Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

فطرت کا استحصال (حصّہ دوم)…. تحریر: افضل ولی بدخشؔ

شیئر کریں:

ہمارا موجودہ سماج تہذیب کی آڑ میں تخریب کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے ہی Ecosystem کو اپنے شوق، ہوس اور لالچ کے نشے میں غیر متوازن کر کے رکھ دیا ہے۔ شوق کے نام پر شکار کو اپنا بھرم سمجھتا ہے اور اپنے اردگرد چرند پرند کی شکار کے علاوہ ان کو ہراساں کرکے محضوظ ہوتا ہے۔ محبوب کی محبت میں مست اس سماج کے جوان درختوں کو کرید کر محبوب کا نام کودتے ہیں ۔بجائے اس کے کہ محبوب کے نام پہ درخت لگائے، وہ ہرےبھرے درخت بھی ان کے محبت کے بھینٹ چڑھ کر سوکھ جاتے ہیں۔ باپ صبح سویرے عبادت خانہ جانے کے بجائے بندوق لے کر شکار پہ جاتا ہے تو بیٹا سکول کی تعلیم میں نمایاں کارکردگی کے بعد شام کو غلیل ہاتھ میں تھامے تھکے ماندے پرندوں کا سکوں غارت کرتا ہے۔ماحول وہ مظلوم سیکٹر ہے جسے بوڑھوں سے لے کر بچوں تک ہر کوئی اپنے حیثیت کے مطابق روندھتا ہےاور اس ماحولیاتی نظام کے دوسرے ممبران جن میں نباتات، حیوانات، جمادات اور پرندوں پر اپنا ظلم ڈھاتا ہے۔ اگر ہم اردگرد نظر دوڑائیں تو ہر طرف ماحولیاتی نظام کے خلاف بنی آدم کو برسرپیکار ہوتا ہوا پائیں گے۔


سانپ جہاں دِیکھتا ہے چاہے کسی جنگل میں، کسی ویران جگہ پر یا ہمارے اپنے گھر میں، سب سے پہلے جو چیز ہم محسوس کرتے ہیں وہ خوف ہے۔ خوف کہ یہ سانپ ہمیں ڈسے گا۔ سانپ کا ہمیں ڈسنا یا نہ ڈسنا ایک الگ بات ہے مگر جو خوف ان کے بارے میں لیے ہم گھومتے پھرتے ہیں وہی خوف ان کے لیے ہمارے دل میں نفرت پیدا کرتا ہے۔ پھر ہم انکے خلاف جارحانہ رویہ اپناتے ہیں۔ اسطرح جہاں بھی بچھو نظر آئے اسکی بُری عادت یاد آ جاتی ہے اور فوراً وہ ہمارے چپل تلے آ جاتی ہے۔ اُسکی عادت تو بہت جلد یاد آجاتی ہے مگر ہماری اپنی نہیں یعنی وہ بھی جب موقع ملتا ہے ڈنگ مارتا ہے اور ہمارےچپل بھی ہر وقت اسکےتاک میں ہوتے ہیں۔ لومڑی جہاں بھی نظر آئے اسکی شامت آجاتی ہے۔ ہم اسے ہراساں کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جب تک اسے نہ ماریں اور اسکے دُم کاٹ کر اپنے گھر یا اپنے گاڑی میں نہ لٹکائیں ہمیں چین نہیں آئے گا۔ لومڑی کی دُم ہمارے لئے نظر بد سے بچنے کا واحد نسخہ ہے۔ مُرغابیوں کے ناروا شکار سے لے کر پرندوں کو ہراساں کرنے تک ہم جو کچھ کر سکتے ہیں ’’ مال مفت دلِ بےرحم ‘‘کے مصدق کر تے آ رہے ہیں۔ ہم اپنے بندوق اور ہمارے بچے اپنے غُلیل کے بے دریغ استعمال سے اپنے علاقے کے مکین چرند و پرند کے خلاف دہشت گردی کا مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اگر کسی پڑوسی کا مرغا ہمارے ہاتھوں غلطی سے بھی ہلاک ہو جائے تو نادم و پشیماں ہو جاتے ہیں اور معافی تک مانگتے ہیں مگر پرندے اور مرغابی جو کہ درحقیقت پورے ماحول کے stakeholder ہیں ، ان کے شکار پر کوئی آواز نہیں اٹھتا۔ حلانکہ ایسا شخص پورے عوام کا مجرم ہے۔ اشرف المخلوقات اپنے ہم دوش مخلوقات کی نسل کُشی کرکے اپنے ہی شرافت کا جنازہ نکالتا ہے۔


محض اشرف المخلوقات کے ٹائٹل حاصل کرنے سے یا خلیفۃ الارض کے خطاب ملنے سے بحیثیت انسان ہماری قدرومنزلت نہیں بڑھتی بلکہ اس خطاب اور ٹائٹل پر اترنے کیلئے اپنی صلاحیت میں نکھار اور کردار میں مثبت پہلو لانا اور رحمدلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اگر ہم دوسرے مخلوقات پر اشرف ہیں تو ہمارا رویہ ان کے ساتھ شریفانہ ہو نہ کہ پُر تشدد۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دوسرے مخلوقات کی تحقیر کرتے ہوئے ان کے بنیادی حقوق صلب کریں۔ ان کو ہراسان کرکے ان کا جینا حرام کریں۔ یاد رکھیں کہ وہ ہماری ملکیت نہیں بلکہ امانت ہیں جو ربّ العزّت نے اپنے خلیفہ کے سپرد کی ہے اور اس امانت کی پاسداری پر ہمارا احتساب ہونا ہے۔


ہمیں شاید یہ لگتا ہے کہ مرنے کے بعد اشرف المخلوقات کے ٹائٹل اور خلیفے کے خطاب کی وجہ ہمارے ساتھ رعایت ہوگی۔اور یہ کہ قبر میں اترنے کے بعد فرشتہ آکے چند رسمی سوالات پوچھیں گےجیسے مَنٗ رَبُّکَ؟ مَنٗ دَیِنُکَّ؟ وغیرہ اور ہم فی الفور ان سوالات کا جواب دے کر اچھلتا کودتا ہوا جنت میں داخل ہونگے اور انگور کے باغات کے نیچے بچھائے تخت پر براجمان ہو کر حوروں کیساتھ رنگ رلیاں منائیں گے۔ اگر ہم ایسا سوچتے ہیں تو یہ ہماری خام خیالی ہوگی۔ وہ قبر ہے ہمارے ماما کا حوالات نہیں جہاں ہم سے رسمی بازپُرس ہوگی اور ہم ضمانت کے کاغذات مُٹھی میں دبائے باہر آئیں گے۔ ہمارا پیشی شکور بھائی کے کورٹ میں نہیں بلکہ مالک یوم الدین کے عدالت میں ہمارا احتساب ہونا ہے۔


وہاں انصاف کا بادشاہ بٹھا ہوا ہے۔ ان کے ہاں نہ رشوت چلے گی اور نہ سفارش۔ وہ پاک ذات جو اپنے قول و فعل میں اعلیٰ و ارفع ہے۔ اس نے پہلے ہی سے اپنے مقدس کتاب میں ہمیں خبردار کیا ہے کہ وہ ہمارے ہر اعمال کا پورا پورا حساب لے گا۔ اُس دن اللہ یہ پوچھے گا کہ میں نے دنیا میں تمہیں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تھا ،تو ذرا بتائیےکہ تم نے وہاں میرے مخلوق کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے۔ کیا آپ میرے کمزور مخلوق پر رحم کھائے؟ کیا آپ نے برف میں ڈھکی سرد موسم میں بھوکے چرندپرند کیلئے کوئی انتظام کیا تھا؟ کیا آپ نے میرے بنائے ہوئے فطری قوانین کی پاسداری کی یا انھیں اپنی ہوس اور لالچ کے بھینٹ چڑھا دئیے؟ میں نے زمین کے اندر اور باہر کے تمام موجودات اور وسائل آپ کے تابع کیئے تھے اور ساتھ میں تنبیہہ بھی کیا تھا کہ حد سے تجاوز نہ کرو۔ ان وسائل کے استعمال میں آپ حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے ہیں یا بردبار اور حلیم ؟ کیا آپ نے یہ سب فرائض پورا کرتے ہوئے میری پوجا کی یا صرف نباتات و حیوانات کو حلال و مکرو میں تقسیم کرکے اپنی پیٹ پوجا کی؟یہ سوالات ہم سے ہونے ہیں اور ان کے جوابات کی تیاری ہمیں کرنی ہی کرنی ہے اور وہ بھی اپنے اعمال کے ذریعے ۔اس دنیا میں رہتے ہوئے ماحولیاتی نظام کے حوالے سے ہمیں دانشمندی اور خلوص سے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فطرت کے جھومتے نظاروں کو دل کے کسی کونے پر آلاپنا ہوگا اور فطری حُسن کے رعنائیوں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنا ہوگا۔ ماحول کو بچانے اور اس کی تحفظ کے سو دلائل ہیں ، ان تمام دلائل کو منطق کے دھاگے میں پَرو کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔


شیئر کریں: