Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پرنس کریم آغاخان چہارم کی ولادت با سعادت ….تحریر:سردار علی سردار ؔ اپر چترال

شیئر کریں:





شہزادہ شاہ کریم الحسینی 13دسمبر 1936 ء کو اتوار کی صبح سوئیٹزرلینڈکے خوبصورت شہر جینوا میں پیدا ہوئے۔ اس پُرمسرت دن کے موقع پر تمام اسماعیلی جماعت کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ آپ کی ولادت پر دنیا بھر کے اسماعیلی جماعت نے کئی دنوں تک خوشیاں منائیں اور مبارک بادی کے پیغامات آپ کے دادا حضرت امام سلطان محمد شاہ اور آپ کے والد گرامی پرنس علی سلمان خان کو بھیجے۔آپ کی والدہ ماجدہ پرنسیس تاج الدولہ ہیں جو برطانیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی جبکہ آپ کی دادی لیڈی علی شاہ ہیں جس نے آپ کا نام کریم رکھا تھا۔ آپ اپنے والدین کے بہت ہی لاڈلے تھیجنہوں نے بچپن ہی سے آپ کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھتے تھے۔


1939 ء میں دوسری عالمی جنگ کے موقع پر آپ اور آپ کے چھوٹے بھائی پرنس امین کو سوئیٹزرلینڈ سے نیروبی(افریقہ) روانہ کردیا گیا جہاں آپ کی والدہ محترمہ پرنسیس تاج الدولہ بھی آپ کے ہمراہ تھیں۔نیروبی میں آپ کی مذہبی تعلیم و تربیت کے لئے قادر خان کو مقرر کیا گیا جس کی وجہ سے آپ نے قرآن مجید کے ساتھ ساتھ عربی زبان میں بھی مہارت حاصل کی۔


کہتے ہیں کہ آپ کے دادا جان کو اپنے زمانے میں جدید اور قدیم علوم پر دسترس حاصل تھی۔آپ اپنے زمانے میں فارسی اور عربی دونوں زبانوں پر وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ آپ کا پوتا بھی ان دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کرے تاکہ آنے والے زمانوں میں اُن کے لئے فارسی اور عربی زبان میں کوئی دقت پیش نہ ہوں۔


آپ نے نیروبی میں چار سال تک قیام فرمانے کے بعد جنگ ختم ہوتے ہی سوئیٹزرلینڈ واپس آگئے جہاں برصغیر کے جید اور بہترین علماء آپ کی تعلیم و تربیت کے لئے آتے رہیجن میں علی گڑھ کے مشہور استاد مصطفیٰ کامِل بھی ہیں جنہوں نے آغاخان چہارم کو اردو، اسلامی تاریخ اور عربی کی تعلیم سے روشناس کرایا۔سوئیٹزرلینڈ میں آپ اور آپ کے بھائی کو لی روزی اسکول میں داخل کرایا گیا جہاں صرف شاہی خاندان کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔


آپ اپنی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف کھیل اور مشاغل میں بھی حصہّ لیتے تھے۔ آپ کو بچپن ہی سے برف پر Skating کا شوق تھا۔ اس کے علاوہ گھوڑ سواری، تیراکی، ٹینس، باغبانی اور لوہے کی دستکاری میں بھی شوق رکھتے تھے۔آپ کو فٹ بال کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا ۔ آپ نے کئی مقابلوں میں حصہ ّ لیکر انعام بھی لے چکے ہیں۔


1953 میں اعلیٰ تعلیم کے لئے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخل ہوگئی جہاں آپ نے اسلامک اسٹیڈیز، تاریخ اسلام،تصوّف،عربی اور فارسی میں تعلیم حاصل کی اور ناصر خسرو کی شاعری پر خاص مضامین لکھے۔اس کے علاوہ فرانسیسی، اطالوی،اسپینی،عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں مکمل قدرت حاصل کی۔
آپ ہارورڈ یونیورسٹی میں اعلیٰ درجے کے طالب علم تھے جہاں وہ بہت محنت کرتے تھیاور سادہ زندگی گزرتے تھے اور خود پیدل چل کریونیورسٹی آتے جاتے تھے۔ سید آصف جاہ جعفری اپنی کتاب ‘دنیائے اسلام کا خاموش شہزادہ’ میں یوں تذکرہ کیا ہے کہ “یونیورسٹی کے بہت سے مسائل پر اساتذہ آپ کے مشوروں پرنہ صرف توجہ دیتے بلکہ حمایت بھی کرتے تھے۔شاید اُن کے اساتذہ کرام کو اس بات کا ادراک ہوگیا تھا کہ یہ بچہ دنیا کا عظیم انسان کہلائے گا اور اُمتِ مسلمہ کے دل میں اپنی اعلیٰ ترین خدمات اور پرُخلوص قیادت کی وجہ سے ایک اہم اور روحانی مقام پائے گا کیونکہ وہ اپنی گفتگو میں بڑے بڑوں سے مرعوب نہیں ہوتے تھے بلکہ اتنے مدابرانہ انداز میں اپنے اساتذہ سے سوال کرتے تھے کہ وہ جواب دینے سے پہلے حیرت کا شکار ہوجایا کرتے تھے”۔


11 جولائی 1957 ء کو جب آپ ہاورڈ یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھیتو آپ کے دادا حضرت امام سلطان محمد شاہ کی وفات ہوئی اور اسماعیلی جماعت کی امامت کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپ دی گئی۔ آپ نے امامت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور بی اے انرز کی ڈگری تاریخ میں حاصل کی۔آپ کے دادا جان نے اپنی وصیت میں آپ کے بارے میں لکھا تھا کہ” ہمارا یقین ہے کہ ہمارا جانشین ایک نوجوان آدمی ہو جس نے حالیہ سالوں کے دوران اور جدید دور میں پرورش پائی ہو اور ہوش سنبھالا ہو اور اپنے منصب میں بحیثیت امام زندگی کا ایک جدید نقطہ ء نظر لائے”۔ یہ وصیت تاریخِ آئمہ اسماعیلیہ حصہّ چہارم میں درج ہے۔


آپ اپنے دادا جان کی وصیت کے مطابق امامت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے عالمِ انسانیت اور اُمتِ مسلمہ کی علمی ترقی اور ترویج کے لئے شب وروز محنت کی اور کئی ملکوں کا دورہ فرماکر لوگوں کو اس زرین اصول پر عمل کرنے کی تاکید کی۔ آپ نے کئی یونیورسٹیوں میں علمی تحقیق اور اعلیٰ علم کے حصول کے لئے تقاریر بھی کیں۔12 مارچ 1976 ء کو اڑتالیس ملکوں کے ایک سو بہتر علماء کرام کی موجودگی میں سیرت کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی جس کی صدرت کرتے ہوئے پرنس کریم آغا خان نے فرمایا کہ” آپ کی اس اعلیٰ دانشورانہ دنیا میں آپ میں سے کچھ خوش قسمت ہیں جن کے پاس رسول ﷺ کی زندگیوں کے اہم پہلؤں کے متعلق غورو فکر کرنے کے لئے وقت ہے، یہ ایک رحمت ہے جس کی کئی مسلمان تمنّا کرتے ہیں، لیکن وہ اپنے حالات کی وجہ سے ان کے اختیار سے باہر ہے اور بلاشبہ یہ جدید طرزِ زندگی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کرسکتے۔میں پوچھتا ہوں کہ آیا ہمارے پاس کوئی واضح،پختہ اور جامع سوجھ بوجھہ ہے کہ آنے والے وقت میں مسلم معاشرہ کیسا ہوگا، اور ہمارا یقین ہے کہ اگر اس کا جواب غیر یقینی ہے تو پھر قرآن پاک اور اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر صلعم کے اسوہء حسنہ کے سوا اور ہم کہاں تلاش کرسکتے ہیں؟”۔(عالمِ اسلام ماضی، حال اور مستقبل کے آئینے میں، اسماعلیہ اسوسی ایشن برائے پاکستان۔ ص 39،44)


آپ اپنے دادا جان کی طرح شروع ہی سے مدّبر، فہم و ادراک رکھنے والی اور اعلیٰ وژن کے مالک شخصیت تھے۔تحریک پاکستان کے لئے حضرت امام سلطان محمد شاہ کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔کیونکہ آپ تحریک پاکستان کے بانیوں میں سے تھیجنہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی صدرت کرتے ہوئے گول میز کانفرنس میں مسلمان وفد کی قیادت کی۔1911 ء میں ایک وفد کی صورت میں جس کے سکریٹری مولانا جوہر علی تھے یونیورسٹی کے لئے چندہ جمع کرنے کے لئے ہندوستان کے طول و عرض کا دورہ کیا۔ اُن کا یہ دورہ کامیاب رہا اور وہ یونیورسٹی کے لئے تیس لاکھ روپے کی گرانقدر رقم جمع کرنے میں کامیاب ہوگئیاور خود بھی اپنی جیب خاص سے ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔1920 ئمیں جب علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو سرآغاخان کو اتفاقِ رائے سے شیخ الجامعہ (پرو-چانسلر) مقرر کیا گیا۔


آپ کے اس عظیم کارنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ شبلی نے لکھا ہے کہ ” ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمان جو نہ کرسکے وہ کام ہز ہاینس سرآغاخان نے انجام دیا ” (ہدایت، اکتوبر 1988 ء اطرپ ص 17)
جب پاکستان بنا تو آپ نے عربی کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے لئے مشورہ دیا لیکن افسوس کہ آپ کی اس پُر حکمت رائے پر عمل نہ ہوا۔جس کی ضرورت کو آج پاکستان کے ہر اہلِ علم اور اہلِ دانش محسوس کر رہے ہیں۔
آج پرنس کریم آغا خان چہارم اپنے دادا جان کے نقشِ قدم پر چل کر اُمتِ مسلمہ اور اسماعیلی جماعت کی خدمت کے لئے ہر وقت کوشان ہیں۔ آپ کی اہم خدمات میں آغاخان یونیورسٹی ہسپتال ہیجس کے قیام سے مستقبل میں دانشورانہ خیالات کے اعلیٰ معیار کو تقویت ملے گی۔ 11 نومبر 1985 ء کو آغا خان یونیورسٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ “موجودہ دور کو درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلم ممالک میں تعلیم کا فروغ اور علم کے اعلیٰ ترین مدارج طے کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کیونکہ دنیا میں تیزی سے تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔اگر کوئی یونیورسٹی اپنا اعلیٰ علمی اور تحقیقی معیار قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور تحقیقی کردار ادا کرنا ہوگا اس لئے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایک ارب مسلمانوں کو تعلیم میں لیڈر شب کی ضرورت ہے اور یہ رہنمائی یونیورسٹیاں فراہم کرسکتی ہیں “۔ آپ نے ان مسلمان فلسفیوں اور سائنس دانوں کے نام لئے جن سے ایک مدت تک یورپ نے بہت کچھ سیکھا۔ اس نئی یونیورسٹی میں ہم مسلمانوں کی ان تاریخی روایات سے استفادہ کریں گے جو رازی، البیرونی، ابنِ سینا اور ابن رشد نے بطورِ ورثہ ہمارے لئے چھوڑ دی ہیں اور ان روایات کو ہم پندرہویں صدی ہجری کی اعلیٰ اور جدید ترین تعلیمات تک پہنچائیں گے۔


پرنس کریم آغاخان کا یہی وژن آج عملی زندگی کا حّصہ بن چکا ہے جس کا واضح ثبوت آغاخان یونیورسٹی کی صورت میں اپنا اعلیٰ علمی اور تحقیقی معیار قائم کی ہوئی ہے جس کے لئے دنیا کے کونے کونے سے لوگ اس مرکزِ علمی کا رخ کرتے ہیں۔


عالمِ انسانیت اور مسلم معاشرے کی ترقی کے لئے آپ نے آغا خان نیٹ ورک کا ایک جال بچھا رکھا ہے جس میں ذات پات اور رنگ و نسل سے بلاتر ہوکر انسانیت کی خدمت جاری ہے گویا پرنس کریم آغا خان مسند امامت میں آتے ہی اپنی ایک فکری مشن کی ترویج و اشاعت اور ارتقا کے استحکام کے لئے ہمہ وقت برسرِ پیکار ہے۔ پاکستان سے سرآغاخان کی دلی محبت انہیں وراثت میں ملی ہے۔ انہوں نے اپنی کئی تقاریر میں فرمایا ہے کہ پاکستان اُن کا دوسرا گھر ہے۔ انہیں اپنے گھر میں سکون ملتا ہے۔ آپ کی پاکستان سے والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار آغاخان یونیورسٹی کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ وہ اگر چاہتے تو یہ یونیورسٹی دنیا کے کسی اور ملک میں بنا لیتے لیکن آپ نے اس یونیورسٹی کو پاکستان میں تعمیر کرکے محبِ وطن ہونے کا ثبوت دیا۔


آپ نے پاکستان کے لئے نہ صرف یونیورسٹی اور ہسپتال کا تحفہ دے دیا بلکہ پاکستان کے دور دراز علاقوں کے لئے صحت و تعلیم اور غربت کو ختم کرنے کے لئے AKRSP کی صورت میں اپنی بیمثال خدمات پیش کیں جس کی وجہ سے لوگوں میں بچت اور تنظیم کی صورت میں کام کرنے کا ایک جذبہ پیدا ہوا۔زلزلہ اور سیلاب سے تباہ شدہ لوگوں کے لئے فوکس کی طرف سے شیلٹر اور بنیادی ضروریات کی چیزیں مہیا کرنے کا سہرا بھی AKDN کوحاصل ہے۔ جب کورونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور کئی انسانی جانیں ضائع ہوئیں تو پرنس کریم آغاخا ن نے انسانیت کی جان بچانے کے لئے دوسو پچاس ملین یورو جو پاکستانی کرنسی ریٹ کے مطابق بیالیس ارپ اکیانوے کروڑ باسٹھ لاکھ تریانوے ہزار پانچ سو روپے بنتے ہیں پرتگال ہیڈکوارٹر میں یہ رقم کورونا وائرس کی دوا اور اسکی روکھ تھام کے لئے بطورِ عطیہ پیش کیا۔آپ نے نہ صرف اپنا عطیہ پیش کیا بلکہ تمام لوگوں کو اس مہلک بیماری سے بچانے کے لئے سماجی فاصلہ اختیار کرنے، ماسک کا استعمال اور دیگر احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کے بارے میں کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی بار بار تاکید کی۔


آپ کی خاموشی اور بے لوث خدمات کی وجہ سے آپ کو ‘دنیا کا خاموش شہزادہ ‘ کے عظیم لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کو خاموش شہزادہ اس لئے کہا گیا کہ آپ انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے اس کا اظہار نہیں فرماتے بلکہ خاموشی سے اپنی خوشبو بکھرتے رہتے ہیں اور دنیا کے لوگ اُس خوشبو سے اپنے آپکو معطر کرنے کے لئے آپ کے ارد گرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فروری 1981 ء کو جنرل محمد ضیالحق سابق صدر پاکستان نے آغاخان یونیورسٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے کہا تھا۔” آغاخان ایک ایسے پرکشش پھول کی مانند ہے جس میں بیشمار خوش ذائقہ رس موجود ہے۔ شہد کی مکھیاں یہ رس حاصل کرنے کے لئے آپ کے ارد گرد ہمیشہ منڈلارہی ہیں”۔


مختصر یہ کہ آپ نے بلا رنگ و نسل، مسلک و عقیدہ عالمِ انسانیت کے لئے ہر وقت شَکر کی مانند فیض پہنچارہے ہیں کیونکہ شَکر کی خصلت میں تندرست اور بیمار دونوں کے لئے شفا ہی ہے جیسا کہ حکیم ناصر خسرو نے اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ
سود مندند ہم خلق جہاں را چو شکر
جانِ من بادِ فدا شان کہ بطعِ شکرند
ترجمہ: آئمہ فاطمیہ تو سارے خلائق کے لئے شکر کی طرح نفع رسان ہیں میری جان اُن سب پر قربان ہو کہ یہ فطرتاََ شَکر کی خاصیت رکھتے ہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43336