Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پی پی پی اخر تاریخ سے غافل کیوں؟۔۔۔محمدآمین

شیئر کریں:

ریاست پاکستان کی تہتر سالہ سیاسی تاریخ بہت سے نشیب و فراز دیکھ چکی ہے اور یہ حالت و واقعات ملک کی سیاسی امور میں نمایاں کردار ادا کیے ہیں۔اگر موجودہ حالت میں ملک میں جاری گیارہ سیاسی جماعتوں پر مشتمل پاکستان ڈیموکریٹیک مومنٹ (PDM)کا بغور جائزہ لیا جائے تو ہمیں 1977 ء کی یاد سامنے اتی ہے کہ اس طرح کئی جماعتوں پر مشتمل پاکستان نیشنل الائینس نے جناب ذولفقار علی بھٹو کے حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کیے۔اور پی این اے کی صف اول کی قیادت میں بھی ایک سیاسی مذہبی جماعت کا سربراہ اگے تھا اور اج بھی سب کچھ وہی ہو رہا ہے۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرحوم بھٹو کے خلاف احتجاج میں بیرونی ہاتھ بھی شامل تھے جو پاکستان کی ایٹمی پروگرام،لاہو ر میں اسلامی کانفرنس اوا۔ ائی۔ سی کی شاندار کامیابی اور تیسری دنیا میں پاکستان کی نمایان قیادت سے نالان تھے۔دوسری جانب ملک کی بہت سے سیاسی قوتین اپنی ذاتی عنا اور مفادات کے تناظر اس تحریک میں شامل تھے۔اور پیپلز پارٹی پر77کے الیکشنز میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگا کر انتخابی نتائیج کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے۔بالکل اسی طرح آج یہ مفاد پرست ٹولے ووٹ چرانے کے نعرے لے کر جمہوری حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کئی بیرونی طاقتین جن میں ہمارے بعض دوست ملک بھی شامل ہیں وہ جناب عمران خان کی جامع حکمت عملی اور کامیاب خارجہ پالیسی سے خوش دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ماضی کے حکوموتون کی طرح وہ اپنی پسند اور نا پسند کے خارجہ پالیسی پاکستان میں مرتب دے سکیں۔جو اس حکومت میں ان کے لیے ممکن دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔


اگر ہم ستر کے PNA کو دیکھں تو الیکشن دھاندلی کے علاوہ جناب بھٹو پر اسلامی جماعتوں کے لسٹ میں بہت سے اور اعتراضات بھی شامل تھے جن میں سر فہرست بھٹو کے طرز ذندگی پر سکیولرسٹ اور سوسشلسٹ کے طعنے نمایاں تھے اس سے پہلے بھی ان لوگوں نے اس کی غیر مذہبی ہونے کے الزام میں فتوے جاری کیے تھے۔اخر کر اس مومنٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان اپنی تاریخ کے سیاہ تریں امریت میں داخل ہوا اور ایک اعظیم لیڈر سے پاکستان محروم ہوا۔


موجودہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتیں دوبارہ وہی غلطی دوہرانے کی کوشش کررہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اس دفعہ جماعت اسلامی اس تحریک کا حصہ نہیں ہے اور صدا افسوس صدا اس دفعہ پی پی پی اس میں شامل ہے۔جنہوں نے اس پارٹی کے قائد اور روح روان کے ساتھ کیا کیا نہیں کیے۔کیوں بلاول بھٹو زرداری کے ستر کے دھائی کے دن یاد نہیں اتے،کاش انہیں نصرت بھٹو اور بینظر بھٹو شہید کے بے باسی اور اہ و فغان یاد اسکتے۔کیونکہ کتنے لوگ بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے لیے بے چین تھے۔پھر نوے کے عشرے بھی کسی سے چھپے نہیں کہ بینظربھٹو پر کیا کیا بہتاں لگائی جاتی تھی اور اس وقت عورت کی حکومت کو حرام قرار دینے والے اج مریم اور آصفہ بھٹو زرداری کی سیاست اور حکومرانی کو حلال سمجھتے ہیں۔کیا پی پی پی اتنی غافل ہو چکی ہے کہ کس نے آصف علی زرداری کو اٹھ سال سے ذائد عرصے تک جیل کے سلاخوں کے پیھچے ڈال دیا،تیز دار آلے سے زبان کو زخمی کیا گیا، اور مسٹر ٹن پرسینٹ کا داغدار خطاب بھی دیا اور اج اس کی بیٹی جناب عمران خان کو تابعدار کا خطاب دے رہی ہے۔اتنی عرصہ بھی نہیں گزر ی ہے کہ سیف الرحمن کی زیادتیوں کو بھول جائیں یا جسٹس قیوم کی نا انصافی۔عمران خان نے تو پی پی پی والوں کے ساتھ کون سا ایسا زیادتی کی کہ بلاول ان کو کندھا دے رہا ہے۔یہ سارے تماشہ دیکھ کر شیہدوں کی روحین قبروں میں تڑپ رہے ہوں گے لیکن ان کے اولاد محض چند سیاسی مفادات کے خاطر اپنے اخلاقی اقدار کھو رہے ہیں۔


جس سیاست میں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ ہو اس سے امریت ہزار درجہ بہتر ہے اور یہی ہمارے سیاسی اصول اور ضابطے بنے ہوئے ہیں جو ہم اپنے انے والی نسلوں کو منتقل کررہے ہیں۔اپوزیشن جماعتین اپنی حواس اتنی کھو بیھٹی ہیں کہ ان کو کورونا کی مہلک وبا کی پیھلاو سے بھی کوئی غرض نہیں رہا۔مجھے سب سے زیادہ تعجب مریم نواز کی تقاریر پر ہوتا ہے جب وہ وزیر اعظم پاکستان کو اسٹپلشمنٹ کی کٹ پتلی قرار دیتی ہے اور یہ کیوں بولتی ہے کہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء کے ساتھ ان کے بڑوں کے کیا مراسم تھے اور ان کی سیاست میں انٹری اورچھلانگ کن کی مرہوں منت ہے؟ایسا لگتا ہے کہ اج کے پاکستانی سیاست دان میکاوُلے کے کتاب دی پرنس سے بہت متاثر ہو چکے ہیں اور پاکستانی سیاست میں باقاعدہ طور پر اس کی اُصولوں کو لانا چاہتے ہیں۔


پی ڈی ایم کی احتجاج کا سب سے زیادہ نقصاں پاکستان پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ مولانا صاحب اور مریم نواز جن استعفوں پر زور دے رہے ہیں اس کا خمیزہ صرف پی پی پی کو ہی بھگتنا پڑے گا۔کیونکہ ایک طرف سندھ میں انکی حکومت جائے گی اور دوسری طرف سندھ سے انے والے سنیٹ کے ووٹ پی ٹی آئی کے کھاتے میں پڑیں گے جس سے ایون بالا میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت ملنے کے واضح امکانات ہونگے۔یہی وجہ ہے کہ پی پی پی کے بہت سے ارکان اس چیز کی مخالفت کررہے ہیں اور وہ مسلم لیگ نون کے ہاتھوں استعمال ہونے سے اپنے اپکو دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اور یہی حکمت عملی پی پی پی کے لیے بہتر ثابت ہوگا کہ اس فتنہ سے دور رہیں کیونکہ اس میں شامل دوسری جماعتین پہلی ہی 2018کے انتخابات میں بہت کچھ کھو چکے ہیں۔یہاں یہ بات بھی ذہین نشین ہو نا چاہئے کہ ان استعفوں سے حکومت نہیں جاتی ہے کیونکہ ہم نے غلام اسحاق خان اور صدر فاروق لغاری کے دور میں یہ تماشے دیکھ چکے ہیں۔یہ سارے کھیل موجودہ حکومت کو بلیک میل کرنے ا ور دباوُ کے لیے کھیلا جارہی ہے تاکہ اپنے کچھ مقاصد حاصل کر سکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43248