Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

تنقید کی نذر چترال یونیورسٹی ہی کیوں؟ ۔۔۔۔تحریر : اخون عباس

شیئر کریں:

زیور تعلیم سے خود کو آراستہ کرنا کسے نہیں پسند –یہ تعلیم ہی ہے جو آپکو دوسروں سے ممتاز رکھتی ہے ،معاشرے میں آپکو مقام دلاتی ہے۔ اپکا رہن سہن،اپکا رویہ، لوگوں کے ساتھ آپکے تعلقات،معاشرے میں اچھے اور برے لوگوں کے ساتھ صحبت، اصلاحی اور فلاحی کاموں میں اپکا کردار ، یہ ساری باتیں سمٹ کر زیور تعلیم کی چھتری تلے اپنا عاشیانہ بناتی ہیں اور اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ کتنے گھونٹ مشک تعلیم سے اپنی شدت تشنگی بجھانے کیلئے آپ نے پی لی ہے۔۔اپکا تعلق چاہے جس بھی قوم،قبیلہ،  جماعت ، مسلک ، یا مذہب سے ہو لیکن یہ واحد زیور ہے جو اپکی شخصیت میں نکھار لاتا ہے اور معاشرے کی نظروں میں آپکو ہمیشہ اونچا رکھتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ انہی اقوام نے ترقی کیں ، جنہوں نے تعلیم کو اپنے لئے ناگزیر سمجھا اور سائنسی طریقہ کار کو اپنا کر ترقی کی منزلیں طے کرتی گئیں اور آج عالَم یہ ہے کہ یہی اقوام دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں۔۔

chitral university uoc


زمانہ قدیم سے دور حاضر تک ہر متمدن و مہذب معاشرہ علم کی اہمیت سے واقف ہے۔ فطرت بشری سے مطابقت کی بنا پر اسلام نے بھی علم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت کا اندازہ سرکار دو عالَم حضرت محمّد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی یں احادیث مبارکہ سے لگایا جاسکتا ہے ، فرماتے ہیں، ” علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے “ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں،”علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین بھی جانا پڑے “پیغمبر صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کے نزدیک تعلیم کی اہمیت کا یہ عالَم تھا، جب غزوہ بدر کی قیدیوں کی رہائی کیلئے فدیہ کی رقم مقرر کی گئی تھی ان میں سے جو نادار تھے وہ بلا معاوضہ ہی چھوڑ  دئے گئے لیکن جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں گے تو چھوڑ دئے جائیں گے۔ چنانچہ سیدنا زید بن حارثؓ جو کاتب وحی تھے اسی طرح لکھنا سیکھا تھا۔ پس ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ تعلیم کی کیا اہمیت ہے اور ان کا حصول کتنی ضروری ہے۔


تمہید خیر کافی ہوگئی اب بڑھتے ہیں اصل مدعے کی جانب — چترال بظاہر ایک پسماندہ علاقہ ہے اور خیبر پختونخوا کا یہ ضلع ہمیشہ سے ہر طرح کی سہولیات کا فقدان رہا ہے لیکن یہ پسماندگی کبھی بھی یہاں کی باسییوں کا  تعلیم سے خصوصی لگاؤ میں کمی نہیں آنے دی۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے چترال %98 کے ساتھ kpk کا سب سے ہائی لیٹریٹ ضلع ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں میل اور فیمیل انرولمنٹ ریٹ دونوں برابر ہیں۔ یہاں کی عوام معاشی لحاظ سے کمزور ضرور ہیں مگر بات اگر بچوں کے تعلیم کی ہو تو محنت مزدوری کر کے بھی اپنے بچوں زیور تعلیم سے آراستہ کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔


2013 کے بعد جب kpk میں PTI کی حکومت آئی تو عوام نے حکومت کی تعلیم دوست پالیسی ک فائدہ اٹھاتے ہوئے چترال کیلئے ایک full fledged یونیورسٹی کا مطالبہ کیا جسے بعد ازاں PTI گورنمنٹ نے 2017 میں سنگ بنیاد رکھ کر عوام سے کیا ہوا ہوا اپنا وعدہ نبھایا۔چترال یونیورسٹی میں اب تک گیارہ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں قریباً دو ہزار طلباء و طالبات بی ایس اور ماسٹرز کے پروگرامز سے استفادہ کر رہے ہیں ۔جامعہ چترال کو بظاہر ایک نوزائدہ ادارے کی حیثیت سے بالعموم انفراسٹرکچر باالاخصوص دیگر کئی مسائل کا سامنا ہے جو کہ مملکت خداداد میں کوئی انہونی بات نہیں ۔۔یہاں میں اپکی توجہ اصل مسئلے کی جانب مبزول کرانا چاہوں گا جو چترال یونیورسٹی کو لیکر ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی غیر منتقی سوچ اور بلا وجہ تنقید نگاروں کا ہے جو معمولی ایشو کو بھی بڑھا چڑھا کر تنقیدی تیروں کا رخ جامعہ چترال کی جانب موڑنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگاتے۔ کبھی “آزاد خیالی” کا طعنہ دیتے ہیں تو کبھی “کو ایجوکیشن ” کے خلاف ہرزہ سرائی پر اتر آتے ہیں ۔مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ ایسے لوگ واقعی میں کچھ نہیں جانتے یا جان کر بھی انجان بنتے ہیں کہ کتنے ایسے ہونہار  طلباء و طالبات جو آنکھوں میں ایک روشن مستقبل ک خواب تو سجاتے ہیں لیکن درپیش مالی مشکلات اور دور کسی شہر میں جا کر پڑھنے کے خوف سے بیچ راستے میں ہی اپنے سہانے خوابوں کا گلا گھونٹتے ہیں یوں ہر روز کسی نہ کسی کے خواب ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں، حوصلے ٹوٹ جاتے ہیں اور امید کی کرنین مانند پڑ جاتی ہیں لیکن ان طعنہ ذنون کا کیا یہ تو ہر اچھائی میں بھی برائی کے کیڑ ے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔۔۔


پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظروں کے سامنے سے گزری جس میں جامع چترال کے مونوگرام کے ساتھ یہ تحریر درج تھی کہ ” نسلیں تباہ “اور ہمارے سوشل میڈیا کے نام نہاد اسٹارز اس پوسٹ کو ایسے شئیر کر رہے تھے جیسے آجکل گل اکبر کی ہر نئی آنے والی ویڈیوز کا کیا جاتا ہے ۔اسے ان لوگوں کی بد نظری ، کم ظرفی ، بد تہذیبی، بیوقوفی سمجھوں یا کچھ اور؟ اللّه اللّه کر کے ایک یونیورسٹی ملی ہے اور کئی اور منزلیں اس نے ابھی طے کرنی ہے، بجائے اس کے کہ مل جل کے اسے کامیاب بنائیں ہم الٹا اسکی بربادی پر تلے ہوئے ہیں۔ جامعہ چترال کو “لبرلزم” اور “نسلیں تباہ ” کے القابات دینے والوں سے میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ، اپنے گھر کی دہلیز پر عزت و وقار کے ساتھ پڑھنے سے نسلیں تباہ جبکہ گھروں سے دور، نظروں سے اوجھل  دوسرے شہروں میں جاکر  پڑھنے سے نسلیں آباد۔۔ ہماری بہنیں، بیٹیاں شام تک پڑھائی کے بعد اپنے گھر پہنچیں تو نسلیں تباہ، جبکہ دوسرے شہر جاکر لبرلیزم کا لبادہ اوڑھ کر  ثقافت، روایات و اقدار  کی دھجیاں اڑانے سے نسلیں آباد۔۔ہم کس ڈگر پر جارہے ہیں، کہنے کو تو ہم شرح خواندگی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا میں سب سے آگے ہیں لیکن ایک تعلیم یافتہ شہری کیلئے میں اب بھی ہم کوسوں دور ہیں اور تنگ نظری ہم میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا ہے اور ہماری سوچ گاؤں کے اس پرانے ویران نما کنواں میں اٹکی ہوئی ہے جہاں سے اس نے نہ کبھی نکلنے کی کوشش کی ہے اور نہ شاید کبھی نکلے گی۔ 


جس یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے اسی یونیورسٹی کا میں فرسٹ بیج کا سٹوڈنٹ یعنی (Pioneer student) ہوں جس نے ابھی ابھی  انگلش لیٹریچر میں ماسٹرز مکمل کرلی ہے۔ بحیثیت طالب علم جس ماحول کی بات کی جارہی ہے اس میں، میں نے دو سال گزارے ہیں، جس طرح پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ٹھیک اسی طرح ہر معاشرے میں اچھے اور برے لوگ ضرور ہوتے ہیں۔کسی ایک کی غلطی کا ملبہ ساروں پر ڈالنا یہ کہاں کا انصاف ہے ۔یقین جانیں بہت سے سٹوڈنٹس میں (میل ،فی میل ) سنجیدگی ،شائستگی اور اخلاقی اطوار میں نے ایسے پائے،  جن پر صرف رشک ہی کیا جاسکتا ہے۔۔جامعہ چترال کے پروفیسر صاحبان کی کچھ بات کرتے ہیں ۔۔عموماً ہوتا یوں ہے کہ بیشتر جامعات میں پروفیسر صاحبان دی گئی کورس کے credit hours پورا کرکے نکل جاتے ہیں سٹوڈنٹس کو لیکچر کی سمجھ آئی یا نہیں اس سے انکا پھر کوئی غرض نہیں ہوتا، لیکن یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے، ان دو سالوں میں جامعہ چترال کے فیکلٹی ممبرز کو سٹوڈنٹس کیساتھ کسی پرائیویٹ سکول کے اساتذوں کی طرح جتنی محنت کرتے ہوئے میں نے پایا ہے شاید ہی کہیں اور کرتے ہونگے۔۔۔ ان دو سالوں میں سینکڑوں بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ ” جامعہ چترال میں ہی داخلہ کیوں لیا؟ تم۔ اگر چاہتے تو کسی اچھی یونیورسٹی میں جاسکتے تھے ؟ تو میرا ہمیشہ سے یہ جواب رہا ہے کہ پڑھنا آپ نے ہے کسی یونیورسٹی نے نہیں۔پڑھائی سے شوق رکھنے والا چاہے تو گھر میں بھی پڑھ سکتا ہے ۔کئ ایسی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جو پرائیویٹ تعلیم کے ساتھ سی ایس ایس آفیسرز ہیں۔ کیا فائدہ اس نامی گرامی یونیورسٹی میں ایڈمشن ملنے کا جب تم میں پڑھائی کا شوق ہی نہ ہو۔ مجھ  جیسے کئی سٹوڈنٹس ایسے ہونگے جنہیں اپنے فیصلے پر اج واقعی میں فخر محسوس ہورہا ہوگا کیوں کہ ہم اپنی ہی یونیورسٹی سے فارغ الالتحصیل ہوئے۔۔


یونیورسٹی جانے والے کسی بھی سٹوڈنٹ کے اخلاقی اطوار اور تربیت کے حوالے سے اس ادارے کو باعث الزام ٹھرانا سمجھ سے بالاتر  ہے، کیونکہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے والا اب بچہ نہیں رہتا بلکہ ایک پختہ خیالات کا حامل انسان بن چکا ہوتا ہے۔ ان کے رویے اور انکی شخصیت میں اپکی بحیثیت والدیں تربیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے اگر صحیح معنوں میں آپ نے اپنی اولاد کی تربیت کی ہوئی ہوتی ہیں تو مجال ہے کہ وہ آپکے منتخب کردہ راستے سے ہٹ جائے اگر نہیں تو مجبوراً اپنی ناکامی کا ملبہ کسی اور پر ڈالنا پڑتا ہے ۔۔اولاد کی تربیت میں ماں ک کردار بڑا  اہم ہوتا ہے کیوںکہ اولاد کی پہلی درسگاہ ماں کی گود سے شروع ہوتی ہے، اسلئے تعلیم نسوان کی اہمیت و افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔آپ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے خواتین کی تعلیم کے بارے میں ارشاد فرمایا،” جس شخص نے ایک یا ایک سے زیادہ بیٹیوں کو تعلیم دی اور اچھے طریقے سے انکی پرورش کی تو وہ جہنم کی آگ سے دور رہے گا “کسی ک قول ہے کہ،” ایک شخص کو تعلیم دینا صرف اسی کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک عورت کو تعلیم دینے کا مطلب پورے خاندان کو تعلیم دینا ہے”اسی طرح نیپولین نے بھی کہا تھا،” آپ مجھے اچھی مائیں دیدو میں تمہیں اچھی نسلیں دونگا “اس دعا کیساتھ اس تحریر کا اختتام کریں گے کہ اللّه جل شانہ ہماری یونیورسٹی کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب کرے۔ آمین۔ 


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
42072