Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

”کشمیر کیوں بنے پاکستان“…..تحریر:اعجازرانا

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

(قلم کاروان کی ادبی نشست منگل مورخہ 2فروری میں پیش کیاگیا)

                کشمیر کے جو موجودہ حالات ہیں اس سے تو آپ لوگ بخوبی واقف ہیں۔ لہذا میں بات کرونگا کشمیر کیوں بنے پاکستان؟ جموں و کشمیر کا علاقہ عموماً کوہستانی ہے اور اس میں پانی بھی زیادہ ہے اور ہر موضع کے پاس کوئی نہ کوئی ندی نالہ ضرور بہتا ہے۔یہ علاقہ پنجاب کے شمال مشرق میں واقع ہے اور جموں اور کشمیر کے شمال میں کوہ قراقرم اور ترکستان واقع ہے اور جنوب میں پنجاب کے انگریزی علاقہ کے اضلاع نیز ریاست چمبہ، مشرق میں چین تبت اور ریاست نیپال اور مغرب میں کوہ ہندوکش اور افغانستان وغیرہ ہیں۔ ریاست کا آئینی رقبہ تقریباً اڑسٹھ ہزار میل اور اگر اس میں لدّاخ و گلگت وغیرہ بھی شامل کر لیاجائے تو اس کا رقبہ 84 ہزار مربع میل ہو جاتا ہے۔ کشمیر کے باشندے بالعموم جفا کش، سفید رنگ اور شکیل ہیں۔ ان میں 75% باشندوں کاپیشہ زراعت اور باقی پچیس فی صد کا صنعت و حرفت ملازمت اور تجارت ہے۔ ریاست جموں و کشمیر طبعی طور پر تین حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ اعظم ہمالیہ، دوئم کوہ ہمالیہ اور حصہ سوئم کوہ ہمالیہ کے پار کے علاقہ جات پر مشتمل ہے کوہ ہمالیہ کے علاقہ کو کشمیر کہا جاتا ہے۔ کشمیر مغربی ہمالیہ میں سطح سمند ر سے تقریباً 6 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس کی بناوٹ ایک بڑی ناہموار اور بیضاوی شکل کی ہے۔ اس کے بیچ میں اس طرح کی ناہموار وادی ہے جو چاروں طرف سے پہاڑوں کے سلسلہ سے گھری ہوئی ہیں۔یہی پہاڑوادی کو عرصہ داراز تک بیرونی حملوں سے بچاتے رکھا اور انہی نے کشمیرکو ایک نمایاں انفرادیت کی تاریخی حیثیت بخشی ہے۔یہ علاقہ تقریباً 84 میل لمبا اور چوڑائی 20 سے 25 میل تک ہے۔ اس کا رقبہ 18 ہزار مربع میل کے قریب ہے اور یہ پورا علاقہ اُونچے پہاڑوں سے گھر اہوا ہے انہوں پہاڑوں نے اسے بیرونی حملوں سے بچائے رکھا۔

                ریاست جموں و کشمیر جسے عام طور پر صرف کشمیر ہی کہا جاتا ہے 5 ہزار سال قبل مسیح سے تاریخ کی کتب میں ضرور ملتے ہیں۔ شروع میں یہاں تقریباًچھ سو سال تک دیا کرن اور اُس کے پچاس ورثا حکومت کرتے رہے یہاں تک کہ 250 ق م میں اشوک نے کشمیر کو فتح کیا اور بدھ مت اور ثقافت کو رواج دیا۔ بدھ ت کے پیروؤں کی حکومت نو سو سال تک قائم رہی لیکن اس طویل ترین عرصہ حکومت کے باوجود کشمیر پر بُدھ مت کا رنگ غالب نہ آسکا۔ یہ دور مجموعی طور پر امن وامان آشتی کا دور تھا۔ اس دور میں حکمرانوں نے جو عمارات اور مندر تعمیر کیے اُن کے کچھ نشانات آج بھی ریاست میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ ریاست کشمیر میں اسلام کی موثر اور منظم تبلیغ 14 ویں صدی عیسوی کے آغاز میں شروع ہوئی۔ کشمیر میں اسلا م کے سب سے پہلے کامیاب مبلغ حضر ت بلا ل شاہ تھے۔ 1326 ء میں سلطان صدرالدین کی وفات کے بعد ریاست اندرونی شورشوں کا شکار ہوگئی اور ایک عرصے تک بد نظمی اور طوائف الملوکی کا دور دوراہ رہا پھر سلطان شمش الدین نے 1343 ء میں تاج و تخت سنبھالا اور ریاست میں امن و امان قائم کیا۔سلطان شمش الدین کا خاندان ڈھائی سو سال تک کشمیر میں بر سر اقتدار رہا۔ 1750 ء میں احمد شاہ ابدالی نے کشمیر کو فتح کیا اور 1819 ء تک کشمیر پر پٹھانوں کی حکومت رہی۔ پٹھانوں کا رویہ مقامی لوگوں سے اچھا نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ جب 1818 ء میں رنجیت سنگھ نے برصغیر کے شمال مغربی علاقوں کو فتح کرنے کے بعد وسیع تر سکھ ریاست کا منصوبے کے تحت کشمیر پر حملہ کر دیا اور مقاممی لوگوں نے پٹھانوں کا ساتھ نہیں دیا۔ لہذازرنجیت سنگھ نے بڑی آسانی سے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ سکھوں نے تقریباً تیس (30)سال تک ریاست پر حکومت کی اور یہ دور ظلم و تشدد اور جبرو استبداد کا وہ تاریک ترین دور تھا جس سے کشمیریوں کو واسطہ پڑا۔

                مسئلہ کشمیر کو سمجھنے اور منصفانہ حل تلاش کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اُس مسئلہ کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ مسئلہ کشمیر اور اُس کے ممکنہ حل کے بارے میں یہ جو طرح طرح کی بولیاں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اکثر حضرات کے ذہن میں مسئلہ کی اصل نوعیت واضح نہیں ہے۔ اکثر لوگ کشمیر کے مسئلہ کو ایسے تنازعہ کے طورپر جانتے ہیں کہ دو ملکوں کے درمیان ایک خوبصورت خطہ پر قبضہ کرنے کی خواہش ہے لیکن مسئلہ کی اصل نوعیت یہ نہیں ہے۔اپنی اصل میں یہ مسئلہ محض کشمیر ہی کا نہیں بلکہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ برصغیر ہندوستان کی تقسیم دو قومی نظریے کی بناء پر عمل میں لائی گئی تھی۔ تقسیم سے قبل کانگریس کا موقف یہ تھا کہ بر صغیر میں صرف ایک قوم آباد ہے جس کا نام ہندوستانی ہے اور یہ کہ مذہبی بنیادوں پر ملک کی تقسیم عمل میں نہیں لائی جاسکتی۔ برعکس اس کے مسلمانان ہند اپنے الگ وجود پر مصر تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں۔ ہندو اور مسلمان۔مسلم لیگ نے اسی دو قومی نظریے کو اپنی جدوجہد کا محور و مرکز بنایا اور اس دو قومی نظریہ کا نام ہی پاکستان ہے۔ مسلمانوں کی عظیم الشان قربانیوں اور ان تھک جدوجہد کے نتیجے میں کانگریس نے بآمر مجبوری  ہندوستان کی تقسیم تو منظور کر لی لیکن اس نے دو قومی نظریے یعنی قیام پاکستان کی اصل اساس کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔

دوقومی نظریہ کا سیاسی اور قانونی پیرانہ اظہار وہ قانون آزادی تھا جس کے مطابق بر صغیر کی تقسیم عمل میں آئی۔ اس قانون میں تقسیم کا جو فارمولا وضع کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے اور ہندو اکثریت کے علاقے ہندوستان کہلائیں گے۔لہذا کشمیر مسلم اکثریت کا علاقہ تھا اور اُس کے ساتھ ہی ساتھ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کی سرحدوں سے ملحق بھی تھا۔ چنانچہ تقسیم کے اس اُصول کے مطابق اسے لازماً پاکستان میں شامل ہوتا چاہیے تھا مگر بھارت نے تشدد اور فریب سے کام لے کر کشمیر کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔جب پاکستان کی طرف سے مطالبہ کیاجاتا ہے کہ کشمیر کو پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تو دراصل اس مطالبہ کی بنیاد تقسیم کے اس اُصولی فارمولے پر ہوتی ہے۔

جودو قومی نظریہ کو تسلیم کرکے وضع کیاگیاتھا۔ لیکن اگر بھارت کی طرف سے پاکستان کے اس مطالبے کو مسترد کیاجاتا ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ بھارت دوقومی نظریے اور خود پاکستان کے وجود کو مسترد کر رہا ہے۔ گویا کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کے حق کو چلینج کرنے سے لازمی اور منطقی طورپر جو سوال سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آیا پاکستان کو بھی اپنا وجود برقرار رکھنے کا حق ہے یا نہیں؟اس پس منظر میں مسئلہ کشمیر مسئلہ کشمیر نہیں بلکہ مسئلہ پاکستان بن جاتا ہے۔ اب جو حضرات پاکستان کو کشمیر سے دست بردار ہونے کا مشورہ دیتے ہیں وہ سوچ سکتے ہیں کہ اُن کے اس مطالبے کی اصل زد کس پر پڑتی ہے؟اگر صر ف کشمیر کے خیال کو ترک کردینے کا ہی سوال درپیش ہوتا تو شاید پاکستان کی اساس، دو قومی نظریہ، معرض بحث ہے اور اس خیال کو ترک کر دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم پاکستان کا خیال ترک کر دیں۔ اس امر پر خود بھارتی مصنفین اور سیاستدان بھی گواہ ہیں کہ کشمیر پر اُن کے قبضے کا اصل مقصد دو قومی نظریے کو شکست دینا ہے۔ جبوتی بھوش داس گپتا نے بالکل بجا کہا ہے کہ اگر کشمیر پاکستان کے ہاتھ سے جاتا ہے تو یہ دراصل نظریہ پاکستان، نظریہ پاکستان کی شکست ہوگی۔ پھر اس کے بعد ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے پاکستان کے وجود کے خاتمے میں کچھ زیادہ وقت نہیں لگے گا۔

                اسطرح ایک اور بھارتی صحافی کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اگر اس نظریے کے تحت ہندوستان کی تقسیم عمل میں آئی تھی یعنی یہ کہ مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے۔ کوئی صداقت موجود ہے تو کشمیر لازماً پاکستان ہی کا حصہ ہے۔ لیکن اگر کشمیر پاکستان میں شامل نہیں ہوتا تو پھر اس نظریے کی ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آلگے گی اور کانگریس کے سیاسی مدبرین اُس نظریے کی بنیاد ہی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ جس پر پاکستان وجود میں آیا تھا پس جہاں بھارت کشمیر کے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ کشمیر کے بغیر پاکستان کے زندہ رہنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا۔ان حالات میں کشمیر ہمارے لئے کسی تنازعے یا جھگڑے کانا م نہیں ہے جسیے کسی عدالت میں پیش کر کے اس پر فیصلہ کرالیا جائے یااس سے  متعلق کم و بیش پر لین دین کرکے ختم کر دیا جائے یہ دراصل دو مختلف نظریہ حیات کا تصادم ہے۔ کانگریس نے تقسیم محض اس وجہ سے قبول کی تھی کہ ایسا کرنا اس کیلئے ناگزیر ہوچکا تھا لیکن اس نے دو قومی نظریے کو تسلیم نہیں کیا اور دو قومی نظریہ کے خلاف کانگریسی قیادت کی جدوجہد قیام پاکستان کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔

اب یہ جہدوجہد کشمیر کی سرزمین پر جاری ہے اور اگر بھار ت یہاں کامیاب ہوجاتا ہے تو ا س کا صاف صاف مطلب یہ ہوگا کہ ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے پاکستان کا وجود بھی محض بحث میں پڑ سکتا ہے مسئلہ کشمیر کی اصل اہمیت اس مرکزی نکتے میں ہے کہ دو قومی نظریے کے جواز پر مسلمانوں اور ہندوؤں کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میدان جنگ البتہ تبدیل ہو چکا ہے۔ ہمارا ملک پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے جس نے دو قومی نظریہ کی کوکھ سے جنم لیا اور اس دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ مسلمانان ہندوستان نے یہ خطہ نفاذ اسلام کیلئے حاصل کیا تھا۔ دو قومی نظریہ کی تقسیم کے فارمولے کے تحت قدرتی طورپر وادی کشمیر پاکستان کا حصہ ہے لہذ ا پاکستان کشمیر کے بغیر نامکمل ہے۔اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت پانی کے بغیر ممکن ہی نہیں لہذا ہمای فصلیں اناج سبزیاں انواع و اقسام کے پھل اسی پانی کے مرہون منت ہیں۔ جو پانی وادی کشمیر سے بہتا ہوا ہمارے پیارے پاکستان میں پہنچتا ہے اور ہماری فصلوں کو سیراب کرتا ہے۔

لہذا اسلئے کشمیر بنے گا پاکستان

و ما علینا الا لبلاغ

aijazhussainrana@gmail.com


شیئر کریں: