Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آرزوئے سحر……..بھارت ایشین ٹائیگر یا سپرپاور کیوں نہیں بنا………تحریر: انشال راؤ

شیئر کریں:

بھارت کی آزادی کو تقریباً 74 برس ہونے کو آئے ہیں ایک قدم آگے جانے کی بجائے دو قدم پیچھے کی جانب جارہے ہیں، چین نے آزاد ہوتے ہی تعمیری سمت کی راہ اپنائی اور محض ایک دہائی بعد ہی منگ سلطنت کے دور کا کھویا ہوا مقام پانے کی راہ پر ہولیا، 1990 میں چین کی جی ڈی پی بھارت سے تقریباً 30 ارب ڈالر آگے تھی اور آج یہ فرق چار سو گنا اضافے کے ساتھ تقریباً 12000 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ سابق چیف شماریات پرناب سین و دیگر ماہرین معاشیات کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 10 فیصد تک سکڑتی نظر آرہی ہے جس کے نتیجے میں 140 ملین لوگ بیروزگار ہوگئے ہیں، لوگ قیمتی اشیاء فروخت کرکے گھر کا چولہا چلانے پہ مجبور ہیں، غربت کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ IMF کی

رپورٹ کے مطابق معاشی اعتبار سے بھارت بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان، سری لنکا اور مالدیپ سے بھی پیچھے رہ گیا ہے جوکہ ایک عظیم المیہ ہے کہ سونے کی چڑیا کے طور پر مشہور خطہ جہاں اہالیان مغرب روشن مستقبل کی تلاش میں آتے تھے آج اس قدر کھوکھلا ہوگیا کہ اسے سہارے کے لیے کبھی کواڈ کی طرف دیکھنا پڑتا ہے تو کبھی یورپی اقوام کے آگے ہاتھ باندھنے پڑتے ہیں۔ جو خطہ ہزاروں سال متحد رہا آخر آج تاریخ کی بدترین معاشرتی و علاقائی تقسیم کا شکار کیوں ہے؟ تمام تر پوٹینشیل کے باوجود بھارت مؤثر عالمی طاقت کیوں نہ بن سکا؟ یہ نہ صرف سوالات بلکہ ایک المیہ ہے جس کا سبب خطے کے ہر باشندے کو جاننا چاہئے، اس عظیم المیے کے پیچھے کوئی اچانک رونما ہونے والا حادثہ نہیں بلکہ سات دہائیوں پہ محیط تاریخ ہے۔ جس میں ارباب بست و کشاد کی غلط پالیسیاں شامل ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کسی بھی ملک کی داخلی و خارجی پالیسیوں، حکمت عملی اور سیاسی و انتظامی امور کے لیے پالیسیاں و ضابطے مربوط کرنے میں ڈیپ اسٹیٹ یعنی کہ ملکی افواج و خفیہ ایجنسیوں کا خاطرخواہ عمل دخل شامل ہوتا ہے  اور اس کا اظہار سابق امریکی سیکریٹری اسٹیٹ ہیلری کلنٹن نے بھی کیا۔

اگر بھارت کی تاریخ کا سرسری جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے مقتدر حلقوں نے بھارت کو سنگل پارٹی کے تحت چلانے کی پالیسی اپنائی ہے ماضی میں کئی دہائیوں تک صرف کانگریس ملک کی واحد جماعت رہی اور اب کانگریس کی جگہ ہندوتوا جماعت بی جے پی BJP کو دے دی گئی ہے بھارتی آرمی چیف سے لیکر را افسران تک دن رات میڈیا و سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے زریعے بی جے پی کے قصیدے پڑھتے نظر آتے ہیں سابق را چیف وکرم سود کے مطابق نیریٹو بلڈ کیا جارہا ہے اور اس کا اظہار نریندر مودی نے آزادی کی تقریب میں خطاب کرتے ہوے بھی کیا کہ بھارت سنگل پارٹی کے تحت چلے گا جو حقیقتاً آمریت ہی کی شکل ہے، جس کا نقصان یہ ہوگا کہ ماضی میں کانگریس سیاہ و سفید کی مالک تھی اور مستقبل میں ہندوتوا کو بنانے کے مراحل طے کیے جارہے ہیں جس سے بھارت داخلی طور پر معاشرتی و مذہبی تقسیم کا شکار ہورہا ہے اور اس کے منفی اثرات نہ صرف عام آدمی پر بلکہ بھارت پر بھی شدت سے محسوس ہورہے ہیں۔

بھارت دنیا کا واحد ملک ہے جسے آزادی حاصل کرتے کے ساتھ ہی پڑوسی ممالک پاکستان و چین دشمنی کے اندھے کنوے میں دھکیل دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محض دو دہائیوں میں بھارت چار جنگیں لڑ چکا تھا، 1962 کی چین بھارت جنگ میں پاکستان غیرجانبدار رہا لیکن اس کے باوجود خفیہ ہاتھوں نے بھارت کو پاکستان کے قریب نہ آنے دیا اور 1965 کی جنگ میں جھونک دیا نتیجتاً بھارت کو ریاستی امور چلانے کے لیے بھیک مہم کے ساتھ ساتھ فاقہ کشی مہم چلانا پڑی، کیا ہی بہتر ہوتا جو اربوں روپے بھارت کے باسیوں کی فلاح پہ خرچے جاتے بجائے مکتی باہنی کھڑی کرنے اور 1971 کی جنگ پہ خرچنے کے جبکہ ثمرات میں سوائے وجے دیواس کے لولی پاپ کے کچھ ہاتھ نہ آیا، بنگلہ دیش بننے بھارت کو تین پاکستان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے بظاہر وجے دیواس منانے والے اب 71 کی جنگ کے اثرات زائل کرنے کے لیے NPR و NRC جیسے کالے قوانین لانے پہ مجبور ہیں جس کے نتیجے میں ایک نئے فرنٹ کا سامنا یقینی ہے۔ CMIE کے مطابق بھارت میں بیروزگاری کی شرح میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے لوگوں کی حالت قابل ترس ہے کہ دو وقت کی روٹی کے لیے مجبور ہوکر خواتین سونا گاچھی کلکتہ، جی بی روڈ دہلی، کماتھی پور ممبئی و دیگر ریڈ لائٹ ایریاز میں جسم فروشی پہ مجبور ہیں لیکن عوام کی حالت زار پر مودی سرکار اور پالیسی سازوں کو ترس نہیں آتا، را نے پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان کو تنہا کرنے کے نام پر سریواستو گروپ کے زریعے کئی سو ارب خرچ دئیے جو ایک یوڈس انفولیب کی رپورٹ میں دھول ہوگئے،

آج پاکستان تو تنہا نظر نہیں آتا البتہ را و مودی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے دیرینہ دوست روس بھی مخالف صف میں کھڑا ہے، روسی سفیر نے بھارت کو مغرب کا آلہ تک قرار دے دیا اس کے علاوہ ترکی، چین، ایران، کینیڈا، لاطینی ممالک و پڑوسی دیش کوئی بھی بھارت سے خوش نہیں۔ بلوچستان پراکسی پر اربوں خرچ کرنے سے ھزاروں معصوم پاکستانیوں کے خون کے سوا کیا حاصل ہوا؟ اگر یہ سارا پیسہ عوام پر لگایا جاتا تو آج بھارت میں نہ لوگ جسم بیچنے پہ مجبور ہوتے نہ ہی خودکشیاں کرتے۔ پیپری کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں سے بھارت دفاعی اخراجات میں اول پوزیشننز پر براجمان ہے لیکن ہنگامی صورت میں اسے دفاع کے لیے رافیل لینے پڑے۔ اب ایسی پالیسیاں مرتب کی جارہی ہیں جس سے بھارت کے دفاعی ادارے و تمام ملکی دولت چند افراد تک محدود ہوجائیگی اور یوں ایک ارب تیس کروڑ لوگ ایک بار پھر براہ راست غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جائینگے، مودی سرکار نے اپنے چند من پسند افراد کو اسلحہ سازی کے لائسینس مہیا کیے ہیں جس سے ایک طرف تو دفاعی ادارے ان کے محتاج ہوجائینگے دوسری طرف آر ایس ایس اپنے ورکرز کو مکمل طور پر مسلح کرنے میں کامیاب ہوجائیگا،

اسلحہ کی ریل پھیل سے ڈکیتی، بھتہ خوری میں اضافے کے ساتھ ساتھ پورے ملک میں لاقانونیت کا بت کھڑا ہوجائیگا جسے کنٹرول کرنا ممکن نہ ہوگا۔ بھارت دفاعی طور پر کھربوں جھونک کر بھی بیلینس آف پاور کے لیے دفاعی و اسٹریٹجک معاہدوں و گروپس کی تشکیل کا محتاج ہے اور یہ ناقص پالیسیوں کا ہی ثمر ہے۔ کسان بل کو ہی لے لیجئے صرف انبانی اڈانی جیسے چند افراد کو مضبوط کرنے کے لیے کروڑوں کسان بلکہ پورے بھارت کو یرغمال بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں آج سکھ بھی خود کو بھارت میں غیرمحفوظ محسوس کررہے ہیں۔ دنیا بھر میں بھارت کی شہرت ہونی تو سونے کی چڑیا چاہئے لیکن اسے اقلیتوں کے لیے خطرناک ترین ملک کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس پہ مستہزاد یہ کہ اربوں روپے کچھ پاکستانیوں پر لگادئیے جاتے ہیں تاکہ بیلینس ہوجائے۔

زرا سوچئے کہ جب امن کی آشا چل رہی تھی تو پاکستان نے خود کو بھارت کی گود میں ڈال دیا تھا لیکن را کو یہ منظور نہ ہوا اور وہ ایک طرف تو بلوچستان پراکسی کھڑی کرتے رہے دوسری طرف سری واستو گروپ کے زریعے پاکستان کو آئسولیٹ کرنے کا منصوبہ بناتے رہے جبکہ انہیں چاہئے تھا کہ یہ اس فضول خرچ کا ایک چوتھائی پاکستان میں انویسٹ کرتے اور پاکستان کے زریعے وسطی ایشیا تک رسائی حاصل کرتے تو آج نہ بھارت کی کسی سے دشمنی ہوتی نہ بھارت کسی مغربی ملک کا آلہ کہلواتا اور آج بھارت سپر پاور نہ سہی لیکن ایشین ٹائیگر ضرور ہوتا۔ اب مزید کسی بگاڑ کا یہ دیس متحمل نہیں ہوسکتا، پالیسی سازوں کو چاہئے کہ وہ اپنی سمت درست کریں بجائے فضول میں اربوں کھربوں جھونکنے کے پسی ہوئی عوام کی فلاح بہبود پہ توجہ دیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43856