Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معاشی شرح نمو کا عوامی مطلب۔۔۔۔محمد شریف شکیب

شیئر کریں:

وفاقی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں چودہ روپے فی لٹر اضافے کی سفارش کومسترد کرتے ہوئے موجودہ قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے حکومت نے اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مجوزہ اضافے کی تجویز رد کر دی ہے۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے پٹرول کی قیمت میں 14.07روپے، ہائی سپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 13.61 روپے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 10.79روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 7.43 روپے اضافہ کرنے کی تجویزحکومت کو پیش کی تھی۔جسے وزیر اعظم نے قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ وزیرِ اعظم کا کہناتھا کہ حکومت عوام کو ریلیف کی فراہمی کے لئے ہر حد تک جائے گی۔چاہے اس کے لئے اوگرا، نیپرا، ایرا، پیرا جیسے اداروں کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے۔مگر عوام کا نمکین خون چوسنے کی جس کو لت پڑ گئی ہے وہ زیادہ دیر خون چوسے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ہوسکتا ہے کہ اگلے ہفتے چودہ کے بجائے اٹھائیس روپے فی لٹر اضافے کی سفارش کریں اور حکومت حسب معمول عوام کی محبت سے مجبور ہوکر اٹھائیس کے بجائے چودہ پندرہ روپے اضافے پر مجبور ہوجائے۔بنگال ٹائیگر کے حوالے سے کہانی کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ شیر، چیتا، ریچھ، بھیڑیا اور لکڑ بھگا جب ایک بارانسانی خون کا ذائقہ چکھ لے تو اسے انسانی خون کا سیگریٹ، نسوار، شیشہ، ہیروئن،چرس اور افیون کی طرح نشہ چڑھ جاتا ہے اور وہ آدم خور بن جاتا ہے۔ایک بار نشہ چڑھ جائے تو منہ سے لگی نشے کی لت پھر چھوٹنے کا نام نہیں لیتی۔ہمارے اداروں کو بھی قوم کا خون چوسنے کا نشہ چڑھ گیا ہے۔کہتے ہیں کہ پٹرول کی اصل قیمت34روپے لیٹر ہے۔ اور76روپے ایک لیٹر پر مختلف ٹیکس لگا کر عوام کو 110روپے لیٹر بیچا جاتا ہے۔ اسی طرح بجلی کی پیداواری لاگت ڈھائی روپے یونٹ ہے جو سولہ روپے ٹیکس لگا کر صارفین کو ساڑھے اٹھارہ روپے فی یونٹ بیچی جاتی ہے۔

فارسی کا محاورہ ہے کہ ”بہانہ جو را بہانہ ہائے بیسار است“حکومت کو قیمتوں میں مزید اضافے کے لئے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ چار ماہ پہلے پانی سے پیدا ہونے والی بجلی اچانک کم پڑگئی تھی ملکی ضروریات پوری کرنے کے لئے آئی پی پیز کو تیل سے اضافی بجلی پیدا کرنی پڑگئی جس پر چار ارب روپے کے اضافی اخراجات آئے۔ بجلی پیدا کرنے والی غریب کمپنیاں یہ نقصان برداشت نہیں کرسکتیں۔ انتہائی مجبوری کی صورت میں یہ بوجھ صارفین پر ڈالنا پڑا اور ان سے چار ارب کے نقصان کے بدلے دس ارب روپے وصول کرنے پڑے۔صارفین کی جیبوں سے نکالی گئی اضافی رقم کہاں خرچ ہوتی ہے اس بارے میں حکومت کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس کرتی ہے نہ ہی کوئی تفتیشی ادارہ اس کا نوٹس لیتا ہے۔

رواں ماہ کے دوران بجلی کے نرخوں میں تین جبکہ گیس اور تیل کی قیمتوں میں دو دو مرتبہ اضافہ ہوا ہے۔ ارباب اختیار و اقتدار کی جانب سے عوام کو دلاسہ دیا جارہا ہے کہ ملک کے معاشی حالت بہتر ہورہے ہیں جس کے ثمرات جلد عوام تک پہنچ جائیں گے۔ اگر معاشی بہتری کے اثرات آٹے، چینی، چاول، دالوں، چکن، انڈوں، پھل اور سبزیوں کے ساتھ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں تو پھر عوام بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ تبدیلی آ نہیں رہی۔ بلکہ تبدیلی آچکی ہے۔اگر مہنگائی کی شرح کم نہیں ہوتی تو معاشی شرح نمو کے سارے دعوے عوام کے لئے بے معنی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی عالمی وباء کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ مگر اب عالمی وباء کی شدت میں بھی کمی آرہی ہے، کاروبارزندگی معمول پر آرہا ہے۔دفاتر، کارخانے اور تعلیمی ادارے کھل چکے ہیں۔ معاشی سرگرمیاں پوری طرح بحال ہیں۔یہی موقع ہے کہ حکومت عام آدمی کو مہنگائی کی شرح میں خاطر خواہ کمی کی صورت میں ریلیف فراہم کرے۔


شیئر کریں: