Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ایک باپ کا بیٹے کے نام خط…..تحریر: ثمر خان ثمر

شیئر کریں:

محنت مزدوری کرکے بچوں کا پیٹ پالنے والے ایک باپ کا شہر میں زیرتعلیم اپنے فرزند کے نام لکھا گیا خط۔ یہ محض کاغذ کے ٹکڑے پر لکھے گئے چند الفاظ کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ ایک باپ کا دلدوز فسانہ ہے کہ کیسے کیسے پاپڑ بیل کر وہ گھر بار کی کفالت کے ساتھ ساتھ اپنے بیٹے کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے؟  ایک غریب شخص کی راہ میں کس قدر مشکلات حائل ہیں اور وہ کس مشقت سے گزر رہا ہے۔ آج ملک کے طول و عرض میں ہزاروں طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ان میں سے سینکڑوں طلبا کے والدین غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انہوں نے تمام تر تکالیف اور معاشی دشواریوں کے باوجود اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ٹھان رکھی ہے۔ کتنی اُمیدیں ،  کتنے ارمان اور کیسے کیسے خواب آنکھوں میں سجا رکھے ہیں کہ کل ہمارا بچہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے گا اور ہمارے سارے دکھ درد دور ہو جائیں گے۔ شہروں میں زیرتعلیم طلبہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی حالت پر ترس کھائیں،  ان کے خوابوں کی تکمیل میں کوتاہی نہ بھرتیں۔ ان کے ارمان ٹوٹنے نہ دیں اور ان کی اُمیدوں پر پانی نہ پھیریں۔  لیجئے اس باپ کا خطہ ملاحظہ فرمائیے :

” جان جگر تُو نے رقم مانگی ہے اس بار میرے ہاتھ ذرا تنگ ہیں۔ زیادہ رقم کا انتظام نہیں کر سکا۔ کرونا کی وجہ سے بار بار کام میں خلل،  اوپر سے ناسازی طبیعت محنت مزدوری میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ پورا مہینہ بیت گیا،  بمشکل ایک ہفتہ کام پر جا سکا ہوں ۔ پیری کی منزل ضعف پر پہلے ہی قدم رکھ چکا ہوں اور پھر بخار نے بھی مجھے نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ تم تو جانتے ہو برخوردار کہ ایک درجن افراد پر مشتمل خاندان کا واحد سہارا ہوں ۔ میرے ناتواں ہاتھ پیر چلتے ہیں تو گھر کا چولھا جلتا ہے۔ گھر والوں کا خرچہ پانی، علاج معالجہ، ان کی چھوٹی موٹی ضروریات اور تمہیں ماہ بہ ماہ دس دس ہزار روپیہ بھیجنا پڑتا ہے۔


ابا کی جان ! میں جانتا ہوں مہنگائی کے اس دور میں دس ہزار سے تمہارا گزارا مشکل سے ہوتا ہوگا مگر اس سے زیادہ رقم تمہیں مہیا کرنے کی اوقات نہیں ہے میری۔ عید الفطر آئی اور نکل گئی،  میں تیری بہنوں کو نئے کپڑوں کا بندوبست نہیں کر سکا۔ اُنھوں  نے سال بھر پرانے کپڑوں میں عید گزار دی۔ گویا عید کی خوشی تمہاری بہنوں کو چھو کر بھی نہیں گزری۔ جانتے ہو سلمی پورا دن گھر پر پڑی رہی۔ گھر کے آنگن سے باہر قدم نہیں رکھا۔ میں نے کئی بار اسے باہر گلی میں جھانکتے دیکھا۔ وہ باہر جھانکتی،  زرق برق پوشاک میں اٹکھیلیاں کرتی بچیوں کو دیکھتی اور بوجھل قدموں سے واپس آجاتی۔ میں انجان نہیں تھا،  مجھے اپنی ننھی گڑیا کے جذبات و احساسات کا ادراک تھا،  اس وقت میرے دل کا عالم کیا تھا وہ تو میرا خدا جانتا ہے اور میں جانتا ہوں ۔ میرے دل پہ چھریاں چلتی تھیں۔ آنسو میں چپکے چپکے پی جاتا تھا۔


سلمی اپنی ماں سے کہنے لگی،  ” اماں باہر جا کر سہیلیوں کے ساتھ کھیلنے کو دل کر رہا ہے لیکن ان پھٹے پرانے کپڑوں میں ان کا سامنا کیسے کر پاؤنگی؟  وہ زرق برق لباس میں ملبوس ہیں ، ان کی گھورتی نگاہوں کی چبھن میں اپنے دل پر محسوس کر رہی ہوں ” ۔ تمہاری بہن دھیمی آواز میں تیری ماں سے کہہ رہی تھی اور میں بظاہر سوتا بن کر سن رہا تھا۔ اس وقت میرے رگ وپے میں ایک طوفان برپا تھا۔ میں چادر کی جُھری سے سلمی کی نمناک آنکھیں دیکھ رہا تھا۔ پھر یکایک تیری بہن نے پلکوں کے کناروں پر نمودار سیال پانی کی بوندوں کو چادر کے پلو میں جذب کیا اور بولی،  ” لیکن اماں کوئی بات نہیں،  ہمارے بھی اچھے دن آئیں گے،  ہم بھی عصمت چچا کی بیٹیوں کی طرح زرق برق لباس پہنیں گی۔ میرا بھیا ڈاکٹر بنے گا ۔ آج ہم ابو سے بےجا فرمائشیں کریں گی تو بھیا کی پڑھائی میں خلل پڑے گا۔ مجھے اپنے ابو کی حالت کا علم ہے اور بھیا کی پڑھائی اہم ہے۔ بھیا کو میں بڑے آدمی کے روپ میں دیکھنا چاہتی ہوں “۔


بیٹا ! سلمی کی باتیں سن کر میرا من ہلکا ہوگیا۔ میرا رُواں رُواں خوشی سے کھل اُٹھا۔ میرا دل جو غم سے لبریز تھا،  آنسوؤں سے میرے رخسار تر تھے،  اب سارا بوجھ اُتر گیا۔ میرا غم اُڑ گیا اور اب غم کے اشکوں کی جگہ خوشی کے آنسوؤں نے لے لی۔ آج مجھے میری بیٹی اپنی عمر سے کئی گنا بڑی دکھائی دی۔ ایسی سلیقہ مند،  ایسی زیرک،  ایسی سگھڑ اور ایسی دانا کہ میرا سر فخر سے بلند ہوگیا اور سینہ گز بھر چوڑا ہوگیا۔


نور چشم ! تُو پورے خاندان کی اُمیدوں کا واحد مرکز ہے۔خاندان کے ہر فرد کی نگاہیں تیرے تابناک مستقبل پر لگی ہوئی ہیں۔ ابو،  امی،  بہن بھائی سب آس لگائے بیٹھے ہیں کہ تم ان کی قسمت بدل دو گے۔ ان کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کروگے،  ان کی حسرتوں اور خواہشوں کی تکمیل کا باعث بنو گے۔ چشم تصور سے امی ابو کے سن رسیدہ چہروں پر بشاشت کے کھلتے کنول دیکھو، ان کے خوشی سے تمتماتے چہرے دیکھو،  اپنی بہنوں کے چہروں پر سرور و انبساط کی پھوٹتی بہاریں دیکھو اور اپنے چھوٹے بھائیوں کی شوخیاں اور اٹکھیلیاں دیکھو۔ یہ سب تم تب کر پاؤگے جب دل لگا کر پڑھوگے۔ میں تم سے ناامید نہیں ہوں،  بھروسہ ہے تم پر۔ کوئی باپ اپنے بیٹے سے ناامید ہو بھی نہیں سکتا۔ اب یہ تم پر منحصر ہے کہ باپ کی امید اور بھروسہ کی لاج کیسے رکھتے ہو؟ 


میری غربت و افلاس تم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ادھر پورے خاندان کا پیٹ کٹتا ہے،  بہن بھائیوں کی حسرتوں اور ارمانوں کا جنازہ نکل آتا ہے تب کہیں جا کر تیری پڑھائی کا خرچ نکل آتا ہے۔ میں اپنے رشتہ داروں کی کڑوی کسیلی باتیں سنتا ہوں،  ان کے طعنے میں بھولا نہیں ہوں ۔ ان کی تمسخر اُڑاتی باتیں اور گھورتی نگاہیں میرے دل پر ہتھوڑے کی مانند برستی ہیں۔ میری روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ وہ میری پیٹھ پیچھے اور کبھی کبھار روبرو اشاروں کنایوں میں کہتے ہیں کہ مجھے جیسے قلاش شخص کو بیٹے کو تعلیم دلانے کا شوق کیسے چرایاا؟  ایک فقیر جو بچیوں کو عید پر نیا جوڑا بنوا کر نہیں دے سکتا،  بیٹے کو بغرض تعلیم شہر بھیجنے کی خواہش کیونکر جاگ اُٹھی؟ زہر کا یہ پیالہ میں چپ چاپ نوش کر جاتا ہوں ۔ مجھے کسی سے اُلجھنا نہیں ہے۔ میرا مقصد ان سے اُلجھنا ہرگز نہیں ہے، میرا خواب تمہیں تعلیم دلانا ہے ۔


تُو نے آئندہ ماہ کے لئے کچھ زیادہ پیسوں کی مانگ کی ہے۔ محنت مزدوری کو زیادہ وقت دونگا۔ کمی بیشی گائے فروخت کر کے پوری کر دونگا اور اگر پھر بھی مراد بر نہیں آئی تو کھیت بیچ دونگا۔ تم بالکل بےفکر رہو،  جب تک تیرے باپ کے ناتواں کندھوں میں دم ہے کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ مویشی اور زمین تم سے اہم نہیں،  تمہاری اہمیت ہے برخوردار،  اور تعلیم زیادہ اہم ہے۔ میں نہیں پڑھ سکا اور یہ کسر میں تمہاری صورت میں نکال دینا چاہتا ہوں ۔ بس تُو میرے خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں کوتاہی نہ کرنا۔ خاندان کا مستقبل تم سے وابستہ ہے۔ ہمارا سر فخر سے بلند کر سکتے ہو یا ہماری پگڑی اُتار سکتے ہو۔ ہمیں سر اُٹھا کر چلنے کے قابل بناتے ہو یا سر جھکا کر،  یہ تم پر منحصر ہے۔


بیٹا امارت اور غربت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اگر چاہے تو لمحوں میں مالا مال کر دے اور چاہے تو پل بھر میں کنگال کر دے۔ میں اپنے افلاس اور مفلوک الحالی سے ناخوش اور مایوس نہیں ہوں ۔ جو چیز اللہ کے ہاتھ میں ہو اس پر نادم اور ناراض ہونا گناہ ہے۔ تم بھی نادم اور مایوس نہ ہونا،  متمول خاندانوں کے لڑکوں سے مرعوب نہ ہونا،  احساس کمتری اور مایوسی کو دل پر حاوی ہونے نہ دینا۔ اپنے کام سے کام رکھنا اور تمہارا کام ہے پڑھنا،  پڑھنا اور بس پڑھنا۔”‏تمہارا ابو


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
43834