Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کیا سود اور تجارت برابر ہیں؟……ڈاکٹر ساجد خاکوانی اسلام آباد

شیئر کریں:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

            سود کے لیے قرآن نے جو لفظ استعمال کیا ہے وہ ”ربو ٰ“ہے جس کا لفظی مطلب بڑھوتری،اضافہ،نشونما اور پھلنا پھولنا ہے۔اللہ تعالی نے سود یعنی ربو(ربا)کو حرام قرار دیا ہے۔محسن انسانیت ﷺ کی مدنی زندگی کے اواخرات میں جو احکامات نازل ہوئے ان میں سے حرمت ربوٰ ایک ہے۔اللہ تعالی نے تمام جرائم کی سزا مقرر کی ہے لیکن ربوٰکو اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے”یٰأَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ(۲:۸۷۲) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُ ْوسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَلاَ تُظْلَمُوْنَ(۲:۹۷۲)“ ترجمہ:”اے ایمان والو اللہ تعالی سے ڈرواورجوکچھ تمہاراسود لوگوں پر باقی رہ گیاہے اسے چھوڑ دواگرواقعی تم مومن ہو۔لیکن اگرتم نے ایسانہ کیاتوآگاہ ہوجاؤ کہ اللہ تعالی اوراسکے رسول ﷺ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے،اب بھی توبہ کرلو(اورسودچھوڑدو)تواپناسرمایا لینے کے تم حق دارہو، تم بھی ظلم نہ کرواورتمہارے اوپر بھی ظلم نہ کیاجائے“۔قرآن میں اللہ تعالی نے سورۃ بقرہ میں واضع طور پر بتا دیا ہے کہ ربوٰسے دولت کم ہوتی ہے جبکہ صدقات  سے بڑھتی ہے۔جبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک حدیث مبارکہ میں  فرمایا میں قسم کھاتا ہوں کہ صدقہ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی۔

            نزول قرآن کے وقت ربوٰکی متعدد اقسام عرب میں رائج تھیں یا لین دین کی درج ذیل صورتوں پر لفظ رباکااطلاق کیاجاتاتھا:مثلاَ

                        1۔ جنس خریدکی ادائگی کا وقت معین کر دیا جاتا،اگر وقت معین پر ادائگی نہ ہو سکتی توقیمت میں اضافہ کر دیا جاتا۔مثلاََ گندم کی بوری ایک سو روپے کی ہے اور ادائگی تین مہینے بعد ہوگی۔لیکن وقت پر ادائگی نہ ہوسکی تومزید مہلت لے لی اورقیمت میں کچھ اضافہ بھی کردیاجیسے تین ماہ مزیدمہلت کے لے لیے اورقیمت ایک سودس روپے کر دی۔یہ دس روپے کااضافہ رباکہلاتاتھا۔

                        2۔ایک خاص مدت کے لیے قرض لیا جاتا اور اسے اضافے کے ساتھ لوٹایا جاتا:مثلاََایک سو روپے قرض لیااور چھ ماہ بعد ایک سو دس روپے کر کے لوٹا دیا۔یہ دس روپے کی اضافی رقم ربا کہلاتی تھی۔

                        3۔مدت میں مزید اضافے کی صورت میں اضافے کی شرح بھی بڑھا دی جاتی۔مثلاََ چھ ماہ کے لیے قرض لیا اور دس فیصد اضافہ طے کرلیا۔وقت پر ادائگی ممکن نہ ہو سکی تو تین ماہ کی مزید مہلت لے لی اور اضافہ پندرہ فیصد تک بڑھالیا۔یہ دس فیصد یا پندرہ فیصد کی اضافی ادائگی رباکے ذیل میں آتی تھی۔

                        4۔اصل زر یعنی قرض کا ماہوار کرایہ  وصول کیا جاتا۔مثلاََ ایک سال  کے لیے ایک ہزارروپے قرض لیااور ہر ماہ دس دس روپے دیتے رہے،یہ دس روپے کی ماہوار ادائگی رباکے ضمن میں شمارہوتی تھی۔

                        5۔اصل زر مخصوص مدت تک واپس نہ ہوتا تو ماہوار کرایہ میں اضافہ کر دیا جاتا۔مثلاََ ایک سال کے لیے قرض لیا اور ہر ماہ دس دس روپے اداکرتے رہے۔اب سال گزرگیالیکن قرض ادانہ کرسکے تو مہلت میں چھ ماہ کااضافہ کروالیا اور ماہانہ رقم پندرہ روپے مقررہو گئی،یہ دس روپے ماہانہ اور بعد کے پندرہ روپے ماہانہ پر عربی لغت میں رباکااطلاق ہوتاہے۔

                        6۔ایک ماہ کرایہ ادا نہ ہوسکنے کی صورت میں اگلے ماہ اضافے کے ساتھ کرایہ وصول کرنا،مثلاََدکان یا مکان کرائے پر لیاتھا،ایک ماہ کرایہ ادانہ کرسکے تواگلے ماہ کرائے پر اضافہ بھی وصول کرنا،یہ اضافہ رباہے۔

                        7۔ہم جنس اشیا کا غیر مساوی تبادلہ،یعنی ایک من گندم دے کر مخصوص مدت کے بعد ایک من سے زائد وصول کرنایا ایک من جو لینااور کچھ عرصہ بعد ایک من اور دوسیر واپس کرنا،یا دس تولے سونا لینااور مقررمدت کے بعد گیارہ تولے وصول کرنا،اس طرح کے معاملات میں اضافے پر ربا کااطلاق ہوتاہے۔

            اس لحاظ سے ربوٰکو تین اقسام میں گنا جا تا ہے:

                        ا۔ربائے فضل:قرض کے عوض فائدہ حاصل کرنا۔

                        ب۔ربائے نسیہ:قرض میں اضافہ وصول کرنا۔

                        ج۔ربائے ید:ہم جنس اشیا کا غیر مساوی تبادلہ

            چنانچہ درج ذیل تین امور جب کسی معاہدے کا حصہ ہوں گے تو وہ ربوٰکہلائے گا:

                        ۱۔راس المال پر اضافہ:جیسے ایک ہزار دے کر ایک ہزار سے زائد وصول کرنا۔

                        ۲۔اضافے کا تعین:خواہ مقرررقم کی صورت میں ہو یا فیصدی شرح کی صورت میں۔اور

                        ۳۔مشروط معاملہ:یعنی اضافہ کی وصولی لازمی ہونے کی شرط شامل ہونا۔

            پس اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اگر سرمایا محفوظ ہو اور نفع یقینی ہو تو یہ سود کے برابر ہے:

                                                سرمایامحفوظ+نفع یقینی+معاملہ مشروط=سود(ربا(

            اور اگر سرمایا غیر محفوظ ہو،ساتھ میں محنت ومشقت ہو اور نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہو تو یہ تجارت ہے:

                                                سرمایاغیرمحفوظ+محنت +نفع/نقصان =تجارت

قرآن مجیدنے واضع طور پر کہا کہ کچھ لوگ سود اور تجارت کو ایک سمجھتے ہیں جبکہ اللہ تعالی نے سود کو قطعی حرام اور تجارت کو حلال فرمایا ہے اورتجارت کو محسن انسانیت ﷺ نے بطور پیشے کے اختیار بھی فرمایا۔تجارت میں لین دین کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے،فروخت شدہ چیز وصول کر کے تو اسکی قیمت ادا کر دی جاتی ہے فریقین باہمی رضامندی سے ایک دوسرے سے حصول مفاد کر چکتے ہیں اور منافع حاصل کرنے والا ایک ہی بارمیں سارا منافع حاصل کر کے تو رقم کو اگلی سرمایا کاری میں لگا دیتا ہے۔جبکہ سود میں قرض کی مکمل ادائگی تک معاملہ باقی رہتا ہے اور ایک فریق ایک مقرر مدت تک دوسرے فریق کا استحصال کرتا رہتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا رہتا ہے اگرچہ حاصل شدہ منافع اصل زر سے تجاوز ہی کیوں نہ کر جائے اصل زر پھر بھی باقی رہتا ہے۔سودی معاملے کے یہ بظاہر نظرآنے والے امور ہیں،پوشیدہ معاملات جن میں ایک فرد ذہنی تناؤکاشکارہوجاتاہے،اس کے دن کاچین اور راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہے،نفسیاتی دباؤ اس کی شخصیت کوکرچی کرچی کردیتاہے،اس کی صحت،اس کی دلچسپیاں،اس کی تفریحات وسیروسیاحت  اوراسکی دوستیاں حتی کہ عبادات تک انتہائی حدتک غیرمتوازن ہو کرتباہ وبربادہوجاتی ہیں اوراس کی اپنی جان اس کی روح پر بوجھ بن جاتی ہے اور ایسے معاشروں میں خودکشیوں کارواج چل نکلتاہے جو آج کے سیکولرمغربی معاشروں میں بآسانی دیکھاجاسکتاہے۔

            تجارت میں انسان ایک جگہ سے مال خریدتا ہے اس پر محنت کر اسے کارآمد بناتا ہے یا پھر اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر کے اس میں اپنی محنت اور خون پسینہ کے ساتھ بہترین ذہنی صلاحیتیں صرف کرتا ہے اور اسے بہترین انداز سے منڈی کے اندرگاہک کے سامنے پیش کرتا ہے،تھوڑا تھوڑا کر کے زیادہ قیمت پر یا ایک ہی بارگی میں کم قیمت پر فروخت کر کے تو اپنا حق حلال کا منافع اور محنت اور سرمایا کاری کا مابدل حاصل کرتا ہے۔سودخور کی نسبت یہ تاجر ذہنی طورپر انتہائی آسودہ اور راحت اور نفسیاتی آزادی کی زندگی گزارتاہے،اس کے معمولات حیات میں کاروباروتجارت کے ساتھ ساتھ اس کی ذات بھی اپناحق وصول کرپاتی ہے۔ جبکہ سود میں ایک شخص ضرورت سے زائد مال پر کسی مجبور و مقہور شخص سے محض کرایہ وصول کرتا ہے۔چنانچہ تجارت سے معاش اور معاشرت میں تہذیب و تمد ن ترقی کرتا ہے جبکہ سودمیں معاش کی ترقی انحطاط پزیر ہو جاتی ہے۔تجارت کے اندر ہر حال میں نقصان کا اندیشہ رہتا ہے،سرمایا غیر محفوظ ہوتا ہے،راستے میں لٹ سکتا ہے،گم ہو سکتا ہے،سمندری سفر میں ڈوب سکتا ہے،اپنی مدت پوری کر سکتا ہے جیسے برف پگھل جاتی ہے یا اپنا موسم کھو سکتا ہے یہ سب امور تاجر کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی سے اپنا تعلق مضبوط رکھے کیونکہ کل نفع نقصان اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔اور اگر نقصان ہوگا تو وہ صبر کرے گا اور نفع ہو گا تو وہ اللہ تعالی کا شکر ادا کرے گا۔جبکہ سود میں وہ اپنے خالق سے بالکل لا تعلق ہو جائے گا کیونکہ اسکا سرمایا محفوظ اور نفع یقینی ہے۔خالق سے تعلق انسانی معاشرے میں اخلاق کی بڑھوتری کا سبب بنتا ہے اور خالق سے لاتعلقی سے انسانی اخلاق پستی کے گہرے کھڈ میں جا گرتے ہیں۔

            حلال طریقے سے تجارت کرنے والا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق صدقات اور خیرات کا انتظام کرتا ہے وہ اللہ تعالی کواپنے کاروبارکے نفع میں شریک بنالیتاہے اور نفع کاایک مقتدرحصہ ہر بار اپنے اس حصہ دارکو باقائدگی سے اداکرتارہتاہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہی صدقات و خیرات اللہ تعالی کے ہاں سے اسکے لیے مزید رزق کی فراہمی کا سبب بنیں گے،انہیں صدقات سے اسکا مال محفوظ ہو گا اسکے نفع میں اضافہ ہو گااور مال و دولت میں برکت اور کثرت واقع ہو گی اور ممکن ہے اسکے صدقات سے مال حاصل کرنے والے خوشحالی کے بعد اسکے تجارتی گاہک بنیں اور اسکا کاروبار مزید ترقی کرے جبکہ سود خورہر وقت دوسروں کی دولت بھی اپنے گھر میں جمع کرنے کی فکر کرتا ہے چنانچہ تجارت سے معاشرے کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ سود سے معاشرے کی اجتماعی دولت میں کمی واقع ہوتی ہے۔تجارت سے مال کی جگہ جگہ چلت پھرت ہو گی،گردش دولت عمل میں آئے گی اور کوئی خریدے گا تو کوئی فروخت کرے گا،زیادہ مال ہوا تو کچھ لوگ مل کر خریدیں گے اور مشترکہ سرمایا کاری کریں گے۔زیادمال ہو گا تو اسکے فروخت کنندہ اور خرید کنندہ بھی بہت ہونگے انکا سرمایا بھی بہت ہو گا اور اسکی گردش بھی بہت ہوگی اور جتنی زیادہ گردش دولت ہوگی اتنی ہی زیادہ شرح منافع بھی معاش کا جزو ہو گی جبکہ سود میں ساری دولت جمع ہوہو کر بہت ہی تھوڑے گنے چنے ہاتھوں میں سمٹنے لگے گی جسے ارتکاز دولت کہتے ہیں،بازارسے سرمایا کم ہوتا ہوتا ختم ہونے لگے گا بازار ویران ہو جائیں گے جسے کساد بازاری کہتے ہیں اور معاشرے کے اندر غربت ڈیرے ڈال دے گی۔

            تجارت سے انسانی معاشرے میں تعلقات کو فروغ ملتا ہے،انسان دوسرے انسان کے منافع کا باعث بنتے ہیں اور انکے درمیان محبت و پیار اور عزت و احترام کا رشتہ جنم لیتا ہے،صدقات سے معاشرے کے طبقات کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں،دولت کا بہت زیادہ فرق ختم ہونے لگتا ہے،بھوکے کا پیٹ بھرنے لگتا ہے تو صحت اور تعلیم کی طرف توجہ خوامخواہ اٹھتی ہے اور تہذیب و تمدن کا ارتقا ہوتا نظر آتا ہے۔معاشرہ پھلتا پھولتا ہے اور انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات کے باعث انسانوں کا معاشرہ واقعی انسانیت سے آراستہ و پیراستہ ہوتا ہے۔سود سے طبقاتی نظام کو تقویت ملتی ہے،انسان دوسرے انسان کے استحصال کا باعث بنتا ہے،منڈی میں غیر فطری مقابلہ کا رجحان پرورش پاتا ہے اور بنک میں شرح سود زیادہ ملنے سے سرمایا دار منڈی سے اپناسرمایا نکال لیتا ہے،اور بنک کبھی غریبوں کو قرضے نہیں دیتا چنانچہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹتی چلی جاتی ہے۔دولت کو خدا بنانے والے معاشرے میں خودغرضی،لالچ،حرص،طمع اور حوس اپنے اپنے پنجے گاڑھ دیتے ہیں اور غربت و افلاس،جہالت اورمعیار زندگی کی نہ ختم ہونے والی دوڑ اس معاشرے کا مقدر بن جاتی ہے۔بھوک اور بیماری سے مارے لوگ جب امیروں کے کتوں اور گھوڑوں کے کھانے اور دوائیاں دیکھتے ہیں تو جلن،کڑھن،حسد،بغض اور دشمنی سینوں میں گھر کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ لوٹ مار،ڈکیتی اور چوری کے ذریعے دولت سمیٹنا چاہتے ہیں اور وہ سودی معاشرہ جرائم کی آماجگاہ بن کر جنگل کا پتہ دینے لگتا ہے۔

            حقیقت یہ ہے کہ اس زندگی کی کہانی اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جانی  بلکہ انبیا علیھم السلام نے اور آسمانی اس بات کی سچی اطلاع دی ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک اور زندگی میں انسان نے جنم لینا ہے جہاں ایماندار تاجروں کو ایسے تاج پہنائے جائیں گے جن کی چمک پر ایک دنیا رشک کرے گی،انہیں اللہ تعالی کا قرب نصیب ہو گا،انکو پاک صاف کر کے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلامتیوں کے ساتھ باغ بہشت میں داخل کر دیا جائے گاجہاں وہ دل پسند زندگی گزاریں گے۔اس طرح کے انعامات کے حصول کی خاطر بزرگ ایسے جائزمنافع سے بھی بچنے کی کوشش کرتے تھے جس میں سود کا معمولی شائیبہ بھی موجود ہو۔کتابوں میں لکھاہے کہ قرض دینے والا مقروض کی دیوارکے سائے میں بھی کھڑانہیں ہوتاتھا کہ مبادا فرشتے اس حصول مفادکو بھی کہیں سود میں شمارکرلیں۔اس کے مقابلے میں سود خوردوزخ میں دھکیل دیے جائیں گے جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آگ کا ایندھن بنیں گے انہیں کھانے کے لیے کانٹے دار جھاڑیاں اور پینے کے لیے انہیں کے جسم پر پھوڑوں سے نچوڑی ہوئی پیپ پیش کی جائے گی جس کی تاثیر سے انکے چہروں سے گوشت پگھل کر اتر جائے گافرشتے آئیں گے اور دبارہ نیا گوشت چڑھا دیں گے عذاب کانہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جائے گا۔

drsajidkhakwani@gmail.com


شیئر کریں: