Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تلخ و شیرین۔۔۔۔۔چترال یونیورسٹی۔۔۔۔۔۔ابو سدرہ

شیئر کریں:

کھسروں کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔  “کھسرا فیملی” میں خوشی پھیلی۔سب خوشی میں نہال ہوئے۔  اور چوم چوم کر نوزائیدہ بچے کو ہی مار ڈالا۔ جب سے چترال یونیورسٹی کے لئے لینڈ ایکوائر کرنے کی مد میں مبیّنہ طور پر پیسے مختص ہونے کی خبر سامنے آئی ہے تب سے اپنے چترالی دوستوں کے مابین جاری مباحثے سے ایسا مترشح ہو رہا ہے کہ ہمارے چترالی بھائی ادھر ادھر کھینچ کھینچ کر زمین کی خریداری میں رکاوٹ کھڑی کر کے رہیں گے ۔ چوم چوم کر نہ سہی، کھینچ کھینچ کر سہی۔۔۔۔

         عرصہء دراز سے اہل ِ چترال کو ایک عدد یونیورسٹی کی سخت ضرورت تھی۔ ایک طرف یہاں مختلف سرکاری و غیر سرکاری ڈگری کالجز سے گریجویٹ طلبا کی بڑی تعداد ہر سال فارغ ہو رہی تھی اور دوسری طرف مزید علمی پیاس بجھانے کے لئے کسی بھی یونیورسٹی تک اِن فارغ التحصیل طلباء کی رسائی بوجوہ بہت مشکل تھی۔ ایسے میں چند طلباء ہی پشاور اور کراچی کا رخ کرتے، باقی طلباء یا تو گریجویشن کے بعد گھر بیٹھتے یا پھر پرائیوٹ ایم اے کو یونہی ویلے بیٹھنے پر ترجیح دیتے۔  پھر ہوا یوں کہ ضلع دیر اور ضلع چترال میں سے کسی ایک ضلعے میں یونیورسٹی تعمیر کرنے کی بازگشت سنائی دی۔ اعلیٰ تعلیم کے متلاشی طلبا کی چترال میں بہتات اور چالیس سے زیادہ ڈگری کالجز کی یہاں موجودگی کے پیشِ نظر امید پیدا ہوئی تھی کہ مجوزہ یونیورسٹی چترال میں تعمیر ہو گی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ ہماری علاقائی سیاسی قیادت کی سستی و نااہلی اور دیر والوں کی  ایکسٹرا چُستی کی وجہ سے مذکورہ یونیورسٹی شرینگل اپر دیر چلی گئی۔ یوں یونیورسٹی سے وابستہ ہماری امید ثمر بار نہ ہو سکی۔ سلسلہ چلتا رہا، شرینگل یونیورسٹی اور عبد الولی خان یونیورسٹی کے “سب کیمپسس”  چترال میں وجود پذیر ہوئے تاآنکہ سن دو ہزار سترہ میں دونوں کیمپسس کو باہم ضم کر کے ایک یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اب پونے چار سال گزرنے کے باوصف یونیورسٹی کے لئے تعمیرات کا مرحلہ عبور ہو سکا اور نہ ہی وائس چانسلر کی تقرّری روبعمل آ سکی۔ حالنکہ عرصہ ہوا کہ ایون کے بالمقابل اسپاغ لشٹ (سید آباد) میں یونیورسٹی کے لئے زمین انتہائی مناسب داموں خریدی جا چکی ہے۔ بجائے اس کے کہ یونیورسٹی کے لئے خریدی گئی اس زمین پر یونیورسٹی قائم کر کے فروغِ علم کا مبارک سلسلہ جاری رکھا جاتا، سین لشٹ میں ٹیکنکل بورڈ کی بلڈنگ کو ہی یونیورسٹی کے لئے کافی سمجھا گیا۔ اور اسی سے متصّل  زمین خریدنے کی سعی لا حاصل جاری رکھی گئی۔ لوگوں کی زمینیں زبردستی خریدنے کے لئے سیکشن فور ضرور لگے مگر زمین خریدی جا سکی نہ اس کے لئے فنڈ لیا جا سکا۔ دراصل صوبائی حکومت سید آباد میں یونیورسٹی کے لئے زمین خرید کر دے چکی ہے،  مزید پیسے ریلیز ہونے میں رکاوٹ شاید یہی تھی کہ الریڈی سید آباد والی زمین اسی مقصد کے لئے حکومت کی طرف سے مہیا ہو کر یونیورسٹی کی ملکیت میں ہے۔یونیورسٹی انتطامیہ کی طرف سے اسپاغلشٹ میں یونیورسٹی کے لئےتعمیرات نہ کرنا سوالیہ نشان ہے۔  اسپاغلشٹ کی زمین ہر حوالے سے یونیورسٹی کے لئے موزوں ہے۔ موزوں نہ ہوتی تو خریدی ہی کیوں جاتی؟؟ یہ کہنا کہ یہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ ہے اس لیے یہاں یونیورسٹی نہیں بن سکتی۔ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اس بابت ایون کے ایک سفید ریش اٹھاسی سالہ بابے سے میں نے استفسار کیا۔ اس کا جواب تھا کہ ان اسی نوے سالوں میں اس مخصوص مقام پر کبھی لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ پوری ایک صدی سے اس ایریا کا لینڈ سلائیڈنگ سے محفوظ رہنا اس بات کی علامت ہے کہ یہاں لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ نہیں ہے۔ بہرکیف چند سطحی چیزوں کا بہانہ بنا کر سید آباد میں تعمیرات کو التواء میں ڈالے رکھنا چترالی قوم کے ساتھ بڑی انصافی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چترالی قوم کے اس مستقبل کو یونیورسٹی کے کارپردزان چند سیاسی لیڈروں کو لے کر اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں۔

       کسی بھی علاقے کے لئے یونیورسٹی کبھی بھی کم اہمیت کی حامل رہی ہے اور نہ آئندہ رہے گی اب اس کی اہمیت مزید اس وجہ سے بھی بڑھ گئی ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی کے تحت دو سالہ  پرائیوٹ ایم اے ہو سکے گا نہ ریگولر۔ پچھلے وقتوں میں کالجز میں گریجویشن کے بعد پرائیوٹ ایم اے کی سہولت موجود ہوتی تھی اب علاقے میں یونیورسٹی کی فقدانیت کا لازمی نتیجہ رسمی تعلیم میں پیچھے رہ جانے کی صورت میں نکلے گا۔ رسمی تعلیم میں پیچھے رہنے کا مطلب ہے کہ ترقی میں بھی پیچھے رہیں گے۔۔ پورے علاقے کے فائدے کے لئے ہمیں باقی بکھیڑوں کو ایک طرف رکھ کر یونیورسٹی کی جلد تعمیر پر زور دینا ہو گا۔ عجیب وغریب صورت حال بنی ہوئی ہے۔ موزوں مقام کو لے کر بھانت بھانت کی بولیاں جاری ہیں۔  اب تو صورت حال یہاں تک پہنچی ہے کہ ہر چترالی کی خواہش یہ ہے کہ وہ رات کو ڈبل رضائی پلس کمبل تلے سو جائے اور جب صبح آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہو جائے تو اساتذہ و طلبا سے بھرپور عظیم الشان عمارت  گھر کے سامنے جگمگا رہی ہو جس کے میں گیٹ پر خط ِ نستعلیق میں جلی حروف کے ساتھ یونیورسٹی آف چترال درج ہو۔ 


    تفنن برطرف سین لشٹ یا اسپاغ لشٹ (سید آباد) میں یونیورسٹی بنانے کے مطالبے کی تُک موجود ہے ایک جگہ اس وقت یونیورسٹی قائم و دائم ہے جب کہ دوسری جگہ اسی یونیورسٹی کی تقریبا ایک سو چھیاسٹھ کینال اراضی پڑی ہوئی ہے ان دو جگہوں کو چھوڑ باقی علاقے والے اپنے علاقوں میں مذکورہ یونیورسٹی کے قیام کے لئے جو صدائے بے کار لگا رہے۔ ناقابلِ فہم بھی ہے اور غیر منطقی بھی۔


 سین لشٹ اور اسپاغلشٹ میں بھی کئی وجوہات کی بنیاد پر اسپاغلشٹ یونیورسٹی کے لئے زیادہ موزوں دکھائی دے رہا ہے۔مثلاً اسپاغلشٹ میں یونیورسٹی کی تقریبا ایک سو چھیاسٹھ کینال اراضی موجود ہے۔ مبیّنہ مختص ہونے والی رقم سے اسی اراضی سے متصّل زمین خرید کرایک ہی جگہ پر یونیورسٹی کے سارے ڈیپارٹمنٹس قائم کیے جا سکیں گے۔ ٹیکنیکل بورڈ کی عمارت, جس میں اس وقت یونیورسٹی قائم ہے، ٹیکنیکل ایجوکیشن کی تعلیم کے لئے واپس ہو سکے گی۔ جبکہ سین لشٹ میں زمین خریدنے کی صورت میں یونیورسٹی کا حصّہ سین لشٹ اور دوسرا سید آباد میں ہو گا۔ اسی طرح چترال کی مرکزی شاہراہ پر ہونے کی وجہ اسپاغلشٹ (سید اباد) تک رسائی سین لشٹ کے مقابلے میں ہزار درجہ آسان ہے۔ ظاہر ہے کہ سائٹ روڈ اور شاہ راہ میں آسمان و زمین کا فرق ہوتا ہے۔ مرکزی شاہراہ پر ہر وقت ٹریفک دستیاب ہوتی ہے جبکہ سائٹ روڈ پر آپ کو اسپیشل گاڑی کر کے جانا پڑتا ہے۔ سید آباد یونیورسٹی کے پروفیسرز کے لئے بھی کافی پرکشش ہے۔ چترال کے انتہائی تجربہ کار پروفیسرز چترال سے باہر مختلف یونیورسٹیوں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں اُن کا ہوم یونیورسٹی میں آنا اضافی فائدے سے خالی نہیں۔ 


اسی طرح ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دو ہزار بیس میں بھی گورنمنٹ ڈگری کالج سے محروم رہنے والا “دروش” ضلع لوئر چترال کا ایک گنجان آباد تحصیل ہے۔ تحصیل ِ چترال اور تحصیل ِ دروش کے سنگم سید آباد میں واقع یونیورسٹی نہ صرف تحصیل چترال کے طالب علموں کے لئے بسہولت قابلِ رسائی ہو گی بلکہ دروش تحصیل کے طلباء بھی بآسانی یہاں سے علمی پیاس بجھا کر گھروں کو لوٹ سکیں گے۔ تحصیل لٹکوہ اور اپر چترال کے طلباء ہاسٹلوں میں رہیں گے۔ دن بھر پڑھائی کر کے جب عصر کے وقت یونیورسٹی کے بالمقابل ایون کے کھیتوں کی طرف ہوا خوری کے لئے نکلیں گے تو نئے سرے سے فریش ہو کر رات کی اسٹڈی کے لئے ایک دم مستعد ہوں گے۔اپر چترال کے ہمارے بھائیوں کو اسے علاقائیت کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ ویسے بھی حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ ہر ضلعے میں یونیورسٹی ہو۔ اپر چترال کے لئے جب یونیورسٹی منظور ہو گی تب تحصیل مستوج، تورکھو یا موڑکھو میں کہیں بھی بنا سکتے ہیں۔ تب تک سین لشٹ یا اسپاغلشٹ اور پشاور وغیرہ میں حصولِ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں۔


علاقائیت سے بالاتر ہو مکرر عرض  ہے کہ سین لشٹ یا سید آباد کو چھوڑ کر کسی اور مقام میں یونیورسٹی قائم کرنے کی کوشش کرنا اور اس کے لئے آواز لگانا یونیورسٹی کو مزید کئی سالوں کے لئے لٹکائے رکھنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں معاملہ فہمی بھی عطاء فرمائے اور وسعت ظرفی و وسعت زہنی بھی۔۔
(یہ ایک تجزیہ ہے، کوئی ریسرچ بیسڈ اسائمنٹ نہیں۔ آپ اختلاف و اتفاق کر سکتے ہیں)


شیئر کریں: