Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

ردعمل نہ دو، جواب بھی دو۔۔۔۔۔ از قلم ندیم سنگال

شیئر کریں:

Don’t react, only respond”.
آپ کو اپنی زندگی جینے کیلئے بہت سارے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، کچھ فیصلے رسک کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں، کچھ فیصلے لوگوں کی مشاورت سے، کچھ فیصلے کسی جبر کے تحت کرنے پڑتے ہیں جس میں خاندانی دباؤ سر فہرست ہے لیکن ان تمام فیصلوں میں جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ ہمارا رویہ ہے کہ ہم معاملات کو ہینڈل کرنے کیلئے کون سے راستے یا طریقہ کار اپناتے ہیں.
Don’t react, only respond


گوگل کے سی ای او سے جب گوگل کے پینل نے انٹرویو لیا تو ایک واقعہ بتاتے ہوئے سی ای او نے بتایا کہ
” میں ایک مرتبہ ایک ہوٹل میں کھانا کھا رہا تھا کہ سامنے والی ٹیبل پر کچھ خواتین بھی کھانا کھا رہی تھیں، اتنے میں ایک کاکروچ یعنی لال بیگ ان کی ٹیبل پر آ بیٹھا.
خواتین نے چلانا شروع کر دیا اور پورے ہوٹل میں بھگ دوڑ مچ گئی، یہ لال بیگ اب دوسری ٹیبل پر چلا گیا تو وہاں بھی کچھ اسی طرح کا منظر تھا.


میں تجسس کے ساتھ خاموشی سے اس سارے معاملے کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں ہوٹل کا ایک ویٹر آگے بڑھا تو یہ لال بیگ اڑ کر اس ویٹر کی گردن پر بیٹھ گیا.
یہ ویٹر اسی جگہ ٹھہر گیا اور سب سے پہلے اس نے اپنی سانس روک لی، پھر اپنی پاکٹ سے ٹشو پیپر نکالا اور آرام سے اس لال بیگ کو اس ٹشو میں پکڑا اور ہوٹل سے باہر لے کر چلا گیا.
میں نے اس دن سیکھا کہ
” Don’t react, only respond”.


آپ سب کے ساتھ یہ واقعہ شیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ زندگی میں مسائل تو سب کے ساتھ ہی ہوتے ہیں لیکن جو بات اہمیت کی حامل ہے وہ ان مشکل حالات یا پریشانیوں میں ہمارا ” رویہ” ہے.


کچھ لوگ چھوٹی چھوٹی مشکلات پر ہنگامہ کھڑا کر دیتے ہیں، روتے ہیں، ماتم کرتے ہیں، خود کو اذیت دیتے ہیں، الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں، بلا وجہ کا پین لیتے ہیں، خود کو تکلیف دیتے ہیں، نصیب اور مقدر کا شکوہ کرتے ہیں، مختصر یہ کہ لوگ اپنا سارا وقت اسی میں گزار دیتے ہیں اور مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور دن بہ دن طول پکڑ لیتے ہیں.


دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو مسائل پر رونے یا ماتم کرنے کی بجائے اک لمبی اور گہری سانس لیتے ہیں، تنہا بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے تسلی سے سوچتے ہیں کہ آخر ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟
وجوہات جان لینے کے بعد وہ ان مسائل کے حل پر توجہ دیتے ہیں کہ آخر یہ مسائل ختم کیسے ہوں گے؟
اس کے بعد یہ لوگ مسائل کے حل کیلئے اقدامات کرتے ہیں اور بہت جلد ان مسائل سے باہر نکل آتے ہیں.
اب اگر کچھ لوگ یہ کہیں کہ کچھ لوگوں کے مسائل یا پریشانیاں اتنی بڑی ہوتی ہیں کہ انسان چاہتے ہوئے بھی باہر نہیں نکل سکتا، تو آپ لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ
“اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ میں کسی انسان پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا”.

“ہر مشکل کے بعد آسانی ہے”.
حساس ہونے میں کوئی قباحت نہیں مگر ساتھ ساتھ مضبوط ہونا بھی ضروری ہے ورنہ آپ کی حساس طبیعت ہی آپ کا جرم بن جائے گی.


توازن ضروری ہے اور وہ بھی زندگی کے ہر ایک پہلو میں ورنہ انسان راہ پڑے اس پتھر کی مانند ہے جس سے ٹکرا کر لوگ زخمی نہیں ہوتے بلکہ اسے ہٹا کر ایک طرف کر دیتے ہیں یا پھر راہ بدل کر چلے جاتے ہیں اور یہ پتھر جوں کا توں اسی جگہ پر پڑا رہ جاتا ہے.
حساس طبیعت ہونا انسان کے اندر انسانیت موجود ہونے کی دلیل ہے مگر ساتھ ساتھ مضبوط بھی ہونا چاہیے تاکہ برداشت پیدا ہو اور اپنے اچھے برے کا علم بھی ہو اور لوگوں کی شناخت بھی ممکن ہو.
بلا وجہ کا سوچنے سے بہتر ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ اس فیز سے باہر کیسے نکلنا ہے؟
اپنی ڈائری لیں اور تنہا بیٹھ کر وہ سب لکھیں جو آپ کو پریشان کرتا ہے.
پھر اس سب کی وجوہات سوچیں کہ آخر آپ کے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے اور اس سب میں آپ کا کتنا قصور ہے؟؟؟؟ ؟؟


اپنی غلطیوں کی نشاندہی کریں اور اسے بہتر بنانے کے طریقے تلاش کرتے ہوئے اس پر کام شروع کر دیں.
اکثر ٹرکوں کے پیچھے یہ جملہ لکھا ہوتا ہے کہ
“کراس کر یا برداشت کر” .
فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے کہ کراس کرنا ہے یا برداشت کرنا ہے؟؟؟
اگر کراس کرنا ہے تو آگے کا لائحہ عمل بھی تیار کریں کہ کراس کرنے کے بعد کسی راستے پر چلنا ہے، کس گاڑی پر سوار ہونا ہے.
اگر برداشت کرنا ہے تو کیا برداشت کرنے کے قابل ہیں؟ بہتری کی کوئی گنجائش باقی ہے یا ساری زندگی کا سمجھوتہ ہی مقدر بننا ہے؟
سب کچھ سامنے رکھ کر فیصلہ کریں مگر یاد رکھیں
Don’t react, only respond.


شیئر کریں: