Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

دھڑکنوں کی زبان…….”آخر وہاں پر کیا نیا ہے“…..محمد جاوید حیات

شیئر کریں:


سکول میں ہم ایک انگریزی نظم پڑھا کرتے تھے۔۔نظم میں انگلینڈ کے ایک شریر بچے کا ذکر تھا۔ انگلینڈ کا ایک شریر بچہ سوچتا ہے کہ کیا دوسری دنیا بھی انگلینڈ جیسی ہے۔کیا دوسری دنیا کی زمین بھی سخت ہے کیا وہاں کے پہاڑ، دریا جنگلات سمندر ابشار اس جیسے ہیں۔۔کیا وہاں بھی پرندے ہوتے ہیں۔لوگ سکارڈ لینڈ کی بہت تعریفیں کرتے ہیں۔۔ایک دن یہ شریر بچہ انگلینڈ سے بھاگ کر سکارڈ لینڈ چلا گیا۔۔یہ سب کچھ دیکھنے گیا۔۔۔وہاں پر وہ زمین کے فرش پر کھڑا ہو گیا۔۔ اور سوچنے لگا۔۔دیکھا کہ یہاں کی زمین بھی اسی طرح سخت ہے۔ یہاں بھی ابشار اور جھرنے اسی طرح گرتے ہیں۔یہاں بھی پھلوں کا ذائقہ ویسا ہی ہے۔یہاں بھی پہاڑ بلند ہیں یہاں پر بھی ا ٓسمان نیلا ہے۔یہاں پر بھی باد نسیم چلتی ہے۔۔وہ حیران ہوا۔۔کچھ دیر اپنے پاؤں پر کھڑا رہا پھر دوڑ کر واپس آیا۔۔اب لگتا ہے کہ نظم بہت خوبصورت اور سبق آموز تھی۔ استاد نے یہ پڑھاتے ہوئے آہ بھرا تھا۔اور کہا تھا بچو! اپنا گھر سب کو پیارا ہو تا ہے۔۔پھر کہا تھا اپنے گھر سے پیار کرنا چاہیے۔انہوں نے ایک اور جملہ انگریزی کا پڑھ کر اس کا ترجمہ ہمیں سنایا تھا۔۔۔مشرق ہو یا مغرب گھر ہی اچھا ہے۔۔یعنی گھر اگر مشرق میں ہو تو مشرق اچھا ہے اگر مغرب میں ہو تو مغرب اچھا ہے۔۔۔

شرط گھر کا ہونا ہے جغرافیے اور سمت کا نہیں۔پھر استاد محترم نے رین بسیرا کو جملے میں استعمال کیا تھا۔۔میرا وطن میرا رین بسیرا ہے۔۔۔اور مزید اس کی وضاحت کے لیے کھوار زبان میں رین بسیرا کے لیے جو خوبصورت فقرہ استعمال ہو تا ہے وہ بتایا تھا۔۔یعنی”بویئکو ژوخ وطن“۔۔جب ہم بڑھے ہو گئے تو دیکھا کہ الحمد اللہ ہمارا اپنا رین بسیرا ہے۔۔یہ بہت خوبصورت ہے اس میں سب کچھ خوبصورت ہے۔چار قسم کے موسم، مختلف آب و ہوا، موزون ترین جغرافیہ،سمندر پہاڑ دریا،بادل برکھا نسیم،معدانیات سے مالا مال۔۔لیکن پھر حیرانگی یا بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اس کے باشندے انگلینڈ کے شریر بچے کی طرح بھاگ کر سکارڈ لینڈ جانا چاہتے ہیں بلکہ بھاگ جاتے ہیں۔۔صلاحیت لے کر بھاگ جاتے ہیں پیسے لے کر بھاگ جاتے۔۔وہاں پر گھر بنا کر بھاگ جاتے ہیں۔۔یہاں پر مسافروں کی طرح رہتے ہیں۔کوئی اس کو رین بسیرا کہنے کو تیار نہیں۔۔حالانکہ وہاں پر موزوں آب و ہوا تک نہیں۔۔چین میں دلدل ہے۔۔روس میں کڑاکے کی سردی میں زندہ رہناحال ہے۔انگلینڈ میں قد آدم برف ہے۔اسٹریلیا میں دن رات کا مزہ نہیں۔

افریقہ جنگل ہے عرب صحرا ہے۔۔امریکہ انسانوں کی بستی نہیں لگتا۔۔لیکن فرق کیا ہے یہ ہے کہ وہاں کے مکین معمار بھی ہیں پر خلوص بھی ہیں غیرت مند بھی ہیں۔چاہیے تھا کہ ہم وہاں ہوتے وہ یہاں ہوتے وہ اس جنت نظیر کواور جنت بنا کے دنیا کو دیکھاتے۔ہم وہاں ہوتے تو ان صحراؤں میں بھٹکتے پھرتے ویسے بھی جینے کا سیکھنا ہمیں پسند نہیں۔۔۔۔۔

تو شپ افریدی چراغ افریدم۔۔۔سفال افریدی ایاغ افریدم۔۔
وہ جب غاروں میں تھے تو ہم جاگ رہے تھے۔وہ جب جہالت کے اندھیروں میں تھے تو ہم علم کو میراث کے طور پر لے رہے تھے۔پھر ان میں غیرت آ گئی ہم پاؤں پھیلا کر گھوڑا بھیج کر سو گئے۔وہاں یونیورسٹیاں ہیں یہاں کچھ نہیں وہاں ٹیکنالوجی ہے یہاں کچھ نہیں۔وہاں تعمیر ہے یہاں تخریب ہے وہاں دیانت اور خلوص ہے یہاں بد دیانتی ہے۔۔وہاں محنت اور جستجو ہے یہاں لا پرواہی اور غفلت ہے۔وہاں سلیقہ اور سنجیدگی ہے یہاں بے ہودگی اور چھچھور پن ہے اس لئے یہ جنت نظیر جنت نہیں بن سکتا۔۔ہماری سیاست بچوں والی ہے۔ہم گھروندے بناتے ہیں پھر ڈھا دیتے ہیں۔ہم تخریب کو تعمیر سمجھتے ہیں۔ہمارے سامنے منزل نہیں ہوتی دو قدم کی پگڈنڈی ہوتی ہے۔ہمارے سامنے قوم نہیں ہوتی ایک ہجوم ہوتا ہے۔ہجوم کی کسی کو کیا فکر ہو۔۔۔دوسری دنیا میں کہیں بھی کوئی چیز نئی نہیں البتہ ان کی محنت اور جان فشانی نئی ہے۔۔ان کا خلوص نیا ہے۔۔جو ہمیں نیا لگتا ہے۔۔ہم میں اتنا شعور اور غیرت بھی ابھی پیدا نہیں ہوئی جو انگلینڈ کے اس شریر بچے کے پاس تھا۔۔۔شعور نیا پن ترقی اور ٹیکنا لوجی کے اس تیز دورمیں ہم کیسے کسی کا مقابلہ کریں۔۔۔اس پاک سر زمین کا ہم سے یہ شکایت ضرور ہے۔۔۔کہ ہم کیا”نیا“ دیکھنے باہر جاتے ہیں۔۔۔


شیئر کریں: