Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پہاڑ:حیات الارض کے ضامن…..ڈاکٹر ساجد خاکوانی (اسلام آباد،پاکستان)

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

International Mountains Day

11)دسمبر:اقوام متحدہ کے عالمی یوم الجبال کے موقع پرخصوصی تحریر(

            اللہ تعالی نے اس کائنات کے نظام کو متحرک رکھنے کے لیے ”توازن“کا قانون بنایا اور کل اجسام سماوی کو اس قانون کا پابند بنایا۔آج کاانسان اپنے مشاہدات سے اس حقیقت کوپاچکاہے اور گویاعقل انسانی نے سائنس کے پیرائے میں صدیوں تک بھٹکنے کے بعداب وحی الہی کی تصدیق کر رہی ہے۔سائنسی دریافت کے مطابق اپنے اپنے مدار ہائے زمان و مکان میں کائنات کے کل ستارے و سیارے توازن کی بنیاد پرمتحرک ہیں،یہ تحریکی توازن ہویاتسکینی توازن،نظم کائنات کے راز حقیقی ہیں۔دوبڑے بڑے اجسام کے درمیان کشش کی قوت ان کے درمیانی فاصلے کوتوازن کی بنیاد پر قائم رکھتی ہے جس کے باعث چھوٹا جسم بڑے جسم کے گرد طواف پر مجبور ہو جاتاہے۔یہی عنصریعنی ”توازن“اس کرہ ارضی کے نظم حیات کا بھی ایک خدائی رازہے۔اللہ تعالی نے اس زمین کی تخلیق کے ساتھ ہی یہاں پہاڑوں کو میخوں کی مانندگاڑ کر اس مسکن انسان کا توازن قائم کر دیا”اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِہٰدًا(۸۷:۶) وَّ الْجِبَالَ اَوْتَادًا(۸۷:۷)”اپنے اپنے کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم نے زمین کو فرش بنایااور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا“اور ان میخوں کی طرح گاڑے ہوئے پہاڑوں کی حکمت توازن اور جگہ یوں بیان کی کہ”وَ اَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ (۶۱:۵۱)“ترجمہ:”اوراس(اللہ تعالی)نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑدیں تاکہ زمین تم کو لے کر ڈھلک نہ جائے“۔اورپھر تخلیق ارضی میں پہاڑوں کا ذکر کرتے ہوئے خالق کائنات نے کہا ”اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا(۷۷:۵۲) اَحْیَآءً وَّ اَمْوَاتًا(۷۷:۶۲) وَّ جَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شٰمِخٰتٍ وَّ اَسْقَیْنٰکُمْ مَآءً فُرَاتًا(۷۷:۷۲)“ترجمہ:”کیاہم نے زمین کو سمیٹ کررکھنی والی نہیں بنایا،زندوں کے لیے بھی اور مردوں کے لیے بھی،اور اس میں بلندوبالا پہاڑ جمائے اور تمہیں میٹھاپانی پلایا“۔پس اللہ تعالی نے پہاڑوں کو اس زمین کی بقا کا ضامن بنایااور ان پہاڑوں سے حاصل ہونے والے صاف شفاف اور صحت بخش پانی کوانسانی حیات کے بقا کاضامن بنایااور دونوں کا اکٹھا ذکر کر کے بتادیا کہ زمین اور حیات انسانی ان پہاڑوں کے توسط سے ہی اللہ کی قدرت کے محتاج ہیں۔

            ان پہاڑوں کی اہمیت کااندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ قرآن مجیدمیں مذکورکم و بیش تمام انبیاء علیھم السلام کے ساتھ کسی نہ کسی پہاڑ کا ذکر موجود ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ ایک پہاڑی پر قبول ہوئی جسے ”جبل رحمت“کہتے ہیں،آج بھی تمام حجاج کرام میدان عرفات میں موجود اس پہاڑی پر خاص طور پر جاکر دعائیں مانگتے ہیں جو کہ قبولیت دعاکاایک مقام ہے۔طوفان نوح میں اٹھنے والی موجوں کوقرآن نے پہاڑسے تشبیہ دی ہے اور جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو کشتی میں بیٹھنے کی دعوت دی تواس نے پہاڑ کاسہارالیتے ہوئے کہا کہ میں اس پہ چڑھ کر اپنی جان بچالوں کا،اور کشتی نوح جودی نامی پہاڑ پرلنگراندازہوئی تواس کا سفرختم ہوا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اللہ تعالی سے مردوں کو زندگی ملنے کی بابت دریافت کیاتواللہ تعالی نے چار پرندے سدھانے،انہیں خود سے مانوس کرنے اور انہیں ذبح کر کے توچارپہاڑی چوٹیوں پر ان کا قیمہ رکھنے کا حکم دیا،جس کے بعدآواز دیتے ہی وہ دوبارہ زندہ ہوکر نبی محترم کے پاس آن پہنچے۔حضرت اسمائیل علیہ السلام کو ان کے بابا جان عین پہاڑی علاقے کی وسطی وادی میں ان کی والدہ کے ہمراہ چھوڑ کر چلے آئے،اور ان کی مائی صاحبہ نے پانی کے حصول کے لیے دوپہاڑیوں،صفاو مروہ، کے درمیان سعی کی،بلندوبالا پہاڑوں کی یہ وادی آج مکہ کے نام سے دنیاکاسب سے بڑا مرکز توحید ہے۔حضرت موسی علیہ السلام نے حصول نبوت و کتاب کے لیے ایک پہاڑکا قصدکیاجسے ”کوہ طور“کے نام سے قرآن نے یادکیاہے۔حضرت عیسی کا مشہور زمانہ خطاب ”پہاڑی کاوعظ“کے نام سے کتب میں موجود ہے،جسے قرآن نے ”کوہ زیتون“کانام دیاہے۔اور نبی آخرالزماں ﷺسے بھی جبریل علیہ السلام کی سب سے پہلی ملاقات ایک پہاڑ”جبل رحمت“پر ہوئی اور یہیں قرآن مجید کے نزول کاآغاز بھی ہوا۔آپ ﷺنے اپناسب سے پہلاخطاب ایک پہاڑی”کوہ صفا“پر کھڑے ہوکرارشاد فرمایا،ہجرت مدینہ کے دوران ایک پہاڑ”کوہ ثور“نے آپﷺکو اوریارغارکوپناہ دی اورمدینہ طیبہ میں بھی ایک پہاڑ”کوہ احد“آپﷺسے پیارکرتاتھااورآپﷺبھی اسے چاہتے تھے۔

            تاریخی اعتبار سے بھی دیکھاجائے توپہاڑ چونکہ بلندیوں سے مستعارہیں اسی لیے انسانی تہذیبوں نے ہمیشہ پہاڑوں سے میدانوں کارخ کیاہے اور انسانی تمدن اولین پہاڑوں سے پھوٹاہے اور پھردریاؤں ندی نالوں کے ساتھ بہتاہوامیدانی علاقوں میں اس نے پرورش پائی ہے۔انسانی تاریخی ذرائع بھی اسی حقیقت کا پتہ دیتے ہیں کہ قبل  از تاریخ کاانسان میدانوں سے واقف نہیں تھااور جانوروں کو شکارکرتے ہوئے ان کا پیچھااسے میدانوں تک کھینچ لایاجہاں اس نے کھیتی باڑی شروع کی۔چنانچہ کل مذاہب جوکہ انسانی تہذیب و تمدن کی فطری کوکھ ثابت ہوئے ہیں ان کاانتساب کسی نہ کسی پہاڑی سے وابسطہ ہے۔”کوہ ہندوکش“ہندو دھرم کی جنم بھونی ہے چنانچہ ہمالیہ کی چوٹیوں کوآج بھی ہندو مت میں بہت اعلی و برترومقدس ومحترم مقام حاصل ہے،کوہ صہیون سے ”صہیونیت“یعنی یہودی مذہب منسوب ہے،”ناصر ہ“نامی پہاڑی وادی ”نصرانیت“کانقطہ آغاز سمجھی جاتی ہے اورکوہ فاران سے میرحجازﷺکے قافلے نے رخت سفرباندھا۔مذاہب کے بعد دنیا کی تاریخ ساز قیادتوں کاایک بہت بڑا حصہ پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھتاہے،خود برصغیرمیں گزشتہ کئی صدیوں کی تاریخ کوہساری حکمرانوں سے بھری پڑی ہے اور شمالی پہاڑی سلسلوں کے اسپوتوں نے بیلوں کی دم پکڑ کر جینے والے یہاں کے مقامی میدانی باشندوں پر اپنے احکام صادر کیے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جب تک ان کے اندر کوہساریت رہی وہ حکمران بھی رہے اور جیسے ہی میدانی تمدن نے ان پر غلبہ پایاتوکسی اور کوہساری جواں مردکے ہاتھوں ان کا تخت و تاج سلب ہو گیا۔اسی تاریخ نے ایک اور سبق بھی باور کرایا ہے کہ پہاڑوں کے پڑوسیوں پرکبھی کوئی آقااپنی غلامی مسلط نہیں کر سکاجبکہ میدانی فطرت کے انسانوں پر پربت کے باسیوں نے صدیوں تلک حکومت کی ہے۔ علامہ اقبال بھی فرزندان کوہسار کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہے کہ:

                        فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی            یا بندہ صحرائی یا مرد کہستانی

پہاڑوں کے باسی زندگی کے حقائق سے کس قدرآشنا ہوتے ہیں،تو اقبال نے کہا کہ:

                        زندگانی کی حقیقت کوہ کن کے دل سے پوچھ     جوئے شیروتیشہ و سنگ گراں ہے زندگی

پس انسانی تہذیب وتمدن اور سیاسیات انسانی کے ساتھ ساتھ لسانی ادب بھی پہاڑوں کی گود میں پلا بڑھا ہے اور دنیاکی ہرہرزبان میں کتنے ہی محاورے،استعارے اورسابقے لاحقے پہاڑوں اور پہاڑی سلسلوں کے نام سے شروع ہوتے ہیں یا ختم ہوتے ہیں،کتنی ہی داستانیں اور نظمیں اور دیگراصناف سخن ہیں جو اپنی فصاحت و بلاغت اورقبولیت عوام اور تاریخی مرتبہ کے حصول کی خاطر کوہستانی تشبیہات واستعارات کے محتاج نظر آتے ہیں۔

            جس طرح جانداروں کی نسلیں اورخاندان ہوتے ہیں اسی طرح پہاڑوں کے خاندان ان کے سلسلے کہلاتے ہیں۔کرہ ارض پر پہاڑوں کے سترہ بڑے بڑے سلسلے ہیں۔

            1۔الپس(ALPS):یہ یورپ کاسب سے بڑاپہاڑی سلسلہ ہے۔

            2۔انڈس(ANDES):جنوبی امریکہ میں یہ دنیاکاسب سے طویل ترین پہاڑی سلسلہ ہے۔

            3۔ہمالیہ:یہ جنوبی ایشیاکاسب سے بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔

            4۔روکیز(Rockies):یہ شمالی امریکہ کا پہاڑی سلسلہ ہے۔

            5۔اپالاچیئنز(Appalachians):یہ شمال مشرقی امریکہ کاسب سے قدیم پہاڑی سلسلہ ہے۔

            6۔روینزوری (Rwenzori)یہ افریقہ کا پہاڑی سلسلہ ہے۔

            7۔پیرینیز(Pyrenees)یہ پہاڑی سلسلہ فرانس اور اسپین کے درمیان قدرتی جغرافیائی حدودکاکام کرتاہے۔

            8۔البورز(Alborz)یہ ایرانی پہاڑی سلسلہ ہے۔

            9۔اٹلاس(Atlas):یہ شمال مغربی افریقہ کاپہاڑی سلسلہ ہے۔

            10۔یورال(Ural):یہ پہاڑی سلسلہ ایشیااوریورپ کے درمیان حد فاصل کاکام کرتاہے۔

            11۔سیرانوادا(Sierra Nevada):یہ مشرقی کیلیفورناکا پہاڑی سلسلہ ہے۔

            12۔کاساکیڈا(Cascades):یہ شمالی کیلیفورنیاکا پہاڑی سلسلہ ہے۔

            13۔الاسکا(Alaska):یہ الاسکا کاپہاڑی سلسلہ ہے۔

            14۔گریٹ ڈوائڈنگ(Great Dividing)یہ آسٹریلیاکاپہاڑی سلسلہ ہے۔

            15۔زاگروس(Zagros):ترکی اور روس کے درمیان یہ پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔

            16۔قراقرم:پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ پہاڑی سلسلہ موجود ہے۔

            17۔ہندوکش:وسطی ایشیاکایہ پہاڑی سلسلہ علاقے کے متعدد ملکوں میں پھیلاہواہے۔

ان کے علاوہ کرہ ارض پر بے شمار چھوٹے چھوٹے پہاڑی سلسلے موجود ہیں،اپنی خصوصیات،زیرزمین دفن خزینے،ساخت،زرعی و حیوانی حیات اور موسمیاتی خواص سمیت ان گنت بنیادوں پرپہاڑوں کی اور پہاڑی سلسلوں کی درجہ بندی کاکام آج بھی جاری ہے اور عقل انسانی انگشت بدنداں ہے کہ خالق کائنات نے درست فرمایا”ولایحیطون بشئی من علمہ“ترجمہ:”کوئی اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا“۔پہاڑاپنی بلندیوں سے پہچانے جاتے ہیں اوران کی بلندی سطح سمندرسے شمار کی جاتی ہے۔چنانچہ دنیا کی پہلی سب سے بلند ترین پہاڑی چوٹی ”ماؤنٹ اورسٹ (نیپال)ہے جس کی بلندی 29,000فٹ ہے،دوسری اکونکاگوا(Aconcagua)(جنوبی امریکا) 22,841فٹ بلندہے،تیسری”دینالی“(الاسکا)20,320فٹ بلندہے،چوتھی ماؤنٹ کلمان جارو(تنزانیہ)19,341فٹ بلند ہے،پانچویں ماؤنٹ ایلبرس(یورپ)18,510فٹ بلندہے،چھٹی ونسن ماصیف(Vinson Massif)(انٹارکٹا)16,067فٹ بلند ہے اور ساتویں ”پنکاک جایا“سمندری جزائرمیں واقع ہے اور16,024فٹ بلند ہے۔اسی طرح دنیامیں سات بلند ترین پہاڑ بھی گنے گئے ہیں جن میں سے کے ٹو دوسرے نمبر کا سب سے بلند ترین پہاڑ ہے۔یہ سب اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں،اب جو چاہے مظاہر قدرت میں ہی گم ہو جائے اور جو چاہے قدرت کے ذریعے صاحب قدرت کو پہچانے۔

            جس طرح اس زمین کاآغاز پہاڑوں کا مرہون منت ہے اسی طرح اس زمین کے اختتام کاذکربھی پہاڑوں کے بغیرنامکمل ہے۔چنانچہ قرآن مجید نے جہاں جہاں بھی قیامت یعنی اس دنیاکے اختتام کا ذکر کیا وہاں پہاڑوں کے انجام کا بھی ذکر ساتھ کیاہے۔”وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ َترَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً وَّ حَشَرْنٰہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْہُمْ اَحَدًا(۸۱:۷۴)“ترجمہ:”اور جس (قیامت کے)دن جب کہ ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور تم زمین کو بالکل برہنہ پاؤ گے اورہم تمام انسانوں کو اس طرح گھیرکر جمع کریں گے کہ(اگلوں پچھلوں میں سے)ایک بھی کم نہ ہوگا“۔”وَ یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَنْسِفُہَا رَبِّیْ نَسْفًا(۰۲:۵۰۱) فَیَذَرُہَا قَاعًا صَفْصَفًا(۰۲:۶۰۱) لَّا تَرٰی فِیْہَا عِوَجًا وَّ لَآ اَمْتًا(۰۲:۷۰۱)“ترجمہ:”یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہآخراس (قیامت کے)دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے؟؟کہیے کہ میرارب ان کو دھول بناکر اڑادے گااورزمین کوایسا ہموارچٹیل  میدان بنادے گا کہ تم اس میں کوئی بل یاسلوٹ نہ دیکھو گے“۔”وَ تَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃً وَّ ہِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ صُنْعَ اللّٰہِ الَّذِیْ اَتْقَنَ کُلَّ شَیْءٍ اِنَّہُ خَبِیْرًا بِمَا تَفْعَلُوْنَ(۷۲:۸۸)“ترجمہ:”آج آپ پہاڑوں کو دیکھتے ہیں کہ اور سمجھتے ہیں کہ خوب جمے ہوئے ہیں مگراس(قیامت کے)وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے،یہ اللہ تعالی قدرت کاکرشمہ ہوگا جس نے ہر چیزکو حکمت کے ساتھ استوارکیاہے،وہ خوب جانتاہے کہ تم لوگ کیاکرتے ہو“۔

            پہاڑ جہاں اللہ تعالی کی قدرت کی نشانیاں ہیں وہاں زمین پر حیاتیاتی ارتقاء کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہیں۔ان پہاڑوں پر عیاشی اور بدکاری کے اڈے بنانا اور وہاں پہاڑوں کے خالق کی بنائی ہوئی حدود کو توڑناگویا ان پہاڑوں کی ناشکری کرنا ہے۔سیکولرازم نے جہاں انسانوں کوگمراہ کیاہے اور انہیں اپنے خالق سے دور کیاہے وہاں سیروسیاحت کے نام پر ان پہاڑوں کو اخلاقی آلودگی کاگڑھ بنادیاہے۔جو پہاڑی خطہ جتنازیادہ مرقع حسن و جمال ہے اسے اتنا مہنگا بناکرعام انسانیت کو ان الفریب ودلکش نظاروں سے محروم تو کیاہی ہے وہاں ایک خاص طبقے کو ہرقسم کی اخلاقی بے راہ روی کے وسائل فراہم کر کے تواس سیکولرازم نے ان پہاڑوں کی فطری توہین بھی کی ہے۔شایدسیکولرازم کے اسی ننگ اخلاق و ننگ انسانیت رویے کے باعث آج کے پہاڑ انسانیت سے روٹھے روٹھے سے لگتے ہیں اور آئے روزاپنے غضب کالاوہ اگلتے ہیں یاپھر اپنے ارتعاش سے انسانی بستیوں پر امڈ آتے ہیں یاپھر سمندر کی تہہ سے اپنی کوہساری قوتوں سے پانی اچھال کر توانسانی بستیوں کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔ان پہاڑوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ان پہاڑوں سمیت کل زمین کو سیکولرازم کے جہل مرکب سے پاک کرناہوگااور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کران کے خالق حقیقی کی غلامی میں پروناہوگاکہ دراصل یہی جوہر کائنات اور تعلیمات انبیاء علیھم السلام کا نچوڑ ہے۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: