Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لڑکیوں کی فٹبال ٹریننگ اورسوشل میڈیا۔۔۔۔احتشام الرحمن

شیئر کریں:

پاکستان اسپورٹس کمپلیکس، اسلام آباد، میں چترالی لڑکیوں کے فٹبال ٹریننگ کے حوالے سے دو انتہا پسند نظریات سامنے آرہے ہیں۔ ایک طبقہ اس کو ”عزت و ناموس“ کا مسئلہ قرار دے رہا ہے اور دوسرا طبقہ لڑکیوں کے کھیلوں میں شمولیت کو ”عورت کے مسائل“ کے حل کا واحد ذریعہ بنا کر پیش کر رہا ہے۔ حالانکہ دونوں نظریات اور خیالات انتہا پسندی پر مبنی ہیں۔

پہلی بات تو یہ کہ جو لڑکیاں فٹبال کھیلنے کی غرض سے اسلام آباد گئی ہیں وہ اپنے ماں باپ کی اجازت سے گئی ہیں۔ اگر وہ غیر شادی شدہ ہیں تو ان پر صرف ان کے ماں باپ کا حق ہے اور اگر شادی شدہ ہیں تو صرف شوہر کا۔ کسی اور کو ان پر حق جتانے کی نہ معاشرہ اجازت دیتا ہے نہ ہی اسلامی قوانین۔

دوسری بات یہ کہ فٹبال کھیلنا کوئی غلط کام نہیں نہ اس سے اسلام کو کوئی خطرہ ہوگا نہ ہی کوئی بے حیائی پھیلے گی۔ پردہ دار خواتین پردے ہی میں رہیں گی اور پردہ نہ کرنے والی خواتین پر پردے کو مسلط کر کے انہیں ”اچھا مسلمان“ نہیں بنایا جا سکتا ہے۔ اگر بالفرض وہ دباو میں آ کر پردہ کر بھی لیں تو اسلام یا پاکستان کے لئے کوئی اثاثہ ثابت نہیں ہوں گے بلکہ وہ معاشرے کے لئے ایک بوجھ بنیں گی۔

دوسرا طبقہ جو اس کو عورت کی ”آزادی اور خودمختاری“ کے ساتھ جوڑ رہا ہے وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہے۔

جب بھی ہم حقوق نسواں کی بات کرتے ہیں تو پہلی غلطی یہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کی عورت کے مسائل کو ”مغربی عینک“ سے دیکھتے ہیں۔ اور جب عینک کا نمبر ہی غلط ہو تو آگے کا پورا منظر ہی دھندلا دکھائی دے گا اور ہم اپنے مقام تک پہنچنے کی بجائے بھٹکتے پھریں گے۔

پاکستانی عورت، خاص کر کے چترالی عورت، کے مسائل مغربی عورت کے مسائل سے یکسر مختلف ہیں۔ مشرق کی عورت کو وہ بنیادی حقوق تک نہیں ملے ہیں جو مغرب کی عورت کو آج سے 70 سال پہلے مل چکے ہیں۔ اعلی تعلیم تک رسائی، وراثت کے حقوق سے محرومی، کم عمری کی شادی، حق مہر کی عدم ادائیگی، گھریلو تشدد (ذہنی یا جسمانی) وہ چند ایک مسائل ہیں جن سے ہر پاکستانی لڑکی بالعموم اور ہر چترالی لڑکی کا بالخصوص واسطہ پڑتا ہے۔ اس کی اکثریت کو ابھی تک تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں ملی ہے۔ اگر کسی تعلیمی ادارے تک رسائی ملتی ہے یا کوئی اچھی نوکری ملتی بھی ہے تو وہاں ان کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

فی الحال مشرقی عورت کی خود مختاری تعلیم کے حصول اور اچھی سماجی پوزیشن کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔ اچھی تعلیم حاصل کر کے ہی وہ اپنے حقوق سمجھ بھی سکتی ہے اور ان کے لئے لڑ بھی سکتی ہے۔ اچھی تعلیم حاصل کر کے، اچھی پوزیشن پر پہنچ کر ہی تو ہی کئی اور بے سہارا لڑکیوں کا سہارا بن سکتی ہے۔

بحیثیت تفریح اور ورزش میں ہر اس کھیل کی حمایت کرتا رہا ہوں جو کہ عورت کی جسمانی اور ذہنی نشو و نما کے لئے انتہائی ضروری ہے لیکن فٹ بال کو بحیثیت ایک پروفیشن اپنانے کے مرحلے تک نہیں پہنچے ہیں۔ کیونکہ کئی دوسرے مسائل کے علاوہ پاکستان میں فٹبال کی جو حالت ہے اس کے بعد اس کو بحیثیت پروفیشن اپنانا کسی طور بھی دانش مندی نہیں ہے۔

کرشمہ کو پاکستان کی نمائندگی کرنے کا ایک موقع ملا جس پر فخر ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں خود اس کو داد دیتا ہوں کہ اس نے جن مشکلات کا سامنا کر کے ملکی ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کی وہ باعث اعزاز ہے۔ لیکن جب حقوق نسواں کے حوالے سے اس کی کارکردگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے مایوسی ہوتی ہے۔ میری نظر میں وہ چترال میں کوئی سٹڈی سرکل بنا کر، ایک ٹیم تشکیل دے کر جو گاؤں گاؤں جا کر عورتوں کے مسائل سنے، یا کسی تنظیم کی بنیاد رکھ کر، ان کے لئے کوئی لائحہ تیار کر کے عطیات لا کر ان کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کرتی تو یہ زیادہ پر اثر اور دیر پا ہوتا، بنسبت فٹ بال ٹریننگ کے۔

لیکن کیا کہا جا سکتا ہے۔ اول تو ہم مسلمان ہیں، اوپر سے پاکستانی اور بدقسمتی سے چترالی، تو ہمارا ”کاسمیٹک“ چیزوں کی طرف راغب ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ جب بھی ہم کوئی کام کرنے نکلتے ہیں تو مستقبل قریب کی چیز پر ہی نظر ہوتی ہے۔ کرشمہ کے ٹریننگ سے ان پینتیس لڑکیوں کا فائدہ ہوگا لیکن اس کے اس عمل سے قدامت پسند لوگوں کو بیٹیوں کو تعلیم ہی سے محروم رکھ کر مزید قید کرنے کا جواز مل جائے گا۔ ”تعلیم سے بیٹیاں بگڑ جاتی ہیں“ یا ”فٹ بال کھیل کر بے راہ روی کا شکار ہوتی ہیں“ جیسی بے تکی باتوں کو جواز بنا کر اپنی بیٹیوں کو قید کرنے اور اعلی تعلیم جیسی اہم اور بنیادی حق سے محروم رکھنے کا بہانہ مل جائے گا جو کہ کسی خطرے سے کم نہیں۔

میری ذاتی رائے یہ ہے کہ کرشمہ کے مخالفین کو اس پر ”لعنت“ بھیجنے کی بجائے اسے کوئی ایسا پلان دینا چاہیے کہ وہ اپنی اثر و رسوخ اور ذرائع کو استعمال کر کے لڑکیوں کی بہتری کے لیے کچھ کرے۔ اور کرشمہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ چترال کے دیہات کی لڑکیوں کے اصل مسائل کو سمجھنے کے لئے ٹیم ورک کر کے ان کے حل کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرے۔

اگر پہلے طبقے میں یہ صلاحیت نہیں ہے تو وہ ان لڑکیوں کو ان کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے دیں اور اگر کرشمہ یہ سمجھتی ہے کہ دوسرے مسائل حل ہو گئے ہیں اور فٹ بال ہی عورت کی آزادی کا واحد حل ہے تو وہ غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی ہے یا اسے غلط گائیڈ کیا جا رہا ہے۔ دونوں طبقوں کو پھر سے سوچنے کی ضرورت ہے کیوں کہ دونوں ہی لڑکیوں کی بہتری چاہتی ہیں۔ وہ تنگ نظری، نفرت اور بغض سے حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ اس کے لئے ٹیم ورک اور ایک دوسرے کو سمجھانے سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھنے اور مسائل کو جاننے سے ہی حل ہو سکتا ہے۔


شیئر کریں: