکسجن کے سر کئے۔ جو کہ ورلڈ ریکارڈہے۔ اور علی کو یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ آپ موسم سرما کے دوران پاکستان کی دسری بلند ترین چوٹی ننگا پربت سر کرکے پاکستان کا جھنڈا لہر دیا تھا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں اور نہ ہر کوئی کرسکتاہے، ایسے کام سر انجام دینے کے لیے بھی جراء ت اور بہادری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور کوہِ پیمائی بھی ایک خداداد صلاحیت ہے۔ شکوہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ٹلینٹ کی قدر نہیں، خاص کر کے ہمارے چترال و جی بی میں بالکل نہیں۔ علی سدپارہ کو اسکی زندگی میں وہ مقام، وہ عزت اور وہ صلہ نہیں مل سکے، مرنے کے بعد لوگ مر ثیہ لکھنا شروع کر دئے، ٹی چینلز پہ تبصرہ ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا میں تعریفں اور اظہارِ محبت، اچھی بات ہے کسی کے کارناموں کے اعتراف میں اسے اچھے لفظوں میں یاد رکھنا، مگر کاش ملک و قوم کی یہ جذبہ یہ محبت علی سدپارہ اپنی حیات میں دیکھا ہوتا، اور اسے اپنی بہادری اور کارناموں کا کوئی صلہ مل جاتا۔ مختصر یہ کی علی نے اس ارضِ پاک کو بہت کچھ گفٹ کر کے چلا گیا۔ ملک کا نام اور بلتستان کا نام روشن کردیا۔مگر اس ملک کے سرکار نے سدپارہ کو کیا دیا۔ یہاں تک کہ علی سدپارہ کو وہ سہولیات ہی میسر نہیں تھیں جو انٹرنیشنل لیول کے کوہ پیماؤں کو میسر ہونی چاہئے۔

اب گلگت بلتستان کے گورنمنٹ یا وفاقی گورنمنٹ جو بھی علان کرے، جو مرضی اسکے نام چوک چوراہوں میں تختیاں لگائیں یا کسی سرکاری سکول کالج کا نام علی سدپارہ سے منسوب کریں، کوئی فائدہ نہیں۔ پہاڑوں کا بیٹا تھا، پہاڑوں سے محبت تھی اور پہاڑون کے آغوش میں سبز ہلالی پرچم کے ساتھ برف کے نیچے ہمشہ کے لئے سو گئے۔ الوداع علی سدپارہ میری چترال اور جی بی کے بہادر نوجوانوں سے اپیل ہے ، کہ اب ہم مشترکہ طور پر ایک تنظیم بنائے، جو ہمارے باصلاحیت نوجوانوں کی سرپرستی کرے، اور ان کی رہنمائی کرے اور ان کی مدد کرے۔ تاکہ وہ نشنل اور انٹر نشنل لیول پہ اپنی خدادا د صلاحیتوں کا لوہا منواسکے۔ ایک ایسی تنطیم جسکا رکن ہر گاؤں میں موجود ہو اور اپنے اردگرد معاشرے میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کا سراع لگائے، اور ان اس تنطیم کی وساطت سے ان باصلاحیت نوجوانوں کو آگے لایا جائے،لوکل، صوبائی اور وفاقی حکومت کی توجہ ان کی طرف مبذولکرائی جائے۔ میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہمارے علاقے میں بہت سارے نوجوان ایسے ہیں جنکی صلاحییتں چھپی ہوئی ہیں، ان کے سینوں میں ہی دفن ہیں۔ وہ ظاہر نہیں کرتے۔ جو تھوڑے بہت ظاہر کرتے ہیں تو وسائیل، سپورٹ اور رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے گھر و محلے تک محدودہو کے رہ گئے ہیں۔


ضروری نہیں کہ یہ ٹیلینٹ صرف پڑھے لکھے یعنی کالج یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات میں ہی ہو، یہ ایک عام بندے میں بھی ہوسکتاہے، ایک کارپنٹر میں ہوسکتاہے کہ وہ کوئی ایسی چیز بنائے جو ملکی سطح پرسراہا جائے۔جیسے چترال کے آیون اور رمبور میں ٹاپ لیول کے کارپنٹرز ہیں وہ یقینا کوئی عالمی ریکارڈ بناسکتے ہیں لیکن سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی محلہ اور گاؤں تک محدود ہیں۔ اسطرح کہیں ایک مستری میں ہوسکتا ہے جو کچھ نیا کر دیکھائے، ایک مدرسے کے قاری یا طالب علم بھی ہوسکتا ہے جو عالمی حسنِ قراٗت میں شرکت کرکے جیت جائے اور ملک کا نام روشن ہو۔ اور سائینس کے طلبا ء جن کی اگر سپورٹ کی جائے تو وہ کچھ نیا کرسکیں۔ اسی طرح موسٹ ٹلینٹڈ سنگرز بھی ہیں شاعرو ادیب بھی ہیں جن کی رہنمائی اور سپورٹ کی جائے تو یقینا وہ ہمارے علاقے اور ملک کا نام روشن کریں گے۔ ورنہ یہ گم نام ہیروز اسطرح چھپے رہیں گے جسطرح ہمارے معدنیات زیر زمین دفن ہیں اور ان سے ابتک کوئی فائدہ ہم حاصل نہیں کر سکے۔


آپ ا سپورٹ کی دنیا پہ نظر ڈالے، تو بہت زیادہ ٹیلینٹ ہے ہمارے علاقے میں، جسطرح چترال کے خوبصورت گاوں سنوغر سے تعلق رکھنے والا چترال سکاؤٹس کے مشہور پلیر شہزاد احمد شاہ جی نشنل لیول پہ چترال کا روشن کردیا۔ اب انٹر نشنل پولو میں انشااللہ پاکستان کا نام روشن کرے گا۔ اسطرح کرکٹ کی دنیا میں بھی بے شمار کھلاڑی موجود ہیں۔ لیکن سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے آج پی ایس ایل میں چترال اور جی بی سے کوئی ایک پلیئر نظر نہیں آرہا۔ حلانکہ چترال اور جی بی سے بھی ایک ٹییم کو پی ایس ایل میں نمائیندگی ملنی چا ہئے۔ مگر اس علاقے کو ہر بار نظر انداز کیا جا رہاہے جو کہ افسوناک ہے۔


آخر میں ایک بار پھر چترال و جی بی کے نوجوانوں سے اپیل کرتاہوں، کہ ایک مشترکہ تنطیم کی اشد ضرورت ہے جو ہر گاؤں میں موجود چھپی صلاحیتوں کا مشاہدہ کرے ان کو سامنے لائے اور تنطیم ان کی آواز و بازو بن کے لوکل، صوبائی، اور وفاقی حکومت کا گیریبان پکڑے اور ان کو سہولیات مہیا کروائے تاکہ وہ اپنی چھپی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ملک و قوم کا نام روشن کر سکے۔ ورنہ ہم ان ہیروز کے زندگی میں ان سے کوئی فائیدہ نہ اٹھاسیکں گے اور نہ پہنچاسکیں گے، بس مرنے کے بعد ان کو مٹی کے حوالے کرکے پھر مرثیہ لکھیں گے اور چوک چوراہوں میں ان کے نام کے تختیاں لگاتے پھریں گے۔

اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخِ امرا کے در و دیوار ہلادو

گلگت بلتستان و چترال زندہ باد
اللہ حافط
آز سیف رحمت الہٰی صمیمؔ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
45710