Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

جامعہ چترال کی سائیٹ……پروفیسر اسرار الدین

شیئر کریں:


ایک آدمی کو لعل ملاوہ بہت خوش ہوا۔سوچا کہ گھر جاکے گھروالوں سے مشورہ کرے گاکہ اس لعل کو کہاں رکھے گااور کیسے رکھے گا۔گھر میں اسکی دوبیویاں،تین بیٹے،تین بہوویں اور تین بیٹیاں تھیں۔یعنی پورے درجن پر مشتمل ایک کنبہ تھا۔اس کا خیا ل تھا کہ مشورہ مثبت عمل ہے۔اور میرے گھروالے ذہین اور ہوشیار لوگ ہیں۔اس لئے یقینا کسی مناسب فیصلے کے مطابق اس مسئلے کا حل ڈھونڈ ینگے۔گھر پہنچ کے گھروالوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ ایجنڈا رکھا اور مشورہ دینے کے لئے کہا۔یہ بھی بتایا کہ مشورہ سنت عمل ہے اسلئے آپ سب سے مشورہ کررہاہوں۔گھروالوں نے جب لعل کو دیکھا تو ہرایک کے منہ میں پانی بھرآیا۔اور ہر کوئی سوچنے لگا کہ کسطرح میں اس کا مالک بن جاؤں۔مشورہ شروع ہوا وہ دن گذرگیا اور کئی دن گذرگئے اور آخری خبریں آنے تک مشورہ جاری ہے اورکوئی فیصلہ نہیں ہوا۔واقف حال لوگوں کا بیان ہے کہ گھر میں ٹینشن کا دوردورہ ہے اور فیصلے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی۔دراصل اس قصے میں سنت کے ایک حصے پر عمل ہوا لیکن دوسرا اہم حصہ ان سے چھوٹ گیا۔وہ حصہ یہ تھا کہ مشورے کا ایک بڑاہوتا ہے۔یعنی امیر ہوتا ہے۔مشورے میں جو بھی تجاویز سامنے آجائیں فیصلہ اس امیر کے موقف کے مطابق ہوتا ہے۔ورنہ میں نامانوں کا سلسلہ دراز ہوتاجاتا ہے اور فیصلہ محال ہوجاتا ہے۔


آج کل چترال یونیورسٹی کے قیام کی جگہے پر بحثیں جاری ہیں۔کوئی کہہ رہا ہے کہ اسے سید آباد میں قائم کیا جائے،کوئی اسکو سین لشٹ میں (جہاں فی الحال اسکو قائم کیا گیا ہے)بحال رکھنے کی تجویز دیتا ہے۔ایک آدھ تجویز اسکو قاق لشٹ (اپر چترال میں) میں لے جانے کی بھی آئی ہے۔کیوں نہ ان تجاویز کو ایک ایک کرکے دیکھیں۔کیونکہ ہر ایک تجاویز کے پیچھے معقول وجوہات ہیں۔پھر ان کا جائزہ لے کے کسی نتیجے پر پہنچے کی کوشش کرتے ہیں۔یاد رہے کہ جن لوگوں نے اپنی اراء پیش کی ہے وہ سب نہایت قابل شخصیات ہیں اور علم وتجربے کے لحاظ سے چترال کے کریم ہیں۔میں بحیثیت ایک Lay Manصرف اپنا جمہوری حق ادا کرنے کے لئے یہ چند سطور پیش خدمت کررہا ہوں۔یہ دعویٰ ہرگز نہیں کہ میں کوئی بڑا تیر مارنے والا ہوں یایہ کہ کوئی بہترین مشورہ دے رہاہوں۔اب دیکھتے ہیں کہ جو مشورے سامنے آئے ہیں ان کے بارے کیا دلیلیں دی جارہی ہیں۔


(1) سید آباد سائیٹ: سیدآباد سائیٹ کے حق میں بولنے والے ایک تویہ کہتے ہیں کہ ایک حکومت نے یہ پہلے سے ہی یونیورسٹی کے لئے خریدی ہوئی ہے۔یہ 200کنال رقبے کاوسیع جگہ ہے۔شاہراہ پرواقع ہے۔یہاں ایک نیا اور خوبصورت شہر وجود میں آئے گا۔ایک سکالرنے اعداد وشمار کی مدد سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس مقام کی مرکزیت نہایت قابل توجہ ہے۔یہ نیچے دروش تک کے علاقوں اور اوپر چترال خاص تک کے دیہات کے لئے مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور دونوں طرف کے آنے جانے والوں کے لئے مساوی فاصلے کی وجہ سے یہ سب لوگ آسانی سے اس سے بحیثیت Day Scholarsاستفادہ کرسکینگے۔


(2) سین لشٹ سائیٹ: سین لشٹ میں اے ڈبلیو کے (مردان)یونیورسٹی کا سب کیمپس کھل گیا تھا۔ساتھ ہی زرعی ڈیپارٹمنٹ کا کوئی ریسرچ سنٹر تھا۔یہاں ضروری انفراسٹرکچر موجود تھا۔اسلئے جب عبدالوالی خان یونیورسٹی (مردان) اور بے نظیر یونیورسٹی (شیرینگل دیر)کوآپس میں مدغم کرکے چترال یونیورسٹی کی شکل دی گئی۔توآسانی کے لئے یہاں سہولیات کی بہم یابی کی وجہ سے یونیورسٹی کو یہاں پر قائم کیا گیا۔اور سید آباد والی سائیٹ کو یونیورسٹی کے سب کیمپس کی حیثیت دینے کا پروگرام بنا۔اب غالباًسیدآباد سائیٹ کے حمایتی مندرجہ بالا وجوہات کی بناء پر یہیں پر یونیورسٹی کاMain Siteقائم کرنے پرزور دے رہے ہیں۔بعض ان میں سے سین لشٹ سائیٹ سے اس قدر الرجک ہیں کہ اس کا صحیح نام لینے کے بھی روادار نہیں۔کوئی اسے رونڈور کہہ کے طعنہ دیتا ہے اور کوئی اسے سنگور نام دیتا ہے۔اسطرح لگتا ہے وہ اس سائیٹ کو ٹوٹلیWrite offکرنا چاہتے ہیں۔


(3) تیسری تجویز قاق لشٹ سائیٹ ہے۔ان کا موقف یہ ہے کہ وہاں پربنجرزمین وافر مقدار میں پھیلی ہوئی ہے۔یونیورسٹی کو بننے اور پھیلنے کے لئے جتنے امکانات ہیں یہاں پران کی گنجائش زیادہ ہے اس لئے یہ بہترین سائیٹ ہے۔


مندرجہ بالا سطور کی روشنی میں بندہ ناچیز یہ رائے پیش کرتا ہے۔
(1) سیدآباد سائیٹ:
بے شک یہ سائیٹ جو 200کنال وسیع ہے اور پچھلی حکومت نے اسے خریدی تھی یہ اسے اس وقت عبدالولی خان یونیورسٹی کے سب کیمپس کے طورپر قائم کرنے کے لئے خریدی گئی تھی۔کیا اب یہ ٹیلہ ایک Full fludgedیونیورسٹی کے مین کیمپس کی ضروریات کو پوری کرسکییگا۔جسمیں بے شمار شعبہ جات ہوں گے۔کھیل کے میدان ہوں گے۔بڑے ہال ہونگے۔سٹاف کی رہائش کے لئے کالونی ہوگی۔ہاسٹل ہوں گے۔جمنازیم ہوں گے اور کیا کیا۔یہ دوسری بات ہے کہ اگر صورت حال ایسا بن سکے کہ تمام سیدآباد یا اسپاغ لشٹ پل سے لے کے گہریت تک بمع شوتار یونیورسٹی کو ملے پھر تو فہوالمراد اس وقت یقینا ایک زبردست یوینورسٹی شہر وجود میں آنے کا ہمارا خواب پورا ہوسکے گا۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیا یہ Siteبحیثیت Main Siteیونیورسٹی کی ضروریات پوری کرسیکیگا؟چلومان لیتے ہیں کہ یہی Siteسلکٹ کی جائے تو پھر سین لشٹ کوRetainکرنے میں کیا ہرج ہے۔بعض لوگ نہ معلوم کیوں ان دوسائیٹوں کو ایک دوسرے کی سوکن تصور کرنے لگے ہیں۔اور سین لشٹ کو مکمل طورپر طلاق دینے کی فکر میں ہیں؟۔
(3) اب آتے ہیں سین لشٹ سائیٹ کی طرف جسکی قسمت میں کم از کم ابتدائی دورمیں چترال یونیورسٹی کی خدمت لکھی ہوئی تھی۔یہ بھی خوش قسمتی ہے یہاں پر حکومتی کچھ ادارے اور ان سے متعلق تعمیرات کی موجودگی ہے۔جنکی وجہ سے پہلے AKWیونیورسٹی سب کیمپس کویہاں پناہ گاہ ملی بعدمیں Full fludgedچترال یونیورسٹی کے لئے ایک Newelensبننے کا اس کو موقع مل رہاہے۔بعد کی باتیں خداجانے۔خواہ اسکو بعد میں Mainکیمپس بناتے ہیں یا سب کیمپس۔لیکن اسکے ان Advantagesسے شاید ہی کوئی انکا رنہ کرسکے۔


(1) یہ پوری لشٹ ایک ہموار میدان ہے اور کافی حد تک دیہات کے مکانات سے خالی ہے۔اس لئے یونیورسٹی کی کئی ضروریات کو Fulfilکرنے کی اس میں گنجائش ہے۔


(2) دریا پر اگر پُل بنائیں تو اس طرف گنکورینی تک سارا حصہ بنجر پڑا ہے اسکو بھی کیمپس کے ساتھ آسانی سے ملایا جاسکتا ہے اور وہاں تعمیرات بھی پھیلائے جاسکتے ہیں۔


(3)موجودہ حالات میں بھی جبکہ یونیورسٹی کے پاس ہاسٹل اور سٹاف رہائش کی سہولیات نہیں ہیں۔شہر کے نزدیک ہونے کی وجہ سے بہ آسانیاں موجود ہیں۔جہاں سے بہ آسانی طلبہ اور اساتذہ ودیگر سٹاف والے ڈیوٹی کے لئے آجاسکتے ہیں۔


(4) سیلاب ودریا بردی سے یہ جگہ محفوظ ہے توان وجوہات کی بناء پر موجودہ حالات Main siteیہیں ہی موزوں اور مناسب لگ رہاہے اور سید آباد ٹیلہ بہ حیثیت سب کیمپس اس کا معاون بن سکتا ہے۔اگر خدا نے کیا کہ سید آباد کا زیادہ حصہ یا سارا حصہ اگر کسی وقت یونیورسٹی کومل جاتا ہے اس وقت بھی یہ SIteبہ حیثیت سب کیمپس فایدہ مندہی رہے گا اور اس کا کسی کو کوئی نقصان نہ ہوگا۔


(3) قا ق لشٹ کو میرے خیال میں اپر چترال یونیورسٹی کے لئے بچا کے رکھنا ہوگا۔جب دیرمیں دویونیورسٹیاں بن سکتی ہیں تو چترال میں کیوں نہیں۔

مجھے چکدرہ یونیورسٹی کے ایک سابق وائس چانسلرنے بتایا کہ جب شیرینگل والی یونیورسٹی کا منصوبہ بن رہا تھاتو میں نے حکومت والوں کو بتایا تھا کہ ہماری یونیورسٹی سے محلق %90کالج چترال سے تعلق رکھتے ہیں اسلئے یونیورسٹی وہیں بنائی جائے۔لیکن اس وقت کی مرکزی حکومت اپردیر میں یونیورسٹی بنانے پر تلی ہوئی تھی۔تو وہیں بنادی۔اب بھی اپر چترال والے ابھی سے کوشش شروع کریں تووہاں یونیورسٹی بننی مشکل نہیں ہوگی۔لیکن بہتر ہوگا کہ لوئر چترال والی یونیورسٹی کو فی الحال نہ چھیڑیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43438