
برفانی علاقوں کے مسائل اور ان کا تدارک ….پروفیسرعبدالشکور شاہ
تکنیکی اعتبار سے برف کا رنگ سفید نہیں بلکہ پارباسی ہے جس کا مطلب ہے صاف شفاف یا نیم شفاف۔ یہ ہمیں دیکھنے میں سفید نظر آتی ہے۔برف اپنے بے شمار نقصانات اور مسائل کے ساتھ کچھ فائدے بھی رکھتی ہے۔یورپ میں گولڈن سنو گلوبل ایوارڈ کا انعقاد کیا جا تا ہے جس میں سب سے زیادہ برف پڑنے والے علاقے کو اس ایوارڈ سے نوازہ جا تا ہے۔ ہم یورپ والے کام نہیں کر سکتے ورنہ ہمارے برفانی علاقے ترقی کر جائیں گے۔ ان کو ہم تفریح مہیا نہیں کرنا چاہتے اس سے ذہن تازہ ہوتا ہے۔ جب وہ ذہنی طور پر تروتازہ ہو جائیں گے تب شاید ہماری گھسی پھٹی سیاسی پھکی نہیں بکے گی۔ایک دن میں سب سے زیادہ برف پڑنے کا اعزاز اٹلی کو حاصل ہے۔ ہیروشیما کے شہر میں ہر سال برف سے مختلف چیزیں بنانے کا مقابلہ منعقد کیا جا تا ہے۔ ہم ان تمام سرگرمیوں کے خلاف ہیں ہم عوامی مسائل کے لیے اپنا سر گرم اور سیاست کے لیے ٹھنڈا رکھتے ہیں۔اگر حکومت اس قسم کی سرگرمیوں کا انتظام کرے گی تو پھر حکومت کے سوشل میڈیا ونگ کون چلائے گا۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے تقریبا20% لوگ سردیوں میں نقل مکانی کر کے شہری علاقوں میں چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے برف سے مرنا مہنگائی سے مرنے سے زیادہ خوفناک ہے۔
2020کی رپورٹ میں عالمی موسمیاتی تبدیلی کے اعدادوشمار نے دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان کو پانچویں نمبر پر رکھا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق 1998-2018 کے دوران پاکستان میں 9989 افراد موسمیاتی حادثات کو شکارہوئے اور 3.9 بلین ڈلر کا مالی نقصان ہوا۔ تازہ برف آواز کی لہروں کو جذب کر لیتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے برفانی علاقے کے لوگوں کی چیخ و پکار حکومتی کانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ایک اندازے کے مطابق تقریبا 6 ملین لوگ سردیوں میں شدید برفباری کے خوف سے شہروں کا رخ کر تے ہیں۔ منفی 21 درجہ حرارت میں زندہ رہنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں ہے مگر سب لو گ شہروں کا رخ کرنے کی اسطاعت نہیں رکھتے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق2050 تک جنوبی ایشیاء میں موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب تقریبا 140 ملین لوگ اپنے ہمسایہ ممالک کی سرحدوں کو پار کر سکتے ہیں جس سے ایک بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔ یہ بحران ان علاقوں کی معیشت کی رفتار کو مزید سست کر دے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں شدید موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نقل مکانی میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نقل مکانی کی وجہ سے نہ صرف دور دراز کے علاقوں میں ترقیاتی کام رک جا تے ہیں بلکہ شہروں میں دباو بڑھنے کی وجہ سے بیشمار مسائل جنم لیتے ہیں۔ ہم نے دیگر شعبوں کی طرح برف کے شعبے میں بھی ترقی یافتہ ممالک سے پیچھے ہیں۔ دنیا میں برف کے لیے 100سے زیادہ الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں مگر ہم ابھی تک ایک دو الفاظ تک محدود ہیں۔جاپانی بندروں کی ایک قسم برف کی بڑی دلدادہ ہے۔ وہ برف میں خوب ادھم مچاتے ہیں اور لطف اندوز ہو تے ہیں۔حکومت نے برفانی علاقے کے لوگوں کو شاید جاپانی بندر سمجھ کر لطف اندوز ہونے کے لیے بے یارومدد گار چھوڑ دیا ہے۔
برف میں زیادہ عرصہ رہنے سے پیبلوکٹو اور آرکیٹک ہیسٹیریا کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ برفانی علاقوں کے مقیم شینو فوبیا کا بھی شکارہو جاتے ہیں۔ شینوفوبیا برف سے خوف کو کہتے ہیں۔ برفانی علاقوں میں گلیشئرز کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو وہاں کے لوگوں پر گہر ا اثر پڑتا ہے۔ وادی نیلم آزاد کشمیر میں گزشتہ سالوں کے دوران کئی گاوں برفانی تودوں تلے دب چکے ہیں مگر حکومت نے ابھی تک ان آفت زدہ علاقوں کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار نہیں کی ہے۔ برفانی علاقوں کے لوگوں کو ہر وقت پھنس جانے اور گلیشئرز کا خوف رہتا ہے جوانہیں نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ گلگت بلتستان، سکردو، نیلم ویلی اور دیگر یخ بستہ علاقوں کے لوگ برف باری میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں۔ شدید برف باری کی وجہ سے ان علاقوں کا رابطہ دیگر حصوں سے کٹ جا تا ہے۔ نیلم ویلی کی وادی گریس اس وقت اس صورتحال کا سامنا کر رہی ہے۔ کئی ہفتوں سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔
مقامی لوگوں کی جانب سے بار بار رابطے کرنے کے باوجود بھی کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی۔ اب عوام احتجاجی تحریک چلانے اور دھرنے کے لیے تیار ہیں۔ دسمبر سے مارچ تک ان علاقوں کے باسی پتھر کے دور میں چلے جاتے ہیں۔ سڑکیں بند، بجلی غائب، کیمونی کیشن ختم، گھر سے باہر نکلنا تک محال ہو جا تا ہے۔ برفانی علاقوں میں بڑی عمر کے زیادہ تر لوگ ازدمہ کی بیماری میں متلا ہو تے ہیں۔شدید سردی کے اس موسم میں انکی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ ان علاقوں میں آکسیجن کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے وہ ایک لحاظ سے وینٹیلیٹر پر ہوتے ہیں۔ غربت زدہ دور افتادہ علاقوں کے لوگ شہروں کرائے کے مکانات یا کسی رشتہ دار کے رحم و کرم پر وقت گزارتے ہیں۔حکومت کو چاہیے وہ ان علاقوں کے مسائل کو قبل از وقت حل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دے۔ حکومت ان علاقے کے لوگوں کا نظام زندگی بحال رکھنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ برفانی علاقے کے لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء، ادوایات اور زرائع نقل و حمل کی سہولت دے۔ حکومت کمیونی کیشن کو بحال رکھنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے تا کہ کسی ہنگامی صورتحال سے بروقت نمٹا جا سکے۔
حکومت برفانی علاقے کے مکینوں کو سردیوں کے مہینوں میں بلات سے مستثنی قرار دے۔ حکومت ہر 10 میل کے فاصلے پر برف ہٹانے والی دومشینوں کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ حکومت سردیوں میں گھر میں مقید رہنے والے افراد کو لاونس دینے کا بندوبست کرے۔ سردیوں میں گھروں میں مقید رہنے والے خاندانوں کو گرمیوں کے دوران گھریلو صنعتوں کی تربیت اور مذکورہ سامان مہیا کرے تا کہ تین ماہ تک بے کار بیٹھنے کے بجائے ان علاقوں کے لوگ ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ہم برف پر سیاست کر سکتے ہیں مگر برف صاف کرتے ہوئے ہمیں زحمت ہو تی ہے۔نیلم ویلی کے ایم ایل اے اور موجودہ سپیکر اسمبلی آزاد کشمیر نے وادی نیلم کو عذاب کشمیر بنا دیا ہے۔
موصوف نے اپر نیلم میں یہ نعرہ لگایا تھا:برف تو یورپ میں بھی پڑتی ہے مگر وہاں سڑکیں بند نہیں ہوتی۔برف فوبیا سے پریشان لوگوں کے ووٹوں پہ جیتنے کے بعداسمبلی ہاسٹل میں ہیٹر لگا کر برف پگلانے کی کوشش کر تے ہیں۔ فرزند گریس بھی گریس کے لیے گزند ثابت ہوا اور اس وقت اپنے قریبی عزیزوں کو برف تلے دبے چھوڑ کر حکومتی عہدے کے مزے لے رہا ہے۔ برفانی علاقوں کے مسائل دیکھ کر دل کر تا ہے الہ دین کا چراغ مل جائے تو میں ملک میں الیکشن جنوری فروری میں کروانے کا قانون بنا دوں تاکہ ہیٹر لگا کر بیٹھنے والوں کو ان برفانی علاقے کے لوگوں کے مسائل کا اندازہ ہو۔