Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

وراثت……گل عدن

شیئر کریں:

مذہب اسلام دنیا کا خوبصورت ترین اور اک مکمل مذہب ہے ۔جسکی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ اسی مذہب نے ہم انسانوں کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطاء کیا ۔اسکے بعد ہمیں ماں باپ اور بہن بھائی جیسے خوبصورت رشتوں سے باندھا ۔پھر ان تمام رشتوں کو حقوق و فرائض سے نوازا ۔اور یوں معاشرتی زندگی کے حدود متعین مگر افسوس زن زر اور زمین کی ہوس نے رشتوں کی پاکیزگی اور خوبصورتی کو تقریباً ختم کر دیا ہے ۔جیسا سنا تھا کہ آخرت کے زمانے میں سب سے زیادہ فسادات زن۔زر۔زمین کی وجہ سے بڑپا ہوں گے واقعتاً آج ہر طرف وہی خون خرابہ ہے ۔


جب کوئی شخص مر جائے تواسکے ترکے کو میراث اور اسکے حصہ داروں کو وارث کہتے ہیں ۔ہمارے بہت سے بھائی تمام زندگی بڑے دیندار بنے پھرتے ہیں مگر انکی بدقسمتی سے جب انہیں وراثت کی تقسیم کا مسئلہ درپیش آجائے ۔تب پتا چلتا ھے کے ہمارے یہ عالم فاضل دیندار اور روشن خیال بھائی حضرات دین کے معاملے میں کتنے پانی میں ہیں ۔اور یہ بڑے دکھ کی بات ہے صرف گنتی کے چند لوگوں کو چھوڑ کر مرد حضرات کی اکثریت اس حقیقت کو تسلیم ہی نہیں کرتی کے وراثت میں ماں اور بہن کا بھی حصہ ہو تا ہو گا ۔وراثت ایسی چیز ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے بیٹا کو بھی ملتا ہے اور بیٹی کو بھی ۔مگر بیٹااپنا حق سمیت بہن کا حق بھی ہتھیانا چاہتا ہے۔ ۔شاید مردوں کی اس حرص کو دیکتھے ہوئے اللہ نے بھائی کو بہن سے تھوڑا زیادہ حصہ دیا۔لیکن ہمارے حریص بھائی بہنوں کواس تھوڑے حصے سے بھی مکمل محروم کر دینا چاہتےہیں ۔ہے نا شرم کی بات ؟؟۔شاید ایسے ہی حریصوں کے بارے میں رسول پاک ﷺنے فرمایا ہے کہ “انسان کے پاس اگر سونے کی دو وادی )جنگل ) ہوں توبھی ان کا جی نہیں بھر سکتا ۔بلکہ تیسری وادی کی تمنا کرےگا ۔انسان کا پیٹ سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہيں بھر سکتا ۔” دکھ اس بات پر ھوتا ہےکہ چار بھائی آپس میں تو ہنسی خوشی بٹوارہ کرلیتے ہیں لیکن ایک بہن کو حصہ دیتے ہوئے انکی جان پر بن جاتی ہے خاص طور پر جب بہن سوتیلی ہو ۔


کتنی مضحکہ خیز بات ہے نا کے بیٹے باپ کی جائیداد کو صرف اپنا حق سمجھتے ہیں ؟۔مجھے مردوں کی یہ سائیکی کبھی سمجھ نہیں آئی ۔شرم اور افسوس کا مقام ہے کہ بڑے بڑے نام ۔معززین اور اعلیٰ خاندانوں میں بھی وراثت کی تقسیم میں بہن ماں اور بیٹی کو حق دینے کا معاملہ جھگڑے ناراضگی اور قطع تعلق کے بغیر طے نہیں ہو پاتے ۔


تعجب ہے ان بھائیوں پر۔قرآن مجید واضح طور پر کہتا ہے کہ اگرتم کسی کی بالشت بھر زمین پر بھی ناحق قابض ہوئے تو اسکا بدلہ جہنم کی آگ۔
ہے ۔


جب بھی کوئی بہن وراثت میں اپنا حصہ مانگتی ہے توان بہن بھائی میں اک خلیج پیدا ہو جاتا ہے ۔اس بہن کی حثیت ان بھائیوں کے گھروں میں اک چور کی مانند ہو تی ہے۔بھائی کے بیوی بچے اس بہن کو غاصب گردانتے ہیں ۔باوجود اس کے کہ وہی بھابھی اپنے مائکے سے اپنا حق بھی وصول کر تی ہے اور دیکھا گیا ہے کے وہی بھائی جو زمین کے اک ٹکڑے کے لیئے اپنی مجرم ںہن کےلئے دل میں کینہ پال رہا تھا وہی بھائی آج اپنی بیٹی کو وراثت میں حق دینے کی بات کرتاہے بلکہ اپنے بیٹوں کو تلقین کرتا رہتا ہے ۔بہن اور بیٹی میں اتنا تضاد کیوں ؟؟؟شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ دنیا گول ہے ۔بہرحال وراثت ایک سیدھا سادہ معاملہ ھے لیکن نفسا نفسی کے اور دین سے دوری نے اسے پیچیدہ بنا دیا ہے ۔جسکوآسان بنانے کے لئے علماء کرام پر بھاری ذمہ داری عائد ہو تی ہے۔والدین اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں حلال اور حرام کا فرق ہمیں بتائیں ۔آپ اور ہم کتنے ایسے لوگوں کو جانتے ہیں جو بہن بیٹی کے حقوق کو نہیں مانتے۔جب کے احادیث اور قرآن سے ثابت ہے کہ کسی کو بھی ڈرا دھمکا کر کسی کا حق چھیننا حرام ہے ۔اگر بہن اپنی خوشی اور اپنی رضا مندی سے بھی اپنا حق معاف کرےتوروز قیامت اس بابت بھی سوال ہوگاکہ تو نے اسکا حق اس زبردستی کیوں نہ دیا ۔۔ اسلام تو یہ ہے کہ بہن کو اسکا حق بغیر کہے مل جائے ۔


زمین کے اپر تو ہمیں زیادہ سے زیادہ پچاس ساٹھ اسی یا نوے سال رھنا ہے جب اک دن ہم نے اپنے بلند و بانح عمارات حتیٰ کے اک کٹیاتک اسی دنیا میں چھوڑ جانی ہے تو اس چھوٹی سی زندگی کے لئے ہم اتنا برا سودا کیوں کر رہے ہیں ؟جس زمین کے اندر دھنس جانا ہے ایک دناسکے لئیے خدارا اپنی آخرت تباہ نہ کریں ۔جو بہنیں آپ سےاپناحصہ الگ کر چکی ہیں انکےلئے اپنا دل صاف کرلیں ۔کیونکہ جو انہوں نے لیا وہ انہی کا حق تھا اگر وہ چھوڑ دیتیں تو وہ آپ کے لئیے آخرت میں آگ کے سوا کچھہ نہ تھا ۔


وارث اللہ کا نام ہے قیامت کےروز اللہ تعالی خود فرمائیں گے ” لمن ملک الیوم )آخر کون مالک ہے ؟(
اور خود ہی جواب للہ الواحد القھارہ(اللہ تعالی ہی مالک ہے ) بےشک پورے جہاں کا اصل وارث تو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں ۔اللہ ہماری راہنمائی فرمائے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
42370