Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

قومی فضائی کمپنی کی تنظیم نو….. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


بعد از خرابی بیسیار پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز میں اصلاحات کا عمل شروع کردیا گیا۔ قومی پرچم بردار فضائی کمپنی کے مرکزی دفتر کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی سمیت ادارے میں اصلاحات سے متعلق ری سٹرکچرنگ کا منصوبہ تیار کرلیا گیا۔ تنظیم نو پلان میں فی طیارہ ملازمین کی تعداد 500 سے گھٹا کر 250 رکھنے کا فیصلہ کیاگیا ہے پی آئی اے کے 29 طیاروں کے فضائی بیڑے کے ساتھ14500ملازمین ہیں جن کی تنخواہوں اور دیگر مراعات پر ہرمہینے 2ارب6 کروڑاور سالانہ 24ارب8کروڑروپے کے اخراجات کمپنی کوبرداشت کرنے پڑتے ہیں تنظیم نو پلان میں 3500 ملازمین کورواں مہینے رضا کارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم کے تحت فارغ کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ناقص کارکردگی، محکمانہ قواعد کی خلاف ورزی اور انکوائری میں ملوث ملازمین کو جنوری 2021 میں فارع کیاجائے گا نان کور شعبہ جات کو مارچ میں الگ کیا جائے گا۔

رضا کارانہ ریٹائرمنٹ اسکیم کے تحت سبکدوش ہونے والے ملازمین کوتمام مروجہ مالی فوائد حاصل ہوں گے تاہم جبری ریٹائرمنٹ والے ملازمین اس پیکج سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔تیسرے مرحلے میں فلائٹ کچن،ٹیکنیکل گراؤنڈ سروسز،انجینئرنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ناقص کارکردگی کے حامل ملازمین کو فارع کیا جائے گا۔اور بعض خدمات پرائیویٹ کمپنیوں کو آؤٹ سورس کرنے کے لئے معاہدے کئے جائیں گے پی آئی اے کی کوریئر سروسز اسپیڈیکس کو نومبر 2020 میں ہی بند کیا جا چکا ہے۔کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ پلان کے تحت جنوری میں تمام کمرشل،ہیومن ریسورس،لیگل اور انڈسٹریل ریلیشن سمیت فلائٹ سروسز کے شعبہ جات اسلام آباد منتقل کئے جائیں گے۔فروری کے آخر تک فلائٹ آپریشن شیڈولنگ اور میڈیکل،کارپوریٹ ڈویلپمنٹ،ورکس اور سپلائی چین منیجمنٹ کو بھی اسلام آباد منتقل کیا جائے گا۔کاسٹ سیونگ پلان میں او سی ایس، ٹی اے ڈی اے کی ادائیگی کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔پی آئی اے ملازمین کو سرکاری طور پر متعارف کرائے گئے صحت کارڈز سے منسلک کیا جائے گا۔

ملازمین کو جاری ہونے والے ایئر ٹکٹوں میں کمی کے ساتھ ان کے چارجز بھی فیول پرائس کے مطابق تبدیل ہوں گے۔60سے 80کے عشرے تک دنیا کی بہترین فضائی کمپنیوں میں شمار ہونے والی پی آئی اے سیاسی مداخلت، تھوک کے بھاؤ بھرتیوں اور کرپشن کے باعث آج قومی خزانے پر بوجھ بن چکی ہے۔ جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے سٹیل مل اور ریلوے کی طرح پی آئی اے کو بھی سیاسی حکومتوں نے اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھادیا۔ اس قومی جرم میں 1990سے لے کر 2020تک اقتدار میں رہنے والے تمام لوگ ملوث ہیں۔ برٹش ائر، ائرفرانس، لفتھ ہنسا، قطر ائرویز اور پان امریکن ائرویز سمیت دنیا کی بہترین ائرلائنوں میں ہر جہاز کے ساتھ سو ملازمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ایک جہاز کے ساتھ پانچ سو افراد کو نتھی کرکے قومی ائرلائن کو معاشی بحران سے دوچار کردیا گیا۔ضرورت سے زیادہ افرادی قوت کی وجہ سے کارکردگی اور معیار مسلسل گرتا رہا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ فوکر اور آر ٹی اے سمیت پی آئی اے کے کئی طیارے گراؤنڈ ہوچکے ہیں۔حویلیاں اور کراچی فضائی حادثے میں سینکڑوں قیمتی انسانی جانیں ضائع ہوگئیں.

متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کے لئے قومی ائرلائن کے پاس کچھ نہیں ہے۔ ملازمین کی تنخواہوں کے لئے بھی قرضے لینے پڑتے ہیں کبھی حکومت کو بیل آؤٹ پیکج دینا پڑتا ہے۔ قومی ائرلائن میں شامل ساڑھے چودہ ہزار ملازمین کو تنخواہوں کے علاوہ اندرون ملک تمام پروازوں اور سالانہ پوری دنیا میں مفت سفر کی سہولت دی گئی ہے۔ ٹی اے، ڈی اے کے علاوہ میڈیکل بلوں کی مد میں ماہانہ کروڑوں روپے کی ادائیگیاں ہوتی ہیں۔ملازمین کو دنیا کی دیگر فضائی کمپنیوں کے مساوی تنخواہیں اور مراعات ضرور دیں مگر کارکردگی بھی عالمی معیار کی ہونی چاہئے۔جزا و سزا کے نظام کے فقدان کی وجہ سے قوم کے لئے باعث فخر ادارے کو قابل ندامت بنایاگیا ہے۔ حکومت نے قومی ائرلائنز میں اصلاحات کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ اطمینان بخش ہیں لیکن اس ادارے کو قومی معیشت پر بوجھ بنانے میں ملوث لوگوں کا بھی محاسبہ ہونا چاہئے قوم کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ کس حکومت نے اپنے دور میں کتنے لوگوں کو سفارش پر پی آئی اے میں بھرتی کیا۔ جب تک مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایاجاتا۔اصلاحاتی عمل کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
44044