Chitral Times

Apr 16, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

پس وپیش ۔۔۔جامعہ چترال کا معمہ۔۔۔ اے۔ایم۔خان

شیئر کریں:

وہ سیاسی منظرنامہ جب الیکشن قریب آرہے تھے اور سیاسی حدت بڑھتی جارہی تھی ۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیاں مقابلے کا ایک سمان تھا۔ چترال میں اعلی تعلیم کے لئے ادارے کی ضرورت پہلے سے جاری تھی۔ سن 2017 سے پہلے چترال میں اعلی تعلیم کے حوالے سے انتظامات شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی [ایس۔بی۔بی۔یو] شیرنگڑ ھ اور عبد الوالی خان یونیورسٹی[اے۔ڈبلیو۔کے۔یو] مردان کا کیمپس موجودہ زیرین چترال میں پہلے سے کام کررہے تھے ۔ ایس۔بی۔بی۔یو کا کیمپس موڑدہ اور اے۔ڈبلیو۔کے۔یو کا سین لشٹ کے مقام پر ٹیکنکل کالج کے بلڈنگ میں کام کرتا تھا، جہاں جامعہ چترال اب بھی ہے، دونوں انتظامات کو ضم کرکے سنہ 2017 کو یونیورسٹی آف چترال کی بنیاد رکھ دی گئی۔

دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ ایس۔بی۔بی۔یو کے ایک کمیپس ستمبر 2011 بونی میں اُسوقت کے گورنر خیبر پختونخوا بیرسٹر سعید محمد کوثر نے افتتاح کی۔ جسطرح لوئیر چترال میں ایس۔بی۔بی۔یو اور اے۔ڈبلیو۔کے۔یو کے دونوں کیمپس منتقل ، اور ضم ہوگئے اسی طرح بونی میں یہ کیمپس دو عمارتوں میں شفٹ ہوا اور پھر ختم ہوگئی۔

سن 2018 میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے درمیان، ایک سیاسی چپقلش، چترال یونیورسٹی کیلئے فنڈ اور زمیں کی بات پر چلی جسمیں صوبائی حکومت جامعہ چترال کیلئے زمیں اور وفاقی حکومت اسکے اخراجات کو برداشت کرے، جسمیں بلڈنگ بھی شامل تھا، جس سے اس ادارے کی تعمیر کے حوالے سے کوئی خاص پیش رفت نہ ہوئی ، جس کا ایک وجہ یہ ہوا کہ صوبائی حکومت زمیں مختص نہ کرسکی اور، ایک رپورٹ کے مطابق، وفاقی حکومت کی طرف سے 3 بلین روپے کا گرانٹ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے واپس ہوا۔

5 جولائ2017 میں صوبائی حکومت میں اسوقت کے وزیراعلی پرویز خٹک نے شیرنگڑہ اور عبدالوالی خان یونیورسٹی کے دونوں کیمپسس کو ضم کرکے چترال کیلئے ایک یونیورسٹی کا اعلان کر دیا گیا، جس میں موجودہ وزیراعظم عمران خان، پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے چیرمین کی حیثیت سے، شرکت کی۔

مالی سال2018صوبائی حکومت نے چترال میں یونیورسٹی کیلئے 880 ملیں گرانٹ کا اعلان کیا جس سے ، ضرورت کے مدنظر 440کنال کے قریب، زمین خرید لی جائے اور وہاں یونیورسٹی تعمیر کی جاسکے۔

بنیادی طور پر چترال یونیورسٹی کیلئے سین لشٹ میں زمیں خریدنے پر اکتفا کیا گیا، وہاں زمیں کے حوالے سے حکومت، حکومت اور لوگوں میں زمیں کی قیمت کے حوالے سے تحفظات [اس مقام کی فیزیبیلٹی حیثیت کے برعکس] اور آخرکار سید آباد میں یونیورسٹی کیلئے زمیں کا ایک ٹکڑا خرید لیا گیا جو اب بھی موجود ہے۔

تین دن پہلے ایک اخباری رپورٹ نے چترال میں یونیورسٹی کے حوالے سے بحث دوبارہ چھیڑ دی جب جامعہ چترال کے تعمیر کے لئے سیدآباد میں جو ذمیں پر ارضیات اور ٹیکنکل رپورٹ کے مطابق انفیزیبل قراد دی گئی۔ رپورٹ کے مطابق ۱۶۶ کنال میں سے ۴۰ کنال زمیں ڈھلوان ہونے کی وجہ سے فیزیبل نہیں جس سے پروجیکٹ کے “اخراجات میں 27فیصد اضافہ” ہوجاتا ہے ۔ باوجود اس کے سید آباد میں ، رپورٹ کے مطابق، “بجلی، پانی اور انٹرنیٹ” کی سہولت بھی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ ایک طرف “دریائے چترال سے خطرات” ہو سکتے ہیں تو جنوب کی طرف مقامی قبرستان کا یونیورسٹی کے “تعمیراتی حسن” کے ساتھ امتزاج نہیں ہوتا۔

اس رپورٹ کے بعد اب ہر کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ جہاں بجلی، پانی، انٹرنیٹ ، دوسرے سہولیات، ٹیکنکی اور ارضیاتی خطرات، اور پروجیکٹ کے اخراجات میں27یصدزمیں کو ، کم ازکم اس علاقے میں، مزید زمیں خریدنے کیلئے اگر ایک رکاوٹ نہ بھی ہوں تو حکومت ، متعلقہ ادارون اور عام عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جامعہ چترال کیلئے خریدی گئی زمیں اب انفیزیبل ہے۔ یہ میری طرح کئ دوسرے لوگوں کے دماغ میں گردش کررہی ہے کہ یہ ذمیں فیزیبلٹی رپورٹ کے بغیر کیوں خرید لی گئ تھی؟ اس میں سوالات بھی ہیں اور اُن کے جوابات بھی۔

گوکہ سوشل میڈیا میں جامعہ چترال بالائی چترال ، زیرین چترال میں سین لشٹ کے مقام پر یا سید آباد میں تعمیر کرنے پر ایک عوامی بحث جاری ہے جس میں رسائی اور آبادی کے علاوہ ان مسائل کو دیکھا نہیں جارہا جو رپورٹ میں سامنے آگئے ہیں ، غور طلب مسائل ہیں۔

اس میں شاید کوئی دوسری رائے ہوسکتی ہے کہ اب چترال دو اضلاع پر مشتمل ہے دونوں حصے وسیع و عریض علاقوں اور وادیون میں رہائش پذیر آبادی کیلئے دونوں اضلاع میں یونیورسٹی ہونے چاہیں۔ اس وقت سب سے ضروری امر اس بات کی ہے کہ چترال کے سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور عوامی حلقے اس بات پر اتفاق اور اکتفا کر لینا چاہیے کہ چترال میں حکومت جہاں بھی یونیورسٹی بنانے جارہا ہے ایک فل فلیج یونیورسٹی بنالے جہاں اُسکی اپنی عمارت ، اسٹاف ، کھیل کے میدان، ہاسٹل ، لائبریری، انٹرنیٹ اور دوسرےسہولیات موجو د ہوں جس میں تعلیمی اور تحقیقی ماحول ہو اور چترال کے کالجون سے طلباء و طالبات وہاں اعلی تعلیم حاصل کر سکیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
43102