Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

زہر میٹھا ہو تو۔۔۔۔ قادر خان یوسف زئی

شیئر کریں:


 پہلے تویہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کہتے کس کو ہیں، جمہوری نظام، جمہوریت کی فتح و بالادستی، جمہوریت کی مضبوطی سمیت لاتعداد ایسے نعرے ہیں جو ہم سنتے، دیکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ جمہوریت کی تعریف کچھ اس طرح کی جاتی ہے کہ بلا واسطہ جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہو سکتی ہے، جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام یکجا جمع ہو کر غور و فکر کرنا ممکن بنا سکیں، قانون سازی کیونکہ طویل اور پیچیدہ عمل ہے،اس لیے تجارتی اور صنعتی زندگی قانون سازی کی جھگڑوں میں نہیں پڑتی، اس لیے اس عمل کو سہل بنانے کے مجلس قانون ساز کا تصور عمل میں لایا گیا اور رائے دہندگان کے لیے ووٹ کے نام سے اظہار رائے کا ایک طریقہ وضع کیا گیا،جس کے ذریعے نمایندے منتخب کر لیے جاتے ہیں اور یہی نمایندے نظام ریاست کا کام کرتے ہیں، لیکن درحقیقت ایسا ہوتا نہیں ہے کہ عوام ایسے شخص کا درست انتخاب کریں جو قانون سازی کے عمل سے کماحقہ واقف ہو۔


 خوصاََ ترقی پذیر معاشرے میں زبردستی، جبراََ، طاقت جیسے عوامل کے علاوہ مال متاع سے متاثر کر کے بھونچکاں عوام کو سحر زدہ کر دیا جاتا ہے۔ علاقائی، لسانی، نسل پرستی، فرقہ واریت سمیت ووٹ کے لیے کسی بھی عمل کو جائز سمجھ لینا، ایک روایت بن چکی ہے۔ مغرب کے اس نظام پر بعض حلقے اعتراض بھی کرتے ہیں، خود علامہ اقبال علیہ رحمہ بھی اس قسم کے نظام جمہوریت کو نہیں مانتے تھے کہ جہاں  بندے گنے جا تے ہیں لیکن، تولے نہ جاتے ہوں، وڈیرانہ، جاگیردارنہ، مَلکوں اور خوانین کے اس نظام میں غریب عوام اپنا حق رائے کا درست استعمال ممکن ہی نہیں بنا سکتے۔ حکومت کا احترام عوام کے دلوں میں جب پیدا ہو گا جب وہ عوام کے لیے کام بھی کریں۔


 عجیب صورتحال یہ بن جاتی ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے قانون بنانے کے بجائے گلیوں کے گٹر، ندی، نالے، سٹرکیں بنا نے پر زور دیتے ہیں، اگر کسی قانون ساز اسمبلی کی یہی خصوصیت ہے تو پاکستان سمیت پوری دنیا میں تعمیراتی کمپنیوں کو امور سلطنت دے دینے چاہیں۔  عموماََجتنے بھی نمایندے منتخب ہوتے ہیں ان کی95 فیصد تعداد کو عوام کی اکثریت مسترد کر دیتی ہے، انھیں جو ووٹ پڑتے ہیں وہ مخالفین کے ووٹ سے کم ہوتے ہیں، اب یہ جمہوریت کا کونسا اصول ہے کہ جسے عوام کی اکثریت مسترد کر دے وہی وزیر با تدبیر بنا دیا جاتا ہے۔ ہم اپنے نظام حکومت کے لیے مغرب کی جانب دیکھتے ہیں، لبرل ازم اور سیکولرازم کی اصطلاح استعمال کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے اسلام نے دیگر مذاہب پر کوئی قدغن عاید کر رکھی ہے۔


 جمہوریت پسندوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ کہ ووٹ کے نام پر منتخب کرنے کا نظام صرف یورپ میں تھا، مسلم اکثریتی ممالک میں حکومت ووٹ کے ذریعے نہیں کبھی آتی تھی، لیکن سیکڑوں سال سے امور سلطنت چلاتے رہے، یورپ سرنگوں رہا، جزیہ دیتا رہا، زمانہ جاہلیت میں ڈوبا رہا، مسلم علما ء ایجادات کرتے رہے یورپ والے مسلمانوں کی کاوشوں کو چوری کرتے رہے، مسلمانوں کو تفرقوں میں پیدا کرکے آپس میں لڑایا گیا اور ان کے آپس کی نا اتفاقی میں مسلم اکثریتی ممالک یورپ کے غلام بنناشروع ہوگئے، جمہوریت کا یہ ہی تو وہ نظام ہے کہ ایٹم بم بناکرکروڑوں انسانوں پر گرا دیا گیا، جنگ عظیم اول و دوئم میں کروڑوں بے گناہوں کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔


یہی تو جمہوریت کا نظام ہے، جس میں چند ممالک کے پاس ویٹو کا اختیار ہے اور مسلم امہ کے خلاف اسرائیل اور بھارت کی جارحیت اور قبضے کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کر دیا جاتا ہے، تمام دنیا ایک طرف اور ویٹو پاور ایک طرف ہو جاتی ہے یہی جمہوریت ہے کہ اپنے مفادات کے لیے کسی بھی ملک پر حملہ کر کے اسے تہہ و بالا کر دیا جاتا ہے۔اربوں انسان جمہوریت کے نام پر قربان ہو گئے، لیکن کیا مسلم حکمرانوں نے کبھی ایسا کیا، یہ ضرور ہے کہ ان کے آپس کے اختلاف رہے، لڑے بھی، بغاوتیں بھی ہوئیں لیکن جو جنگ و جدل جمہوریت کے ماننے والوں نے کیا، کیا وہ درست نظام قرار دیا جائے، لیکن جس نظام(اسلام) نے ترقی، ایجادات اور مرد و عورت و انسانیت کو برابری کا احترام دیا،آج الٹا لبرل اور سیکولرز اسے ظلم کا نظام کہتے ہیں، ایٹم بم گرانے والوں کو سر پر بٹھاتے ہیں اور جو اسلام کی اساس پر چلنا چاہتے ہیں اُسے مورد الزام، انتہا پسند کہہ کر ظالم ٹھہراتے ہیں۔


جمہوریت کے نام پر کئی نظام اس وقت دنیا بھر میں رائج ہیں، مسلم اکثریت ممالک میں بادشاہت کے نام پر حکمرانی کی جاتی ہے، سمجھنا آسان ہے کہ آمریت ہو یا بادشاہت، مطلق العنان حکومت ہوتی ہے، یہاں اکثریت جمہوریت کی دلداہ ہے، لیکن جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ کئی نافذ بھی ہے تو اس کا جواب یقینی طور پر نفی میں ہی ملے گا۔جمہوریت کی اساس کو اس کی اصل شکل میں اگر نافذ کردیا جائے تو انسانیت کے تمام مسائل نہ سہی، لیکن حق حکمرانی کا حق عوام کے ہاتھوں دینے کا خواب کی تعبیر سمجھی جاسکتی تھی، لیکن اس نظام کو بھی اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا، حقوق انسانیت کے نام پر ایک کتابچہ مسلط کردیا گیا، جس میں چور کو چوری سے بچنے کے کئی راستے بھی پہلے ہی بتادیئے جاتے ہیں، احتساب کا کھیل، سیاسی مخالفین کے اقتدار کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اب اگر جتنی مخلصی سے کوشش بھی کی جائے تو مخالفین کے تحفظات و الزامات سے بے یقینی کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔


وطن عزیز میں جمہوریت کی مضبوطی کا جو کھیل رچایا جارہا ہے، اگر ایسے جمہوریت کہتے ہیں تو پھر اکیس توپوں کی سلامی۔ عوام کے حالت ِ زار پر جمہوریت کے نام نہاد علم داروں کو رحم تک نہیں آتا کہ کس قدر بدتر و بھیانک صورتحال سے گذر رہے ہیں، یہ وطن ہے، تو سب کچھ ہے اگر نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ کوئی ایسا موقع نہیں کہ جس میں عوام کو تختہ مشق نہ بنایا جاتا ہو، کس، کس کو الزام دیں، سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم اُس اساس پر چلنا گوارا کیوں نہیں کرتے، جو ہمیں کائنات کے اُس خالق نے دی ہے، جس میں رائی برابر تبدیلی ممکن نہیں اور بنی نوع انسان کے لئے یکساں فائدہ مند ہے، جس کی ایک شق کسی کو استثنیٰ نہیں دیتی، برابری کا ایسا لافانی نظام ملنے کے باوجود راندہ ئ درگاہ ہورہے ہیں، تو اس میں قصور کسی اور کا نہیں بلکہ ہمارا ہی ہے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
42608