Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

راجہ عادل غیاث کے ساتھ گزرا ایک دن……ممتاز گوہر

شیئر کریں:

تین سال قبل آج ہی کے دن راجہ عادل غیاث کی کال آتی ہے سلام کا جواب ملنے کے بعد اراداتاً پھر پہل کرتے ہوئے کہا “جیک حال ہن یار؟” پھر وہی جواب ملا “تمہیں بتا چکا ہوں میرا یار اور بھائی تمھارے والد ہیں تم نہیں اب زیادہ باتیں نہیں میرا ڈاکٹر سرور سے چیک اپ کا اپائنٹمنٹ لو اور خود بھی اسی وقت پہ وہاں پہنچ جاؤ”.

raja adil ghias

 حکم کی تعمیل ہوئی. شام کو دونوں علی میڈیکل ہسپتال پہنچے ڈاکٹر کو تفصیل بتائی پچھلے رپورٹس اور میڈیکل ٹیسٹ دکھایا روزانہ ڈائٹ پلان اور ورزش کے بارے میں پوچھا. جواب سن کر شینا زبان میں ہی خوب ڈانٹ ڈپٹ ہوئی کیوں کہ ڈاکٹر صاحب بھی جی بی کے اور شینا سپیکر تھے.

ڈاکٹر سرور میری طرف متوجہ ہو گئے اور سختی سے بہت ساری ہدایات دینے کے بعد کہنے لگے ایک ہفتہ اسلام آباد میں ہی رہنا ہے اور اس کے بعد کچھ ٹیسٹ کر وا کر دوبارہ چیک اب کے لئے آ نا ہوگا.

ڈاکٹر صاحب نارمل ہوئے اور جی بی کی سیاست، صحافت اور غذر سے ان کے دوستوں کے بارے میں کچھ دیر بات چیت کی. باہر مریضوں کا رش زیادہ تھا اجازت لی اور نکلنے لگے. دروازہ کھولا تو پھر آواز دی اور کہا “اب سیدھا کسی اچھے اسٹور پہ جاؤ اچھے جوگرز اور ٹراؤزر لو اور روز کھانا کھانے کے بعد کم از کم پینتالیس سے ایک گھنٹہ واک کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لو.”  

نکلتے ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کے بقیہ ہدایات اور غصے کو بحثیت اٹنڈنٹ میں نکالنے لگا. اب کی بار ارادوں اور خیالوں سے نکل کر ہدایات پر عمل کرنا ہوگا ڈاکٹر صاحب نے جو صورتحال بتائی ہے بہت پیچیدہ ہے. راجہ صاحب نے گہری سانس لی اور گویا ہوئے.

 ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

اب کی بار ارادے بھی پکے ہیں اور سوچ بھی بس ایک ہفتے میں آپ اور ڈاکٹر صاحب تبدیلی دیکھیں گے. میں نے کہا اگر واقعی یہی ارادے ہیں تو ٹھیک ورنہ بات کرنل صاحب اور مفتی صاحب تک بھی پہنچ سکتی ہے. ہنستے ہوئے کہنے لگے اس کی نوبت نہیں آئے گی.

باہر نکلے دونوں پیدل تھے. بچوں کے لئے گرم ملبوسات لینے کے لئے ایف ایٹ مرکز میں واقع البابر سنٹر کی طرف نکلے. راستے میں ہی راجہ صاحب کو بھوک لگی. انھیں واقعی بھوک لگی تھی یا حبیبی ریسٹورینٹ کا بورڈ دیکھ کر ایسا ہوا اندازہ نہیں ہوا.

 میں نے کچھ منٹ پہلے ڈاکٹر صاحب کے مشوروں کا ذکر کیا. اور سختی سے منع کیا. مگر نہیں مانے اور کہا ہم اپنی مرضی بغیر سپائسی کھانے کا آرڈر دیں گے اور یہ بس آخری بار.

منع نہ کر سکا اور ریسٹورست میں داخل ہوئے جہاں اچھا خاصا رش تھا اور ساتھ دو نوجوان سامنے کی طرف بنی اسٹیج پر خوبصورت پشتو دھن بجا رہے تھے. اندر کا درجہ حرارت نارمل اور رنگین روشنیوں کی وجہ سے ماحول خوبصورت تھا.

راجہ صاحب کچھ دیر اس صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کہنے لگے دیکھا ایسا ماحول گاہکوچ میں ہمیں کہاں نصیب ہے. شام ہوتے ہی ساری مارکیٹ بند اور سونے تک کا وقت کچن میں لکڑیوں اور بخاری کے ساتھ کھیلتے ہوئے گزر جاتا ہے.

جب آرڈر دینے لگے تو اس پر بھی ہمارا اختلاف ہوا. میں ڈاکٹر کے کچھ لمحے قبل کے ہدایات اور ان کے اپنے ارادوں کا ذکر کرتا رہا. مگر راجہ صاحب کا ارادہ کچھ الگ ہی تھا. بس آخری دفعہ اور آئندہ بالکل نہیں کا ایک بار پھر وعدہ کیا. میری طرف دیکھا تو میں نے کہا “تیری صحت تیری مرضی”.

کھانا تیار ہونے اور کھانا کھانے کے کافی دیر بعد تک بات چیت جاری رہی. راجہ اور میرے والد صاحب کی آپس ہونے والی مذاق مستیوں کا خاص طور پر ذکر ہوتا رہا. پشاوری قہوہ پیا اور نکلنے لگے.

باہر کا درجہ حرارت کوئی دس ڈگری کے آس پاس تھا مگر سردی کا احساس زیادہ ہو رہا تھا. وہاں سے البابر سینٹر گئے بچوں کے لیے راجہ صاحب نے کچھ گرم ملبوسات خریدے اور مارکیٹ سے باہر نکلے.

راجہ صاحب کو یاد دلایا کہ کھانا کھانے کے بعد پینتالیس منٹ کی واک کرنی ہے. اور ہم یہاں سے کچہری میٹرو اسٹاپ تک پیدل جائیں گے اور ہمارا واک بھی پورا ہوگا. تھوڑی ہی دیر واک کے بعد کہنے لگے مجھے سے مزید چلا نہیں جا رہا. آج کے لئے واک بھی اتنی ہی کافی ہے. بس جلدی کوئی کریم یا ابر کی کیب منگوا لو.

راجہ صاحب سے واقعی چلا نہیں جارہا تھا. پھر ٹیکسی میں وہاں سے آگے نکلے. راستے میں میں اترا اور راجہ صاحب بڑے بھائی کرنل صاحب کے ہاں گئے.

راجہ صاحب سے کس طرح کا رشتہ تھا وہ تو رب ہی بہتر جانتا ہے مگر دل اب بھی یہ بات مان لینے کو تیار نہیں کہ راجہ صاحب اس مقام پہ گئے ہیں جہاں سے لوٹ کر اب تک کوئی نہیں آیا.

 راجہ صاحب میرے گاؤں کے ہی تھے تو چھٹیوں میں اکثر ملتے رہتے تھے. گلگت اور گاہکوچ میں کوئی بھی کام ہو راجہ صاحب سے درخواست کرتا تو اکثر یہی کہتے کہ “شو شو کوم بئی شوا”. (ٹھیک ہے کام ہو جائے گا).

راجہ صاحب کی وفات پر بہت بار لکھنے کی کوشش کی مگر کچھ بھی نہیں لکھ سکا. شاید ہاتھ انھیں مرحوم لکھنے کی جسارت نہ کر سکے. آج فیس بک میں ان سے جڑی ایک یاد اور کچھ تصاویر سامنے آئے تو اسی دن کے حوالے سے ہی کچھ لکھنے کی کوشش کی ہے. ان سے کئی خوبصورت یادیں وابسطہ ہیں جن پر پھر کبھی لکھنے کی کوشش ہوگی.    

کتنی بے کیف سی رہ جاتی ہے  دل کی بستی

کتنے چپ چاپ چلے جاتے ہیں جانے والے


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامین
42833