Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تاریخ یہوداور مسئلہ فلسطین……ڈاکٹر ساجد خاکوانی اسلام آباد،پاکستان

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

International Day of Solidarity with the Palestinian People

(29نومبر:فلسطینیوں کے ساتھ عالمی یوم  یکجہتی کے موقع پر خصوصی تحریر)

            حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوبیٹوں،حضرت اسمئیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو منصب نبوت سے سرفراز کیا گیا۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسمئیل علیہ السلام سے عرب اقوام نے جنم لیا اور دوسرے بیٹے حضرت اسحق علیہ السلام کے فرزند ارجمند جو اللہ تعالی کے بڑے ہی برگزیدہ نبی ہوئے اور قرآن مجیدمیں انکا متعددبار تذکرہ کیاانکا نام حضرت یعقوب علیہ السلام تھا۔انہیں اللہ تعالی نے ”اسرائیل“کا لقب عطا کیا جوعبرانی زبان کا لفظ ہے اور اسکا مطلب”اللہ تعالی کا بندہ“ہے۔عربی میں ”بن“بیٹے کو کہتے ہیں اور ”بنی“اسکی جمع ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جن سے انکی نسل چلی ان بیٹوں کو اور انکی نسل کو قرآن نے ”بنی اسرائیل“یعنی اولاد یعقوب علیہ السلام  سے یاد کیا ہے۔”یہودہ“نامی لڑکاحضرت یعقوب علیہ السلام کا چوتھابیٹاتھا جس کے ہاں اولاد نرینہ بہت تھی،بنی اسرائیل کا ہر دوسرا تیسرا نوجوان ”یہودہ“کا بیٹا یا پوتا ہوتا تھاجس وجہ سے اس قبیلے کو ”یہودی“کہا جاجانے لگاجو آج تک مروج ہے۔حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ اقتدار میں یہ قبیلہ اپنے آبائی علاقے سے مصر منتقل ہوا۔حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد چارسوتیس سالوں تک ان پر تاریخ کی بدترین غلامی مسلط رہی اور مصر کے مقامی لوگوں نے انہیں اپنی غلامی کی زنجیڑوں میں جکڑے رکھا،انکا ہر حکمران فرعون کہلاتا تھا۔فرعونوں اور فرعونیوں نے ان بنی اسرائیل پر بے پناہ تشدد کیایہاں تک کہ حضرت موسی کی قیادت میں ان لوگوں نے مصر سے ہجرت کی اور صحرائے سینا میں آن وارد ہوئے۔اللہ تعالی کے نبی حضرت موسی علیہ السلام نے انہیں قتال کرنے کا حکم دیا،قتال سے انکار پر چالیس سال تک صحرا نوردی ان کا مقدر بنی رہی یہاں تک کہ وہ ساری نسل ختم ہو گئی جس نے قتال سے انکار کیا تھا۔نئی نسل نے طالوت کی قیادت میں قتال کیا اور انہیں تمدنی زندگی نصیب ہوئی۔

            طالوت کی فوج میں حضرت داؤدعلیہ السلام بھی شامل تھے۔طالوت کی نرینہ اولاد نہ تھی اس نے وعدہ کیا جو اسکے دشمن ”جالوت“کو قتل کرے گاوہ اپنی بیٹی اس سے بیاہ دے گا۔چنانچہ یہ سعادت حضرت داؤد علیہ السلام کے حصے میں آئی۔طالوت کے بعد حضرت داؤدعلیہ السلام حکمران بنے اور اپنے زمانے کے بڑے ہی شاندار حکمران بنے،لوہے کی ٹیکنالوجی کاآغاز آپ کے زمانے میں ہی ہوا۔آپ کا اقتدار،فوج،خزانہ اوررعب داب کا قرآن نے بھی ذکر کیاہے۔کم و بیش تین براعظموں پر آپکی حکومت تھی اورآپ پرآسمانی کتاب”زبور“بھی نازل ہوئی۔آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام  بھی بنی اسرائیل میں سے تھے جنہیں اللہ تعالی نے دیگر مخلوقات پر بھی اقتدار عطا کیا تھا۔حضرت سلیمان علیہ السلام کا بیٹا ”رجعام“جب تخت نشین ہوا تو سلطنت اسکے قابومیں نہ آسکی اور ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔اس زمانے میں ایک حصے کا نام اسرائیل اور دوسرے کا نام یہودیہ تھا،ان کے درمیان اگرچہ لڑئیاں بھی رہیں لیکن جلد ہی صلح صفائی ہو گئی۔

            یہودی آج تک یہ دعوی کرتے ہیں کہ مشرق وسطی پر انکا حق ہے،اور اسکی وجہ انکے نزدیک کچھ یوں ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے مشرق وسطی کا علاقہ دیاتھا،انکے ایک بیٹے سے یہودی ہیں اور دوسرے سے عرب اقوام۔یہود ی یہ کہتے ہیں کہ اس بنیاد پر آدھے مشرق وسطی پرعربوں کا حق ہے اور بقیہ آدھے پر یہود کا۔لیکن یہ موقف اس لیے غلط ہے کہ اللہ تعالی نے خلافت ارضی کسی نسلی تفوق کی بنیاد پر عطا نہیں کی تھی،یہ خالصتاََ تقوی پر بنیاد کرتی ہے،اگر یہود اتنے ہی عزیز ہوتے تو ختم نبوت آل اسمئیل میں کیوں واقع ہوتی اور قرآن مجیدجیسی شاندار کتاب مکہ اور مدینہ کی بجائے فلسطین و یروشلم میں کیوں نہ نازل ہوتی؟یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ اللہ تعالی کو نسلوں اور علاقوں سے زیادہ متقی و پرہیزگارلوگوں سے پیار ہے اور یہی لوگ ہی اللہ تعالی کے برگزیدہ ہیں خواہ کسی نسل۔رنگ اورعلاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔یہود آج تک اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ محسن انسانیت ﷺ اللہ تعالی کے سچے نبی ہیں،قرآن نے ان کی اس بات یوں تبصرہ کیا ہے کہ ”اے نبی ﷺ یہ (اہل کتاب)آپ کو یوں پہچانتے ہیں جیسے اپنے سگے بیٹوں کو“،لیکن محض نسلی تفرق کی بنیاد پر جانتے ہوئے بھی ماننے سے گریزاں ہیں۔یہودیوں کے تین قبائل محسن انسانیتﷺکی تلاش میں ہی یثرب کے مقام پر آکر آباد ہوئے تھے کیونکہ گزشتہ کتب میں یہی لکھا تھا کہ یثرب کے مقام پر محسن انسانیت ﷺ اپنی ریاست بنائیں گے۔لیکن جب وہ نبی ﷺ آن پہنچے تو یہود محض اس وجہ سے ان پر ایمان نہ لائے کہ اللہ تعالی نے ان کی بعثت بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسمائیل میں کیوں کردی،حالانکہ یہ خالصتاََ خدائی فیصلہ تھا۔

            اگرچہ محسن انسانیت ﷺ نے یہودکو حجاز میں رہنے کی اجازت دے دی تھی لیکن اس بدعہد قوم کی مسلسل ریشہ دوانیوں کے باعث اللہ تعالی کے نبی ﷺ نے مدینہ سے نکال باہر کیالیکن وہاں بھی ان کی سازشیں کم نہ ہوئیں تو آپ ﷺ وصیت فرما گئے کہ ان یہودکو جزیرۃ العرب سے نکال دیا جائے۔چنانچہ حضرت عمر نے انہیں وہاں سے نکال دیا تھا۔اس سے پہلے بھی کم و بیش ایک صدی قبل مسیح سے یہ لوگ اپنے وطن سے دور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے چلے آرہے ہیں۔اوریوں گزشتہ صدی کے نصف اول تک یہ لوگ دوہزارسال سے غریب الدیار تھے۔یہودیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم نے اپنا بہترین وقت مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور اقتدار میں گزاراہے،مسلمان حکمرانوں نے انہیں بہت سی رعایات اور ان کے پڑھے لکھے لوگوں کو بہت سی مراعات دے رکھی تھیں لیکن محسن کشی ہمیشہ سے اس قوم کی فطرت میں رہی ہے،چنانچہ چڑھتے سورج کے پجاری کے مصداق مسلمانوں کے زوال کے ساتھ انہوں نے اپنی آنکھیں پھیرنے میں ذرا بھی توقف نہیں کیا۔گزشتہ صدی ہی میں مسلمانوں کی چھتری ہٹتے ہی یورپ کے حکمرانوں نے انکا بے دریغ قتل عام کیاجس کے باعث انکی نسل ختم ہوتی نظر آرہی تھی لیکن اللہ تعالی نے ناشکری،غداری اوربے وفائی سے عبارت عبرت کے اس نشان کوشاید قیامت تک باقی رکھنا ہے،چنانچہ نہ جانے کن کن مصالح کے تحت قدرت نے انہیں عارضی طور پر اسرائیل کی پناہ گاہ عطا کی تاکہ انکی نسل ختم ہونے سے بچ جائے۔

            قلب فلسطین میں اسرائیل کی تاسیس کسی جنگ اور فتح کانتیجہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا قیام سازشوں کے نتیجے میں مزاکرات اور معاہدوں کے بعد وجود میں آیااور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک معاہدے اور مزاکرات ہی اس ناپاک ریاست کے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہیں۔ریاست اسرائیل کو وجود بخشنے کے لیے سب سے پہلے 2نومبر1917کو برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھرجیمزبالفورنے اپنی حکومت کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا جسے  ”اعلان بالفور“کے نام سے تاریخ میں لکھااورپڑھاجاتاہے۔اس اعلامیہ کی منظوری برطانوی کابینہ کے اجلاس منعقدہ 31اکتوبر1917ء میں دی گئی تھی۔یہ اعلامیہ مذکورہ سیکریٹری خارجہ کی طرف سے برطانوی یہودی کمیونٹی کے سربراہ والٹر روشچلڈکو ارسال کیاگیاتھا جس میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس بات کا اعلان کیاگیاتھا فلسطینیوں کے قومی وطن کو یہودیوں کی آماجگاہ کے طور پر تسلیم کر لیاگیاہے۔یہ اعلامیہ صہیونی تحریک کی کتنی بڑی کامیابی تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج تک پوری دنیا کے یہودیوں اوراسرائیل کے اندر 2نومبر کی تاریخ کو ایک قومی دن کے طور پرتہوار کی صورت میں منایاجاتاہے۔اس اعلامیے کی اصل دستاویزشاہی لائبریری برطانیہ میں آج بھی محفوظ ہے۔

            اسرائیل کے قیام کے لیے پہلی باقائدہ تحریک 1919کی امن کانفرنس کے بعد پیش کی گئی،اس ”امن کانفرنس“کا نتیجہ بہت جلددوسری جنگ عظیم کے طور پر دنیاکو بھکتناپڑا۔یہ کانفرنس پہلی جنگ عظیم کے بعد پیرس میں منعقد ہوئی اور اس میں دنیاکے تیس بڑے ممالک دنیاکے نئے نقشے کی ترتیب کے نام پر بندر بانٹ میں مصروف کار رہے۔اس کانفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں فلسطین کے صوبے کو سلطنت عثمانیہ سے کاٹ کر الگ کر دیاگیاتھا۔اس کانفرنس کے بعد صہیونی تنظیم نے اسرائیل کے خواب کا پہلا مسودہ 3فروری1919کو پیش کیا۔اس مسودے میں پانچ بنیادی نکات تحریر تھے جن کا خلاصہ اور لب لباب یہ تھا فلسطینی علاقے کو یہودیوں کی سرزمین کی حیثیت سے اصولی طور پر تسلیم کیا جائے۔اس کانفرنس میں اس مسودے کو یادداشت کی حیثیت دی گئی گویا دوسرے لفظوں میں ایک طرح سے مان لیاگیا۔یاد رہے کہ اسی امن کانفرنس کے نتیجے میں لیگ آف نیشن کاقیام عمل میں آیاتھا۔

            امن کانفرنس کے نتائج تو غیروں سے تعلق رکھتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام میں اپنوں نے بھی کوئی کم کردار ادانہیں کیا۔قیام اسرائیل کا پہلاتاسیسی معاہدہ دراصل حجاز کے بادشاہ کے بیٹے شاہ فیصل اور شیم وژمن یہودی کے درمیان ہونے والا معاہدہ تھا جس پر 3جنوری1919کو ان دونوں نے دستخط کیے۔شاید اسی کامیابی کے نتیجے میں شیم وژم یہودی کو بعد میں عالمی صہیونی تنظیم کا صدر بھی بنالیاگیاتھا۔یہ معاہدہ عرب یہود تعاون کا معاہدہ تھااس وعدے کے ساتھ کہ ایک فریق فلسطین میں یہودی ریاست کی راہ ہموار کرے گا تو دوسرافریق بقیہ مشرق وسطی کو عرب سرزمین کے طور پر تسلیم کر لے گا۔اس معاہدے کے دوران شیم وژم یہودی نے عرب لباس زیب تن کیے رکھاتاکہ دوستی کا ناٹک برقرار رہے۔اس معاہدے کے فوراََ بعد شیم وژم یہودی پیرس کے لیے روانہ ہو گیاجہاں اس نے امن کانفرنس میں صہیونی تنظیم کے وفد کی سربراہی کی۔شاہ فیصل اور شیم وژم یہودی کے درمیان اس معاہدے کے لیے برطانوی خفیہ ایجنسی ایک عرصے سے متحرک تھی اور اس سے پہلے بھی 1918میں شاہ فیصل کوشیشے میں اتارنے کے لیے شیم وژم یہودی کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کا انتظام کیاگیاتھا۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں یہ بھی طے کر لیاگیاتھاکہ امن کانفرنس کے بعد ایک کمشن کے ذریعے عرب ریات اور یہودی ریاست کی حدود کا تعین بھی کیاجائے گا۔

            دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کاادارہ قائم ہوا اور 29نومبر1947کوجنرل اسمبلی کی قراردادنمبر181کے ذریعے فلسطین کے علاقے کو دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا 32%یہودی آبادی کو 56%علاقہ مرحمت کردیاگیااور بقیہ ریگستانی علاقہ فلسطینیوں کی قسمت میں لکھ دیاگیا،یہ اقوام متحدہ کا ابتدائی تاریخی کردار ہے کہ یہ ادارہ اپنے آغاز سے ہی بڑی طاقتوں کے خنجرکے طور پر امت مسلمہ کی کمر میں پیوست ہوتارہاہے۔اس کے نتیجے میں 1947کے آخر میں فلسطینیوں نے اپنے ایمان و زمین کے تحفظ کی سول جنگ شروع کر دی اور1948کے آغاز تک عرب افواج آزادی کے نام سے دیگر عرب علاقوں سے بھی سرفروشان اسلام اس جنگ میں شریک ہو گئے۔”امن عالم“کے ٹھیکیدار برطانیہ کے بوئے ہوئے اس بیج پر 1948کے وسط میں باقائدہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہو چکی تھی اور دونوں طرف سے بھاری توپ خانے کا استعمال اور بعد میں فضائی حملے بھی شروع ہو گئے۔بڑی طاقتوں کی مداخلت پر ایک بار پھر ”مزاکرات“کی میز سجی اور 24فروری1949کو مصر نے،23مارچ1949کو لبنان نے،3اپریل1949کو اردن نے اور 20جولائی کو بالآخر شام نے بھی اس عارضی امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطین اور اردن کا18%مزید علاقہ اسرائیل کو مل گیاجو اقوام متحدہ کے اعلان کردہ علاقے سے پچاس فیصد زائد تھا،لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوگئے اور اتنے ہی عرب شہدا کے خون رائگاں گئے اوراس معاہدے کے بعد مغربی آقا اور اسرائیلی حکمران عرب قیادت سے بہت خوش ہو گئے۔

            1949کے عارضی امن معاہدے کے نتیجے میں قائم ہو نے والی سرحد ”خط سبز“کہلائی جو1967کی عرب اسرائیل جنگ تک اسرائیل اورپڑوسی ممالک کے درمیان ملکی سرحدوں کاکام کرتی رہی۔اسرائیل کے قیام سے آج تک امن معاہدے،مزاکرات،اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی سفارتی دباؤ صرف امت مسلمہ کی نام نہاد قیادت کو دبانے کے کام ہی آتی رہی ہیں اور اسرائیل کو یہ سب کچھ خونی جنگوں سے بھی نہیں روک سکا۔چنانچہ جب بھی اسرائیل کو اپنی آبادی کے لیے علاقے اور زمین کی ضرورت پڑتی ہے وہ دنیابھر کے قوانین اور اخلاقی و انسانی معیارات کو بالائے طاق رکھ کر پڑوسیوں پر چڑھ دوڑتا ہے اور عالمی طاقتیں ہمیشہ اسی کا ساتھ دیتی ہیں۔اسی کی ایک مثال 1967کی عرب اسرائیل جنگ ہے۔چھ روزہ یہ جنگ 5جون سے10جون 1967کے دوران جاری رہی جو مصراوراسرائیل کے درمیان تو براہ راست رہی اور اردن جس نے کچھ ہی عرصہ قبل 30مئی کومصر سے مشترکہ دفاع کا معاہدہ کیا تھا وہ بھی چاروناچار اس میں شریک ہو گیا اور اردن نے دوسری طرف سے مغربی یروشلم پر حملہ کر دیا جبکہ بقیہ عرب ممالک پہلے تو امن معاہدوں کی لکیروں کو پیٹتے رہے اور پھر انہوں نے ”اخلاقی مدد“ ضرور کر دی۔اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید عرب علاقوں پر قبضہ کر لیااورکم و بیش دس لاکھ عرب مسلمان نفوس اس علاقے میں اسرائیل کے زیر تسلط آ گئے۔

            1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ستر کی دہائی میں ”امن مزاکرات“ کا پھرباقائدہ آغازہوااور اسرائیلی تنازع کے حل کے لیے کچھ عرب ریاستیں اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیاجانا چاہیے۔ان مساعی کے آغازکے بعدسب سے پہلے مصر اسرائیل امن معاہدہ عمل میں آیا اور26مارچ  1979ء میں واشنگٹن ڈی سی کے اندراس پر دونوں ریاستوں کی مقتدر شخصیات نے دستخط کیے۔یہ معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ملاقات کا نتیجہ تھا جو اس معاہدے سے کم و بیش ایک سال قبل 1978میں منعقد ہوئی تھی،امریکہ کی ثالثی میں مصر کے سابق صدر انورسادات نے اسرائیلی وزیراعظم سے یہ ملاقات کی اور اس سے پہلے اسی مصری صدرنے 1977میں اسرائیل کا دورہ بھی کیاتھا۔اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ریاستوں نے ایک دوسرے کے حق حکومت کو تسلیم کیاتھا،اسرائیل نے 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیے گئے کچھ علاقے مصر کو لوٹائے تھے اور مصر نے اسرائیل کو اجازت دی کہ وہ نہر سوئیزکو اپنے جہازوں کے استعمال میں لاسکتاہے۔اس طرح وہ پہلا مسلمان ملک تھاجس نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کیاجس کے نتیجے میں مصر کو عالم اسلام کی شدید مزاحمت کاسامناکرناپڑااورمصر کی اسلامی سربراہی کانفرنس کی رکنیت بھی معطل رہی۔ اس معاہدے کے کچھ ہی مدت بعدمصری کے اسلامی جہاد کے نوجوانوں نے اس معاہدے کی پاداش میں صدر حسنی مبارک پر قاتلانہ حملہ کر اسے ٹھکانے لگادیاتھا۔

            1991کی خلیج جنگ کے بعد ایک اور کوشش کی گئی اور اس بار اسپین نے میزبانی کی اور روس بھی اس کے ساتھ شامل کار رہااور اس طرح دوسری دنیاؤں کو بھی فکر ہوئی کہ عرب اسرائیل تنازعہ حل کرایاجائے کیونکہ خلیج کی جنگ میں ان انسانیت کے ٹھیکیداروں کے معاشی مفادات داؤ پر لگ گئے تھے اور اب اپنے اپنے سود بچانے کی فکر میں 30اکتوبر1991کو اسپین کے دارالحکومت میں امن کانفرنس کا انعقاد کیاگیاجو تین دن تک جاری رہی اور اسرائیلی و فلسطینی نمائندوں کے علاوہ لبنان،اردن اور شام سمیت متعدد عرب ممالک بھی شامل ہوئے۔اس امن کانفرنس سے کیا نتیجہ نکلناتھااس بات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس ”امن کانفرنس“کی منصوبہ کاری امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور وزیر خارجہ جیمزبیکر نے تیار کی تھی۔مشرق وسطی کے بارے امریکی پالیسی بلامبالغہ ان محاورں پر پوری اترتی ہے کہ اندھا ہمیشہ اپنوں کو ہی ریوڑیاں بانٹتاہے،بلی سے  چھیچڑوں کی چوکیداری گی توقع عبث ہے اورمسئلہ فلسطین میں دیگر عرب ممالک اسی طرح امریکہ کی طرف دیکھتے رہتے ہیں جیسے لڑنے والی بلیاں روٹی کی تقسیم پر بندر کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

            20اگست1993کو ناروے کے شہر اوسلو میں بھی اسی طرح کاایک کھیل کھیلا گیااور اسپین کی امن کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں ایک معاہدہ تیار گیاجسے اوسلو معاہدے کانام دیاگیااور 13ستمبر1993کوواشنگٹن ڈی سی کے اندر امریکی صدر،فلسطینی راہنمایاسرعرفات اور اسرائیلی وزیراعظم یازک رابن کی موجودگی میں فلسطینیوں کی طرف سے محمود عباس نے،اسرائیل کے وزیرخارجہ شمعون پیریزنے اپنے ملک کی طرف سے،امریکی وزیرخارجہ وارن کرسٹوفرنے امریکہ کی طرف سے اور روسی وزیر خارجہ اینڈری کوزریو نے اپنی حکومت کی طرف سے اس پر دستخط کیے۔اس معاہدے کی خاص بات یہ تھی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیلی راہنمااور اسرائیلی قیادت براہ راست آمنے سامنے بیٹھے تھے اور بھری محفل میں انہوں نے بہت سے لوگوں کے سامنے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی نیشل اتھارٹی وجود میں آ گئی۔یہ ایک طرح فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے کا ایک عندیہ تھاجس کے بدلے فلسطینی قیادت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔اس معاہدے پرفلسطینیوں کے اندر شدید بے چینی پھیل گئی اور بہت شدید مخالفت سامنے آئی اور فلسطینیوں کے مذہبی اور محب وطن عنصر نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کر دیااور اسے شہدائے فلسطین کے خون سے غداری قراردیا۔

            اسی طرح کاایک معاہدہ طویل قتل و غارت گری کے بعد شدید دباؤ کے نتیجے میں اردن سے بھی کرایا گیااور 1994ء میں اردن اور اسرائیل کے حکومتی نمائندوں نے اردن اسرائیل امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔اوسلو معاہدہ جو یاسرعرفات اوراسرائیل کے درمیان ہوااس کے نتیجے میں اردن کوفلسطینی تنازع سے ایک حد تک باہر کردیاگیاتھااور یوں 25جولائی 1994کوواشنگٹن ڈی سی کے اندر ہی اردن کے ”شہنشاہ“شاہ حسین اور اسرائیلی وزیراعظم رابن نے امریکی صدر کی موجودگی میں دستخط کیے اور یوں اردن وہ دوسراملک قرار پایاجس نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو امت مسلمہ کی خواہشات کے برعکس تسلیم کر لیا۔26اکتوبر1994کواردن اور اسرائیل نے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے،یہ معاہدہ اسرائیل کی ایک وادی میں کرایاگیاجس پر اسرائیلی وزیراعظم اوراردن کے وزیراعظم نے دستخط کیے،اسرائیلی سرزمین پر ہونے والے معاہدے میں بہت خوشی کا اظہار کیاگیااور بے شمار رنگ برنگے غبارے ہوامیں اڑائے گئے اور بہت بڑی تقریب کااہتمام بھی کیاگیاجس میں امریکہ کی صف اول کی تمام قیادت موجود تھی۔یہ دراصل خوشی کا اظہار تھا کہ اردن کی قیادت کو اسرائیل نے گویااپنی سرزمین پر کھینچ کر اپنی مرضی کی شرائط پر دستخط کروائے ہیں اور اردن کی قیادت بھی اس سبکی اور شکست خوردگی پر بے حدمسرور تھی۔

            اس کے بعد 5جولائی 2000ء میں کیمپ ڈیوڈ کے مقام امریکہ،اسرائیل اور فلسطین کی سربراہی کانفرنس بھی منعقدہوئی جو حسب معمول نشستندگفتندبرخواستندکے مصداق اختتام پزیر ہوئی۔کم و بیش ایک صدی سے جاری اس مزاکرات اور معاہدوں کے کھیل میں امت کی چار نسلوں نے کیاپا؟؟یہ نوشتہ دیوار ہے جو چاہے پڑھ لے۔گاجر مولی کی طرح کٹتے ہوئے بے یارومددگاراور وطن سے دور بے گھر فلسطینی آج بھی امن کے لمحے لمحے کو ترس رہے ہیں۔پوری دنیاکو نظر آنے والے یہ حقائق کیا امت مسلمہ کے حکمرانوں سے پوشیدہ ہیں؟؟قرآن مجید میں اللہ تعالی نے بہت پہلے بتادیاہے کہ یہودونصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے اور کتاب اللہ جن لوگوں سے قتال کا حکم دے رہی ہے امت کے غیر منتخب حکمران ان سے صلح کی توقع رکھتے ہوئے مزاکرات پر آمادگی ظاہر کر رہے ہیں۔اس دنیاپر کم و بیش ایک ہزار سالوں تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے اور یہ تاریخ کا وہ دورانیہ ہے جس میں بنی اسرائیل نے سب سے زیادہ آسودگی پائی ہے۔اس کے بعد تاج برطانیہ کی حکومت ہو،روس کی سلطنت ہویا جرمنی کا مرد آہن ہو یہودیوں کے لیے ہولوکاسٹ کی تاریخ ہی تحریر کی گئی ہے۔کیااب یہودی یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسی سلوک کے مستحق ہیں؟؟مسلمانوں کے ہاں اب بھی بحیثیت انسان کل انسانوں کااحترام موجود ہے خواہ وہ کسی رنگ و نسل اور مذہب و علاقے سے متعلق ہوں اورہم پوری ذمہ داری اور وثوق سے کہتے ہیں کہ صرف اس دنیاپر مسلمانوں کی حکومت اور نبی آخرالزماں ﷺ کا خطبہ حجۃ الوداع ہی امن کا باعث بن سکتاہے۔

            اسرائیل کا قیام صریحاََ ایک ناجائزاورزیادتی پرمبنی عالمی پردھان منتریوں کامکروہ فعل ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی ہمارے مکان کے ایک حصے پر زبردستی قبضہ جمالے اور پھر کہے کہ مجھے اپنا پڑوسی مان لو اور میرے حقوق ادا کرو۔گزشتہ صدی کے اوائل میں جب سلطنت عثمانیہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی تویہودیوں نے سلطان کواسکاسارا قرضہ اتارنے اور اس سے مزید تررقم دینے کی پیشکش کی صرف اس شرط پر کہ انہیں فلسطین میں رہنے کی جگہ دے دی جائے۔سلطان کا عثمانی خون جوش مار گیا،اس نے اپنا زوال قبول کر لیا لیکن یہ ذلت آمیز رقم لینے سے انکار کر دیا۔یورپ نے ہمیشہ کی طرح بڑی آسانی سے مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدارتلاش کر لیے جو ان کی سازشوں کوعملی جامہ پہنانے کے لیے تیار تھے اوردوسری جنگ عظیم کے فوراََ بعدفلسطین کاایک علاقہ یہودیوں کو دے دیا گیا۔اسرائیل کا قیام نہ صرف امت مسلمہ کے لیے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سلگتا ہوا مسئلہ اور رستہ ہوا زخم ہے۔اسرائیل نے مشرق وسطی سمیت پوری دنیا میں اپنے جاسوسی اور دہشت گردی کے مراکزقائم کررکھے ہیں،پوری دنیا کی معیشیت اس سختی کے ساتھ یہودیوں کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی معجزہ یا کوئی خونریزانقلاب ہی اس عالمی معیشیت کو پنجہ یہود سے آزادکرا سکتاہے۔کم و بیش پوری دنیا میں پیدا ہونے والا ہربچہ انکا مقروض اورپوری دنیا کے باسی کسی نہ کسی طرح اس سود خوربرادری کے ہاتھوں مقروض ہیں۔عالمی میڈیا بھی کسی طرح بھی ان کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ نہیں اور ایک سوچے سمجھے طریقے سے فرضی خبریں اورجھوٹی افواہیں اس سرعت کے ساتھ پوری دنیامیں چند گھنٹوں کے اندر اندرپھیلا دی جاتی ہیں کہ حقیقت ان میں دور دور تک نظر ہی نہیں آتی۔

            فلسطینیوں کو اللہ تعالی ہمت دے کہ وہ آج تک ان کا مقابلہ کر رہے ہیں،انکی چوتھی نسل ہے کہ یہود کے سامنے آہنی دیوار بن کر کھڑے ہیں،آئے روز یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ فلسطینی نوجوان پتھروں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے ہیں،اسرائیلی طیارے جب چاہیں فلسطینیوں کی بستیوں پر اندھا دھند بمباری کرتے ہیں،اسرائیلی فوج آئے دن فلسطینیوں پر سیدھی گولیاں چلاتی ہے لیکن گزشتہ پون صدی کی قربانیاں فلسطینیوں کی ہمت واستقلال اور استقامت میں کوئی لرزش پیدا نہیں کر سکی۔اگرچہ فلسطینیوں کے ایک گروہ نے مغرب کے رنگ میں رنگ کریہودیوں سے مزاکرات کے ذریعے امن کی بھیک مانگناشروع کر رکھی ہے،لیکن اب انہیں احساس ہوتاچلا جا رہا ہے کہ یہود کو برابری کی سطح پر لانا کتنانقصان دہ ہے کیونکہ اللہ تعالی نے واضع طور پر فیصلہ دے دیا ہے کہ یہودونصاری تمہارے دوست نہیں ہو سکتے،اور اللہ تعالی کے رسول ﷺ نے انکے خلاف قتال کیا ہے اور قرآن نے حکم دیا کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ یہ چھوٹے ہو کر رہیں۔

            کچھ عرصہ ہی پہلے حزب اللہ ملیشیاسے بدترین شکست کھانے بعد اسرائیل آج تک اپنے زخم چاٹ رہاہے۔چندسوافرادپر مشتمل حزب اللہ ملیشیانے دنیا کی بہت بڑی فوجی قوت اور ایٹمی طاقت کو اپنے پوے بل بوتے،امریکی آشیرباد،یورپی امداداور میڈیاوارکے باوجود ایک انچ آگے نہیں بڑھنے دیا۔چندسونوجوان جو قوت ایمانی سے مالامال تھے انہوں قرون اولی کی یاد تازہ کردی اور جدیدترین ٹینکوں اور گھن گرج والے تباہ کن ہوائی جہازوں اور شور مچاتے ہیلی کاپٹروں کی مددسے آگے بڑھنے والی اسرائیلی سپاہ کے دانت کھٹے کر کے انہیں واپس اپنی کمین گاہوں میں جانے پر مجبور کر دیا۔یہودیوں کی بزدلی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گاکہ اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے کے لیے اس وقت بھی اور آج بھی وہ شہری آبادیوں پر بمباری کر کے توعورتوں اور بچوں کو اپنے میزائلوں کا نشانہ بناتے ہیں۔

            فلسطینیوں کے ایک گروہ نے اگرچہ مغرب کی غلامی قبول کرلی ہے اور انہیں کے رنگ میں رنگے گئے ہیں،امریکہ اور یورپ نے اپنے ان حواریوں کو نوازا بھی بہت ہے،عالمی میڈیا،اخبارات اور امریکہ اور یورپ کے حکمرانوں نے اس مغرب نواز گروہ کو فلسطینیوں کا نمائندہ گروہ قرار دینے کی بہت کوشش بھی کی ہے، لیکن اس گروہ کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں مسلمانوں کے دشنوں کو ہمیشہ سے اپنے چاہنے والے مسلمانوں کے اندر سے مل جاتے رہے ہیں،کم و بیش نصف صدی سے مقتدراس گروہ نے فلسطینیوں کے خون کے سودے ہی کیے ہیں اور اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺنے جن لوگوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا تھایہ گروہ ان سے مزاکرات اور صلح کے راستے ہموار کرتا رہا ہے اور دامن پھیلا پھیلاکران سے امن کی بھیک مانگتارہا ہے جس کے نتیجے میں آج فلسطین کے حالات اس انجام تک پہنچے ہیں۔

            اس گروہ کی مسلسل ناکامیوں کے بعد گزشتہ انتخابات میں فلسطینیوں نے اپنے حقیقی نمائندے چنے اور ”حماس“بہت بھاری اکثریت سے پورے فلسطین میں کامیاب ہو کر ابھری۔عالمی طاقتوں نے ان کا راستہ روکنے کی بہت کوشش کی انکی مالی امداد بند کر دی،سفارتی تعلقات کی آہنی دیوار ان کے سامنے کھڑی کر دی اور دیگر انتظامی مشکلات کا انبوہ کثیر انکے مدمقابل لا کھڑا کیا لیکن اللہ تعالی کی مدد ہر معاملے میں انکے شامل حال رہی اور وہ کامیابی سے اپنے قدم آگے بڑھاتے رہے۔ان کی فہم و فراست سے یہودومسیحی اس حد تک گھبرائے کہ اپنے پروردہ گروہ کے ذریعے سے انکومعزول کر کے تو جمہوری حکومت کو غیر جمہوری طریقوں سے برطرف کر دیا۔

            اس کے باوجود بھی ”حماس“کے پائے استقامت میں جنبش نہ آئی اور اپنے مخصوص علاقے”غزہ“میں یہ لوگ ثابت قدم رہے۔غیرجمہوری راستوں سے بھی جب طاغوت کوناکامی ہوئی تو کم و بیش گزشتہ ایک سال سے غیرانسانی سلوک روا رکھا گیا اور اس طویل عرصے میں ”غزہ“کی مکمل ناکہ بندی کردی گئی،انکا پانی،بجلی،خوراک اوردوائیں تک بھی ان تک نہ پہنچنے دی گئیں۔ایران نے دوائیں پہچانے کی کوشش کی تو مصر نے راستہ دینے سے انکار کر دیا،یہ ننگ ملت مسلمان حکمرانوں کا مکروہ کردار ہے۔لیکن سلام ہے حماس کی اس پوری بستی کو کہ جس نے ایک سال کے طویل عرصے میں اپنے بچوں کی بھوک سے لبریز چیخیں سنی،اپنے مریضوں کی دوائیوں سے محروم آہیں برداشت کیں اور اپنے بزرگوں کومحض اللہ تعالی کے سہارے ہر دنیاوی آسائش سے محروم ہوکر انکے درد کو برداشت کیا لیکن،اپنے ایمان،اپنے مقصد،اپنی قیادت اور اپنے وطن کے ساتھ مخلص و ہمدردرہے۔

            حیرت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی کئی نشستیں کر چکنے کے باوجود بھی ابھی تک کوئی واضع پالیسی سامنے نہیں لا سکا۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ کم و بیش ایک ہزار قراردادیں ہیں جو اسرائیل کے بارے میں منظور کی گئیں لیکن آج تک ایک پر بھی نہ اسرائیل نے عمل کیا اور نہ ہی کسی عالمی طاقت نے اس طرف توجہ کی۔قراردادمنظور ہو جاتی ہے اور آگ اور خون کا کھیل بھی جاری رہتا ہے تو دوسری طرف عراق کے لیے چوبیس گھنٹے کی مختصر مدت میں بتیس قراردادیں منظورکراکے تو فی الفور نافذ بھی کر دی گئیں،بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے جتنی بھی قراردادیں منظورہوئیں ان میں سے صرف ایک پر عمل ہوا کہ بوسنیا کے مسلمانوں کو اسلحہ نہ پہنچنے دیا جائے،بس”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“اور اسکا حل یہ بتایاجارہاہے کہ حماس کو غیرمسلح کر دیا جائے۔

            غیروں کے شکوے کیوں کریں،خود مسلمان حکمرانوں کا کیا کردار ہے اور خاص طور پر عرب حکمرانوں کا؟؟سینکڑوں لوگ تہ تیغ ہوجاتے ہیں اور عرب لیگ یا اوآئی سی کے ایوان نشستاََ گفتاََ برخواستاََکے مصداق اپنا کیادھرا سمیٹ کر تواٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔شایدآج امت کے حکمران امت کے اصل نمائندہ نہیں یا انہیں یہ ڈر ہے کہ یہ سچے مسلمان اگراسرائیل،امریکہ اور بھارت سے فارغ ہوگئے تو انہوں نے مسلمان حکمرانوں کا احتساب شروع کر دیناہے،بہرحال یہ تو ہونا ہی ہے کہ نوشتہ تقدیر میں یہی لکھادھراہے کہ مکافات عمل پوری ہو کر رہتی ہے لیکن ہم منتظر ہیں ایک بار پھر اسی نتیجہ کے جو آج سے کچھ ہی عرصہ پہلے حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل بھکت چکا ہے اور انشاء اللہ تعالی اب کے بار حماس کے مجاہدین اس صہیونی فوج کے دانت کھٹے کریں گے اور وہ دن دور نہیں جب حقیقی مسلمان قیادت ہی امت کی حکمران ہوگی اور امت کا سورج مشرق سے طلوع ہوکر اپنے نصف النہار تک پہچے گااور آخری نبی ﷺ کی دعائیں رنگ لائیں گی۔

             فلسطینیوں کاپوری انسانیت پر عالم طور پر احسان ہے اور امت مسلمہ پر خاص طور احسان ہے کہ وہ عالمی امن کے دشمنوں کے ساتھ ایک طویل اور تاریخ ساز جنگ لڑ رہے ہیں۔پوری دنیا بھی ان فلسطینیوں کے ہاتھ مظبوط کر سکتی ہے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعے بھی لیکن یہ شاید مشکل ہو تب

یہود کی مصنوعات کے استعمال کو ختم کر کے یہود کا قلع قمع آسانی سے کیاجاسکتا ہے۔اللہ کرے کہ وہ دن آئے کہ امت مسلمہ کے حکمران امت کے دوست اور دشمن کی پہچان کریں اور اپنے اقتدارکی بجائے امت کے وسیع تر مفاد میں سخت سے سخت فیصلے کر جائیں اگرچہ انہیں کیسی ہی قربانی دینی پڑے تاکہ عالم انسانیت ان استحصالی کرداروں سے نجات پا سکے۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: