Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان۔۔۔میرے حصے کے بادلو: ..محمد جاوید حیات

شیئر کریں:

ساون پھر آن پہنچا ہے۔بادلو:برسات آئے گی۔تم جم کے برسوگے۔زمین جل تھل ہو گی۔دریاؤں میں طغیانیاں ہونگی۔یہ بپھر کر کناروں سے باہر آئیں گے۔ندیاں دریا بن جائیں گی۔نشیبی علاقوں میں فٹوں اونچا پانی کھڑا ہوگا۔فصلیں اس میں ڈوب جائیں گی۔درختیں اس میں کھڑے تنہا تنہا نظر آئیں گے۔۔لیکن بادلو:اس سے ان اونچے محلے والوں کا کچھ نہیں بگڑیگا۔وہ یا تو بہت سے اونچے اونچے ٹیلوں میں اپنے لیے محل بنا چکے ہونگے یا اپنے گرمائی مکانوں میں شفٹ ہو چکے ہونگے یا تو اپنی قیمتی گاڑیوں میں گرمائی علاقوں کی سیر پہ نکل چکے ہونگے۔وہاں پر فایو سٹار ہوٹلوں میں بارشوں کا مزا لے رہے ہونگے۔ان کے بچے بالکونیوں میں کھڑے تیرے بوندں کو اپنے چلو میں محفوظ کرنے کی کوشش کر رہے ہونگے اور ”ساجنیں ” جو پہلی برسات میں ساون کا ذکر کرکے وعدہ کر رہی تھیں۔۔۔کہ برسات میں جب ساون کا مہینہ آئے گاتو وہ اپنے ساجنوں کو انگوٹھی کا نگینہ بنائینگی۔۔


لیکن میرے حصے کے بادلو:تم جم کے نہ برسنا۔میرا کچامکان ہے وہ بھی دریا کنارے نشیب میں ہے۔اس کے اندر پانی بھر جائے گا۔میں کسی ”زندگی بچا?“کشتی میں کسی ملاح کے رحم و کرم پہ اٹھتے دریا کی خونی موجوں کو حسرت سے تکتا رہونگا۔۔ادھر اپنی جان پہ بنی ہوگی ادھر بچوں اور خاندان کی فکر ہوگی۔بچوں کی آنکھوں میں اترا خوف مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیگا۔پیچھے میرے خستہ مکان کی دیواریں ڈھ جائیگی۔دروازے چٹخ جائینگے اور سر پہ چھت نہیں رہے گی۔فصلیں تباہ ہوجائینگی۔تو اپنی مزدوری کے عوض کا غلہ بھی نہ ملے گا۔زندگی مزید قرضوں تلے دب جائے گی۔۔فیسیں چھڑینگی۔بل چھڑینگے۔قرضے چھڑینگے۔۔
بادلو:تم تو چھٹ جاؤ گے ساون گزرے گا مگر میں زندگی نام کے عذاب کا سامنا نہ کر سکوں گا۔


بادلو: ہمارے ہاں کے ”بڑوں ” اور ہمارے درمیان زمین آسمان کا فاصلہ ہے۔ہماری آہیں ان تک نہیں پہنچ سکتیں۔نہ ان کے پاس ایسی آنکھیں ہیں جو ہمیں دیکھ سکیں۔ان کے پاس نہ ایسے دل ہیں جو ہماری حالت پہ تڑپ اٹھیں۔نہ ان کے پاس اتنا وقت ہے کہ ہمیں دے سکیں۔ان کواپنی عیاشیوں اور دنیا کی آسایشوں سے فرصت نہیں ان کو گھمنڈ ہے کہ یہ آسایشیں ان کے قدم چومتی ہیں۔ان کے محلوں کے اندر پانی داخل نہیں ہوگا۔ان کے کارخانوں کی پیداوار میں کمی نہیں آئی گی۔ان کا کاروبار چلتا رہیگا۔۔ان کا چولہا جلتا رہے گا کبھی ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ان کے بچوں کو فیس کی آدائیگی کا مسلہ نہیں ہوگا۔نہ کسی دکان پہ ان پہ قرض چھڑیگا۔۔
بادلو:وہ تمہیں enjoy کرینگے۔ان کو ساون کا انتظار رہتا ہے۔


حکومتیں آنے سے پہلے غریبوں کو گھر دینے کا وعدہ کرتی ہیں پھر آنے کے بعد ان کا وعدہ وفا نہیں ہوتا۔پہلی دفعہ بھٹو صاحب نے اپنا نعرہ مستانہ بلند کیا۔۔۔”روٹی۔۔کپڑا۔۔مکان ”۔۔۔وہ روٹی مہیا کرنے کی تگ و دو میں تھے کہ قہر کا شکار ہوگیا۔پھر اس کے بعد کسی نے یہ نعرہ نہیں لگایا۔ان کے اخلاف اپنے اقتدار کے نشے میں سب کچھ بھول گئے۔خود ان کے ایوان اقتدار کے نزدیک تھر میں ہم بھوک سے بلکتے بلکتے مر کھپتے رہے۔کسی کو احساس نہیں ہوا۔۔سندھ کے بیہاری۔۔بلوچستان کے سرداروں کے ظلم وستم کی چکی میں پسے ہوئے مقہورو مجبور۔۔پنجاب کے چودھریوں کے پنجوں میں گرفتار مزارع۔۔”سرحد” کے خان خوانین کے وفادار۔۔قبائل کے سرداروں کے وفادار۔۔سابق ریاستوں کے سابق شاہوں کے منہ تکنے والے مظلوم اب بھی بے گھر و بیدر ہیں۔ان کو کیا پتہ کہ محلوں اور ایوانوں میں کیا ہوتا ہے۔۔۔محلوں اور ایوان والوں کو ہماری جھونپڑیوں کے اندر کی دنیا کا ادراک نہیں۔۔شام کے بعد یہ سورج کسی کے گھر نہیں اترتے۔ان کو اندھیروں کا کیا پتہ۔۔۔۔


قسم سے میرے حصے کے بادلو: مجھ پہ رحم کرو۔۔۔جم کے مت برسوں۔۔۔یہاں پر اندھیر نگری ہے۔۔یہاں پر عوام دوست حکومت ہو۔۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام لانے والے ہوں۔۔۔جیالوں کی حکومت ہو۔۔۔سب سے پہلے پاکستان ہو۔۔۔۔یا کسی اور کی حکومت ہو۔۔۔اندھیر نگری میں کسی سے کوئی توقع نہیں۔۔۔تم تو جم کے برسوں گے۔۔مگر ہم تیرے بپھرے ہوئے دریاؤں کی موجوں کی نذر ہو جائیں گے۔۔۔ ہمارا نام لینے والا کوئی نہیں۔۔۔۔۔بادلو: تم جم کے برسوں گے پھر چھٹ جاؤگے۔۔۔مگر ہمیں کوئی باغی اور من چلا موج اپنے ساتھ بہا کر لے جائیگی۔۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
45353