Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عدل اوراسلام کی معاشی اقدار…..ڈاکٹر ساجد خاکوانی(اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

                بسم اللہ الرحمن الرحیم

                اسلامی نظام حیات نے ایسی جامع اقدارمتعارف کرائی ہیں جو اس پورے نظام کا خاصہ ہیں اور اس میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلامی تصورزندگی کا وہ سیاسی نظام ہو کہ اقتصادی ڈھانچہ،مذہبی رسومات ہوں یا پھر معاشرتی روایات کا مجموعہ یا مجرد انفرادی و اجتماعی شخصیت کی تعمیر کے منفرد زاویے ہوں یا پھر تعلیمی سرگرمیوں کامرکزومحور ہو،غرض یہ اقدارایسی شاہ کلید ہے جس سے پورے نظام کے مسائل حل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں جن جن مسائل کے بڑے بڑے سے تالوں کے سوراخ میں گھماتے رہیں وہ تالے چشم زدن میں کھلتے نظرآتے ہیں۔انسانی زندگی کی بے پناہ الجھی ہوئی معاشی واقتصادی ڈورکا بھی ایک سرا اگر ان گرانقدراقدارکے ہاتھ میں تھما دیا جائے تووہ سارے گنجل ایک ایک کر کے کھلتے اور سلجھتے چلے جائیں جنہیں صدیوں سے انسانی عقل نے سلجھانے کی فکر میں اس قدر الجھادیاہے کہ بظاہر ان کا کوئی حل نظر ہی نہیں آتااور اگرایک طرف سے کوئی سلجھاؤ کی صورت بنتی ہے تو چاروں دیگراطراف اسے مزید گنجلک تر کر دیتے ہیں اور اس دلدل میں انسان ناک تک اتر کر قبر میں سدھارجاتاہے اور منوں مٹی اگلی نسل کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔

                                عدل کا مطلب ”سیدھاکرنا،برابرتقسیم کرنااور توازن قائم کرنا“ہے۔عدل کے مفہوم میں حق دارکو اسکا حق اداکردینا ہے۔عدل کے مقابلے میں لفظ”طاغوت“استعمال ہوتا ہے،طاغوت طغیانی سے نکلاہے جو دریاکی اس کیفیت کو کہتے ہیں جب وہ اپنی حدود سے باہرنکل آئے،اسکو ظلم بھی کہتے ہیں،اور جب کوئی اپنی حدود کے اندر رہے گا تو وہ عادل کہلائے گا یعنی عدل کرنے والا۔اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کے توسط سے بھیجے ہوئے اس دین میں ہر کسی کی حدود مقرر کردی ہیں،والدین اور اولاد کی حدود،شوہراوربیوی کی حدود،آجراور اجیرکی حدود،عوام اور حکمران کی حدود،سپہ سالار اورسپاہی کی حدود،امام اور مقتدی کی حدود،استاداور شاگردکی حدوداورآقااورغلام کی حدودوغیرہ،ان حدود کااحترام کرنا عدل ہے اور ان حدود کو توڑنا اور ان سے آگے گزر جانا ظلم ہے جسے قرآن نے طاغوت کا نام بھی دیاہے۔

                عدل کی دو قسمیں ہیں،انفرادی عدل اور عدل اجتماعی۔انفرادی عدل سے مراد ایک فرد کا عدل کے اندر رہنا ہے۔ایک فرد صبح سے شام تک بہت سے کردار اداکرتا ہے،وہ صبح اٹھتاہے تو گھرکاایک فرد ہے جہاں اسے بیٹے،بھائی،شوہراور باپ کے کرداراداکرنے ہیں،وہ مسجد جاتاہے تو وہاں وہ مقتدی،دوست اور پڑوسی کا کردار اداکرتاہے،پھر وہ دفتر،کاروباریاکھیت میں جاتا ہے تو وہاں اسے ایک معاشی کردارکے مختلف پہلوؤں سے واسطہ پڑنا ہے،گھرواپسی پر وہ بازار سے سوداسلف لاتاہے تو اسے ایک گاہک کاکرداراداکرنا ہے،بس میں وہ ایک ہم سفر ہے،بل جمع کراتے ہوئے اسے اپنی قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظاکرنا ہے وغیرہ غرض پورے دن میں اور عمر کے ہرہرحصے میں اسکے کرداربڑھتے گھٹتے رہیں گے،اگراس نے ہرجگہ اپنے کردار کے ساتھ عدل کیااور اپنے کردارکو نبی علیہ السلام کی سنت مطہرہ کے مطابق اداکیا تو گویااس نے ایک بڑاہی مثبت کرداراداکیااور یہی اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے۔

                عدل اجتماعی دراصل پورے معاشرے کا عدل ہے جس کے لیے یہ بات ناکافی ہے کہ ہر فرد اپنی اصلاح کر لے تو سارامعاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔ہرفردکو معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ایک نظام سے واسطہ پڑنا ہے اگر وہ نظام درست ہے تو غلط فرد بھی اپنے کردارکو درست طرح سے اداکرنے پر مجبور ہوگالیکن بصورت دیگراگر نظام غلط ہے تو صحیح فرد کو بھی غلط طریقوں سے اپنا کام نکلواناپڑے گا۔مثلاََٹریفک کانظام درست ہے تو کوئی ڈرائیورچاہتے ہوئے بھی اشارہ کی خلاف ورزی نہیں کرے گا کیونکہ اسے نظام چلانے والوں کا خوف درپیش ہوگا اور اگر سرخ بتی پر بھی ٹریفک چلی جارہی ہے تو کوئی ڈرائیور اپنی گاڑی روک بھی لے گا تو پیچھے سے آنے والے اسے قانون شکنی پر مجبور کردیں گے۔چنانچہ دنیاکے وہ معاشرے جہاں کا نظام درست بنیادوں پرقائم ہے وہاں ظالم لوگ بھی عدل کے دائرے میں رہنے پر مجبور ہیں،جبکہ غلط نظام پر مبنی معاشروں میں صورتحال بالکل مختلف ہے۔اسی لیے اسلامی نظام نے تمام فرض عبادات نماز،روزہ،حج،زکوۃ اور جہادکو اجتماعیت سے جوڑ دیاہے اور جملہ معاملات جیسے نکاح،طلاق،وراثت،صلح اورعدالت کو بھی اجتماعیت سے مستعارکردیاہے تاکہ معاشرے میں اجتماعی سرگرمیوں کے ذریعے سے عدل اجتماعی کے قیام کو یقینی بنایاجاسکے۔قرآن مجیدمیں اللہ تعالی کاارشاد ہے کہ:

 اِنَّ اللّٰہَ یَاْ مُرُکُمْ اَنْ تُؤَئدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا َیعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًا بَصِیْرًا(۴:۸۵(       

ترجمہ:”مسلمانو اللہ تعالی تمہیں حکم دیتاہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپردکرو،اورجب لوگوں کے درمیان فیصلہ کروتوعدل کے ساتھ کرو،اللہ تعالی تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتاہے اور یقیناََ اللہ تعالی سنتااورجانتاہے۔“4سورۃ نساء آیت58،

فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ(۵:۲۴(

ترجمہ:”اور فیصلہ کروتو پھرٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کرو کہ اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو کو پسند کرتاہے۔“5سورۃ مائدہ آیت42،

 اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُبَالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِئ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۶۱:۰۹(

ترجمہ:”اللہ تعالی عدل،احسان اور صلہ رحمی کا حکم دیتاہے اور بدی،بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتاہے۔وہ تمہیں نصیحت کرتاہے تاکہ تم سبق لو۔“16سورۃ نحل۔آیت90،

 وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَہْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۶:۲۵۱(

ترجمہ:”اور جب بات کہوتوانصاف کی کہو،خواہ معاملہ اپنے رشتہ داروں کاہی کیوں نہ ہو۔اوراللہ تعالی کے عہدکوپوراکرو،ان باتوں کی ہدایت اللہ تعالی نے تمہیں کی شاید کہ تم نصیحت قبول کرلو۔“6سورۃ انعام آیت152،

یٰٓاُیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اَنْ تَلْوٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا(۴:۵۳۱(

ترجمہ:”اے ایمان والو انصاف کے علمبرداراور خداواسطے کے گواہ بنو،اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زدخود تمہاری اپنی ذات پر یاتمہارے والدین اوررشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔فریق معاملہ خواہ مالدارہویا غریب،اللہ تعالی تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے،لہذااپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔اوراگرتم نے لگی لپٹی بات کہی یاسچائی سے پہلو بچایاتوجان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالی کو اس کی خبر ہے۔“4سورۃ نساء  آیت135،

 یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(۵:۸(

                ”اے لوگوجوایمان لائے ہو،اللہ تعالی کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو،کسی گروہ کی دشمنی تم کواس قدر مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھرجاؤ،عدل کرو کہ یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے،اللہ تعالی سے ڈرکرکام کرتے رہوجوکچھ تم کرتے ہو اللہ تعالی اس سے پوری طرح باخبر ہے۔“5سورۃ مائدہ آیت8،

سیرت طیبہ میں بھی محسن انسانیت ﷺکی تعلیمات معاشی میدان کے عدل اجتماعی کی طرف دعوت دیتی ہیں۔آپ ﷺنے مکہ میں حالت یتیمی میں آنکھ کھولی،غربت اورسفیدپوشی سے زندگی مستعارتھی۔جب حضرت خدیجہ سے عقدنکاح ہواتودولت کی ریل پیل ہوگئی لیکن معاشی عدل انفرادی واجتماعی کاکیاشاندارمظاہرہ تھاکہ معیارزندگی میں فقراور سادگی پھربھی برقراراورغالب رہی اورارتکازدولت کی بجائے تقسیم دولت کارویہ ہمیشہ وطیرہ نبوی ﷺ رہا۔ہجرت کے بعد ایک بارپھر بھوک اورمفلوک الحالی نے گھرمیں ڈیرے ڈال دیے تھے اور ہفتوں تک گھرمیں چولھانہ جل پاتا۔غزوہ خیبرکے بعدایک بارپھر مدینہ النبی میں خوش حالی لوٹ آئی اوراب کی بارتومسنداقتداربھی آپ ﷺکے زیرسایہ تھی اورحکومت گھرکی لونڈی تھی لیکن پھربھی اسوۃ حسنہﷺ میں وہی معیارسابقہ ہی نظرآتاہے۔یہ معاشی عدل اجتماعی تھا کہ مسجدنبوی کا بھراہواصحن بانٹ کرخالی ہاتھ اٹھتے تھے اور گھرجاکرکھانے کاپوچھتے تو جواب میں انکارملتااورخالی پیٹ سو جاتے۔آپﷺ نے اقتداراوردولت آچکنے کے بعد بھی اپنامعاشرتی درجہ تبدیل نہ کیا،آپﷺ غرباء کے ساتھ اٹھنابیٹھناپسندکرتے اوردعافرماتے تھے کہ اے بارالہ مجھے ایک وقت کاکھانادے اورایک وقت کافاقہ دے تاکہ میں تجھ سے مانگوں۔آپﷺ نے قرضوں کی شکل بھی دیکھی اورقرض کی واپسی کاتقاضاکرنے والوں کا سخت رویہ بھی برداشت کیا۔پس آپﷺ کی حیات طیبہ معاشی طورپراگرچہ ایک متوسط یا اس سے بھی نسبتاََ کم تر درجے کی حا مل تھی لیکن آپ ﷺ کامعیاراخلاق کل عالم انسانیت میں سب سے بلندتررہا،یہی اسلامی معاشی اقدارعدل کاخلاصہ وخلاصہ ہے۔

                عدل اجتماعی کے بہت سارے پہلوؤں میں سے سب سے اہم تر پہلو معاشی عدل ہے۔معاشی عدل کا یہ مطلب ہر گزنہیں کہ معاشرے کے سب لوگوں کے پاس برابر دولت ہو،ایساممکن نہیں اور مناسب بھی نہیں اور نہ ہی ایسا مقصود ہے،کیونکہ دولت کی عدم مساوات کے باعث ہی دنیاکانظام چل رہاہے اور لوگ دوسروں کے پاس ملازمت،مزدوری اور ٹھیکیداری کو جاتے ہیں،دولت کی مساویانہ تقسیم سے دنیاکاسب دھندہ مفلوج ہوجائے گااور بالآخر وہی انجام ہوگا جو کیمونسٹ روس کا ہوااگر چہ وہاں بھی کم و بیش پون صدی گزرجانے کے باوجود بھی دولت کی مساوی تقسیم ممکن نہ ہوئی تھی۔معاشی عدل کا اسلامی مفہوم معاشی تفاوت کو کم سے کم کرنا مقصود ہے،آجر اور اجیر،غریب اور دولت مند،آقااورغلام اورمالک اور مزدور کے درمیان فرق کو سب سے کم سطح پر لانا ہے۔اسلام نے اس کا بہترین حل دیاکہ معیارزندگی کی بجائے معیاراخلاق کو بلند کیاجائے۔ جب معاشرے کے سب طبقات ایک ہی صف میں نماز پڑھیں گے،ایک ہی وقت میں روزہ رکھیں اور کھولیں گے اور ایک ہی امام کے پیھے جہادکریں گے،اور ایک ہی محلے میں ایک دوسرے کے پڑوسی ہوں گے دولت مند کا گھر سادگی کے باعث اور غریب کاگھر غربت کے باعث ایک ہی معیارحیات پیش کرے گا،دونوں کے لیے ایک ہی طرح کے اسپتال ہوں گے،دونوں کے بچے ایک ہی نظام تعلیم و تربیت میں برابر پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کریں گے اور دونوں کے لیے آگے بڑھنے کے مواقع یکساں میسرہوں گے تو اصل میں معاشی عدل اجتماعی واقع ہوگا جس کا بہترین نقشہ دور خلافت راشدہ میں نظر آتا ہے۔معاشی عدل اجتماعی میں معاشرے کے سب طبقات باہم مل کر استحصال کو جڑ سے اکھیڑ پھینکیں گے اور جس معاشرے میں سود نہیں ہوگا،ناجائزمنافع خوری نہ ہوگی،معیارزندگی میں بڑھوتری کی دوڑ نہیں ہوگی اورنظام صلوۃ و نظام زکوۃ قائم ہوگا وہاں معاشی عدل اجتماعی کیونکر نہ ہوگا۔

                نزول قرآن مجیدکے بعد کم و بیش ڈیڑھ ہزاربرس بیت گئے،انسان نے بہت ترقی کرکی،راتیں دنوں سے زیادہ روشن ہو گئیں،علوم ومعارف،کلیات وجامعات،تحقیق و تدریس اورفنون کی دوڑ میں انسان ارض و سماوات کی چھان بین کرنے اور پانیوں  اورخلاؤں کی سربستہ رازوں کے تعاقب میں کہاں سے کہاں نکل گیالیکن اس سب کے باوجود جو معیارات عدل معاشی کے حوالے سے اسلام نے پیش کیے تھے ان میں کوئی اضافہ پیش نہ کرسکا۔کتنے ہی نظام ہائے حیات آئے اوران گنت مفکرین و فلاسفہ نے جنم لیالیکن محسن انسانیتﷺکی پیش کردہ معاشی تعلیمات میں ایک ذرہ بھراضافہ کرنے سے بھی قاصررہے۔بلکہ اس کے برعکس پرانے اور فرسودہ و بے ہودہ تصورات کو ”دورجدید“کی ذہنی پسماندہ اصطلاح کے پیراہن میں لپیٹ کرسسکتی انسانیت پر جو معاشی تجربات کیے گئے وہ ڈاکٹرکے نشترکی بجائے ڈاکؤں کے نیزے،بھالے اورخنجرہی ثابت ہوئے جن کے نتیجے میں کرہ ارض پربھوک اورننگ اورجہالت نے وہ ننگے ناچ ناچے کی مورخ کی قلم نقل کرنے سے شرمائے۔خاص طورپر بیسویں صدی میں سیکولرازم نے تو کل اقوام عالم کی معاشی ناکہ بندی کردی اورسوداور محتاج نسوانیت معیشیت سے تاریخی استحصال انسانیت کاایسامرتکب ٹہراکہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔لیکن بیداری امت مسلمہ کے باعث اکیسویں صدی کی دہلیزپر اس ننگ انسانیت سیکولرازم کے خوننین پنجوں کی گرفت اب ڈھیلی پڑ گئی ہے اور تماشادکھاکر یہ مداری بھی گیاچاہتاہے اور خاورختم نبوت ﷺانسانیت پر طلوع ہونے کوہے،ان شااللہ تعالی۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44345