
آئینے کی تاریخ ، تاریخ کے آئینے میں….تحریر: افضل ولی بدخشؔ
کہتے ہیں کہ آئینہ نہ صرف سچ بولتا ہے بلکہ سچ دیکھاتا بھی ہے۔ ایک مسکراتا ہوا شخص جب آئینے میں روبرو ہوتا ہے تو اس کے مسکراہٹ کا عکس اور اسکی تصدیق آئینے میں ہوجاتی ہے۔ چہرے کے خدوخال اور اس پر بیتّے حالات کا اگر کوئی آئینہ دار ہے تو وہ آئینہ ہی ہے۔ شیشے کے اس ٹکڑے میں انسان کی انسانیت تو نظر نہیں آتی لیکن آدم کی آدمیت کھینچ تان کر نمایاں ہو جاتی ہے۔ اگرچہ صوفی تعلیمات میں درج ہے کہ ’ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے‘ لیکن اسے ثابت کرنے کیلئے مومن کی تلاش اور دستیابی ضروری ہے جو پھر کبھی کسی تحریر میں کر گزریں گے۔ فی الحال شیشے سے بنے اس آئینے کا ذکر چھڑتے ہیں جو انسانی معاشرے میں، انسانی طرزِ زندگی اور روّیے میں واضح تبدیلی لائی ہے۔ تاریخ کے آئینے میں آئینے کی تاریخ بڑی دلچسپ بھی ہے اور قابل تحسین بھی۔ آئینے کے استعمال نے ایک فرد کی اپنی شخصیت کو ابھارنے اور جسم کے متعلق واقفیت کو گہرا کرنے میں جو مدد دی ہے اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ آج کل خود کو دلکش و زیبا دیکھانے اور منوانے کیلئے ہم مختلف پوز میں اپنی تصاویر اور سیلفی نکال کر فیس بُک اور انسٹاگرام کے نذر کرتے ہیں۔
ان تصاویر میں پوز دے کر اور مختلف انداز اپنا کر جو کمال ہم کرتے ہیں یہ کسی مائیکہ لال موبائل کے مرہون منت نہیں بلکہ اسی آئینے کے سیکھائے ہوئے گُر ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آئینے میں دیکھی صورت بکاؤ نہیں۔ آئینہ صرف آپ کو آپ سے ملاتا ہے۔ آپ جو بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں یہ شیشہ آپ کے حلیے اور شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ کم روشنی میں بھی اگر صورت دھندلا نظر آئے تو روشنی کا فقدان کہہ کر انسان اپنی صورت سے سمجھوتہ کر لیتا ہے ۔ اگر خدانخواستہ آئینے میں اپنی صورت اپنے ہی نظروں میں نہ بھائے تو اسے سنوارنے کیلئے لائحہ عمل کے طور پر بناؤ سنگار کی مدد لی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے موبائل کیمرے ان اقدار اور عمل میں اپنا مصنوعی کردار ادا کرتے ہیں ۔ تصویر لیتے ہوئے اگر چہرے کی دلکشی میں ذرا برابر بھی شک کا خدشہ ہو تو موبائل کی بتی جلا کر چہرے کو نورانی بنانا کوئی مشکل نہیں، یا موبائل کے اندر موجود اضافی سہولیات کا سہارا لیکر اپنے خوبصورت ہونے کے سو دلائل دیے جا سکتے ہیں بشرط یہ کہ موبائل پرانا ماڈل نہ ہو۔
ڈاکٹر مبارک علی اپنی ایک کتاب میں کہتے ہیں کہ انیسویں صدی میں یورپ کے دیہاتی علاقوں میں صرف نائی یا حجام کے پاس آئینہ ہوتا تھا۔ اس کا استعمال صرف مردوں کیلئے ہوتا تھا، شہروں اور گاؤں میں ہاکر چھوٹے آئینے فروخت کرتے تھے کہ جن میں لڑکیاں اور عورتیں اپنا چہرہ دیکھ سکتی تھیں۔ بڑے سائز کے آئینے بہت کم ہوا کرتے تھے، خاص طور سے دیہات میں بالکل نہیں تھے جسکی وجہ سے کسان اپنی جسمانی خصوصیات کے بارے میں دوسرے کی رائے پر بھروسہ کرتے تھے اور اپنے چہرے کے تاثرات کا اندازہ خود ہی لگایا کرتے تھے۔ اس زمانے میں آئینے کے بارے میں بہت سے توہمات بھی پیدا ہو گئے تھے، مثلاً اگر بچہ اسے دیکھ لے تو اس کا قد چھوٹا رہ جائے گا۔ جس گھر میں فوتگی ہو جاتی وہاں اسے ڈھانپ کر رکھا جاتا تھا، رات کے وقت آئینہ دیکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا، شرافاء کے گھرانوں میں اسے بےحیائی سمجھا جاتا تھا کہ عورت اس میں اپنی برہنگی کو دیکھ لے گی، یہاں تک کہ ٹَب کے پانی میں بھی اسے اپنے برہنہ جسم کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی، اس غرض سے پانی میں ایک خاص قسم کا پوڈر ملا دیا جاتا تھا ، تاکہ اس کا عکس پانی میں نظر نہ آئے لیکن ان ہی پابندیوں نے اس جستجو اور شوق کو پیدا کیا کہ اپنے جسم کے بارے میں معلومات ہوں اور اس کے خدوخال سے واقفیت حاصل ہوجائے۔ اس غرض سے بڑے آئینوں کا رواج ہوا اور انہوں نے فرد کو اس کے جسم کے بارے میں پوری پوری آگہی دی۔
آئینے کے استعمال سے ایک فرد کو اپنی جسمانی اہمیت کا احساس ہوا ۔ اس احساس نے اس کے لباس کے ذوق کو ابھارا تاکہ وہ اس کے سہارے دوسروں کو اچھا نظر آئے۔ اس انفرادیت کے جذبہ نے اس میں یہ شوق پیدا کیا کہ وہ اپنی تصاویر بنوائے تاکہ موت کے بعد بھی اس کی نشانی باقی رہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جہاں آئینہ آدم کی آدمیت اور اسکے ظاہری شخصیت اس پر عیاں کی مگر انسانیت (اُنس) اور باطنی و روحانی پہلو سے انسان دھیرے دھیرے دور ہوتا گیا۔ اگرچہ اس سارے عمل میں صرف آئینے کو دوش نہیں دیا جاسکتا مگر روحانیت سے دوری میں اس کے کردار سے بھی منہ نہیں موڑا جا سکتا۔
آئینے کے چمکیلے سطح میں انسانی صورت اپنی عکس سے اُکتا گیا تھا۔ آئینہ وقتی طور پر اس کے جسمانی خدوخال کے متعلق اطمینان مہیا کرتا تھا لیکن ہر گزرتے لمحے انسان کے جسمانی خدوخال میں تبدیلی لاتے ہیں۔ دلکش چہرے ہمیشہ دلکش نہیں رہتے ہیں ، زمانے کے دردو غم انسانی چہرے پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں اور یوں دلکشی صرف ’اے کاش‘ میں ضم ہو جاتی ہے۔ انسان کو یہ خواہش ہوئی کہ کسی طرح اپنی زندگی کے خوبصورت لمحوں کو قید کیا جا سکے تاکہ مستقبل کو ماضی کے یادوں سے محظوظ کیا جا سکے اور نرگیسیت کو انسانی نفسیات میں جگہ دی جا سکے۔ اور یوں آئینے کی آزاد عکس کیمرے کی آنکھ میں قید ہونے لگا۔
جب فوٹو گرافی شروع ہوئی تو اس نے تصاویر کو عام کردیا اور فوٹوگرافروں کی شہروں اور دیہاتوں میں دکانیں کھل گئیں اور جب عام آدمی کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی تصویر بنوا کر رکھ سکے تو اس سے خود اس کی اہمیت اپنی نظروں میں بڑھ گئی۔ جب فوٹوگرافروں نے اپنے اسٹوڈیو بنائے کہ جس میں پورے سائز کی تصاویر بن سکتی تھیں تو اس نے لوگوں کی عادات کو بدلا کہ کس طرح سے تصویر بنوائی جائے؟ کیسے پوز بنایا جائے؟ چہرے پر کیسے تاثرات ہوں؟ وغیرہ وغیرہ چنانچہ ان تصاویر سے بچوں، والدین، اساتذہ اور مفکرین کے مختلف پوز سامنے آتے ہیں۔
جب فوٹو گرافی میں ترقی ہوئی تو اس نے چہروں کی جھریاں اور داغ و دھبہ صاف کرکے انہیں خوبصورت اور اسمارٹ بنا دیا۔ جب لوگوں نے بار بار تصاویر بنوائیں تو انہیں خود اپنے میں تبدیلی کا احساس ہوا۔ اس نے عمر اور وقت کے بارے میں لوگوں کو حساس بنا دیا۔ ساتھ ہی عمر کے آخری حصہ میں موت کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو گئے۔ بوڑھاپے کی تصویریں دیکھ کر جوانوں کو یہ احساس ہوا کہ ایک دن ان پر بھی یہ وقت آئے گا، اس لئے بوڑھے لوگوں سے اچھے سلوک کرنا چاہیئے۔
الغرض انسان کو اس کی شخصیت سے واقفیت اور اس کی نکھار میں اضافہ آئینے کی بدولت میّسر آئی۔ آئینہ انسانی ترقی میں ارتقائی عمل کا اہم رکن شمار ہوتا ہے۔ کسی غریب کے کمرے میں پڑی شکستہ آئینہ ہو یا بادشاہوں کے زیرِ استعمال شیش محل، حجام کے دوکان میں اویزان شیشہ ہو یا گاڑیوں میں لگے سائڈ مِرر ، آئینہ ماضی و حال میں ترقی کے ہر عمل کا آئینہ دار ہے۔