
سیاسی عدم استحکام کی ذمہ داری……محمد شریف شکیب
افواج پاکستان نے واضح کیا ہے کہ فوج کا سیاست یا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیاست دان دانستہ طور پر فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے ایک وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ کسی اپوزیشن جماعت کے ساتھ بیک ڈور رابطے نہیں ہورہے۔ سیاسی لیڈروں کو،بغیر تحقیق کوئی بات کہنے سے گریز کرنی چاہئے۔اگر کسی کے پاس بیک ڈور رابطوں کے ثبوت موجودہیں تو سامنے لائیں قیاس آرائیوں سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں جو ملک کے مفاد میں نہیں۔پاکستان کی سیاسی تاریخ پر طائرانہ نظر دوڑائیں تو 34سال ملک میں فوجی آمریت رہی ہے۔فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا موقع بھی سیاست دانوں نے دیا تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک کے سیاسی حالات اتنے مخدوش ہوگئے کہ 1958میں فوج کو عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا پڑا۔ 1971کے انتخابات کے بعد انتقال اقتدار میں غیر معمولی تاخیر میں بھی سیاست دانوں کا ہاتھ تھا۔۔
1977میں اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک کے ذریعے نہ صرف ملک کا نظام مفلوج کردیا بلکہ باضابطہ طور پر فوج کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی دعوت دی گئی۔1988میں جمہوریت بحال ہوئی تو یہ امید کی جارہی تھی کہ سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرلیا ہے وہ آئندہ ملک کو سیاسی عدم استحکام کے راستے پر نہیں ڈالیں گے مگر یہ بھی خام خیالی ثابت ہوئی۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی حکومتوں کو دو دو مرتبہ کرپشن، لوٹ مار اور بے قاعدگیوں کے الزامات کے تحت اٹھاون ٹو بی کا شکار ہونا پڑا۔1998میں بھی فوج کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور کردیا گیا۔
2008میں جمہوری نظام کی بحالی کے بعد اگرچہ دو حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کردی مگرسیاست دان آج بھی ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ 1988کے بعد اقتدار میں آنے والی تمام پارٹیوں کو اسٹبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل رہی ہے۔ اگر آج برسراقتدار پارٹی کو اسٹبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے تو یہ کونسی انوکھی بات ہے۔ جو سیاسی جماعتیں گذشتہ تین عشروں سے برسراقتدار رہی ہیں انہوں نے سیاسی معاملات میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت روکنے کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی جبکہ ان کے پاس پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بھی تھی۔ آج جن اپوزیشن رہنماؤں کو کرپشن، بے قاعدگیوں اور قومی وسائل کی لوٹ مار کے مقدمات کا سامنا ہے وہ نئے مقدمات نہیں ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اپنے دور حکومت میں اپوزیشن پر یہ مقدمات قائم کئے تھے۔آج اسمبلیوں میں ایک دوسرے کے خلاف منتخب عوامی نمائندے جو زبان استعمال کررہے ہیں اس سے یہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو جمہوری اقدار سیکھنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔اب بھی وقت ہے۔ پانی سر کے اوپر سے نہیں گذرا۔
سیاسی قوتوں کو مل بیٹھ کر نیا میثاق جمہوریت وضع کرنا ہوگا۔ اقتدار کے لئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے سیاست کو ملک اور قوم کی خدمت کا ذریعہ بنانا ہوگا۔سیاسی جماعتوں کو جمہوری اقدار پر عمل کرنا ہوگا۔ موروثی سیاست کو دفن کرنا ہوگا۔جمہوریت کی نرسریوں کو بحال کرنا ہوگا تاکہ وہاں سے لوگ جمہوریت، سیاست اور ملک و ملت کی خدمت کی تربیت حاصل کرکے قومی ایوانوں تک پہنچیں۔آج ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ کورونا کی عالمی وباء نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کو تباہ کردیا ہے۔ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔ یہی موقع ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تمام سیاست دان سرجوڑ کر بیٹھیں، عوام کو مشکلات کے دلدل اور ملک کو خطرات سے نکالنے کی تدبیر کریں۔اگر جمہوریت ایک بار پھر خطرے میں پڑگئی تو ملک میں رائج برائے نام جمہوریت کا بھی بوریا بستر گول ہوگا اوراس کی تمام تر ذمہ داری سیاست دانوں پر عائد ہوگی۔