Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

افسانہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صوفی محمد اسلم

شیئر کریں:

ملک خداداد سے متعلق ایک جملہ بہت مشہور ہے۔ کوٸ بھی کام غلط ہو تو فوراً کہہ دے یار ”یہ پاکستان  ہے چلے گا“۔  سمجھ لیجیۓ کہ تسلی کیلۓ یہ طلسمی منتر ہے۔ہوا کچھ یوں کہ یہاں کچی سڑک کی نگرانی اور مرمت کیلۓ  محکمے کی طرف سے 2/3ملازمین مقرر ہوتے ہیں.جنہیں مقامی لوگ سراکی کہتے ہیں ۔ اکثر یہ لوگ سڑک کے کنارے کام کرتے ہوۓ یعنی چاۓ بناتے اور پیتے ہوۓ نظر اتے ہیں۔ کالج کے زمانے میں آتےجاتے ہوۓ  ہم بھی چاٸے نوش فرماۓ ہیں ۔

ان دنوں شاید کسی نے  اے سی صاحب سے اس چاۓ  کی کچھ زیادہ ہی تعریف کی ہوگی نوش فرمانے کی خواہش ہوٸ۔ فوراً پہنچگۓدیکھا کہ حسب معمول  چاۓ بنانے میں مصروف ہیں۔ پراٸیویٹ گاڑی تھی کھڑی کی بدقسمتی سے چاۓوالے معاف کیجیۓ گا سراکی پہچان نہ سکے اور چاۓ کی افر نہ ہوٸ تو صاحب مایوس ہوکر اگے چل دی۔ 2گھنٹے کے بعد واپس ایا تو دیکھا پھر چاۓبنارہے ہیں اور ایک شخض مقامی لطیفہ سنارہا ہے اور باقی چاۓ پیتے ہوۓ زور زور سے قہقہے لگارہیں۔ راہگیر بھی خوشگوار ماحول انجواٸ کررہے ہیں۔ اے سی صاحب کیسے پیچھے رہتا وہ بھی ساتھ ہولیا۔ صاحب نے حال احوال پرکنے کے بعد پوچھا آپ لوگ کام کم چاۓ زیادہ پیتے ہوکیوں کوٸ تم سے پوچھتا نہیں کیا۔ اور کیا کہنا تھا چاۓ کے ایک گھونٹ لی دہرادیں محاورہ” پاکستان ہے یار چلے گا“۔ پھر سے فضا میں قہقہے بلند ہوٸ ۔یہ سن کر اے سی صاحب بھی ایک شرارت سوچا قہقہا لگاتے ہوۓ کہنے لگا آٸیں کام اور چاۓ تو ہوتے رہنگے پاکسان جو ہے۔ ٹاٸم ہے اور گاڑی بھی٬ چکر لگاتے ہیں۔اب یہ کہنا ہی تھا چھلانگ لگاکر بیلچے گاڑی کے ڈیگی میں پھینگ دیۓ اور چھڑ کر بیٹھ گۓ۔  صاحب ڈراٸیور سے کہا لانگ ڈراٸیونگ پر چلیں۔ ڈراٸیور دبے  مسکراہٹ لیۓ گاڑی کا رح پُتیان کی طرف کر لیا۔

خوشگوار ماحول میں کوٸ 3گھنٹے کی مسافت طے کرکے پُتیان کے دور دراز گاٶں پہنچ گۓ ۔ اب ان کو یہ فکر ہوٸ کہ دیر ہوگیا  ہم کب گھر پہنچینگے۔ واپس 3 گھنٹے اور سفر کرنا جو تھا۔ سورج بھی ہستے مسکراتے دبے پاٶن مسکن کی طرف جارہی تھی ۔ مگر اے سی صاحب بے فکر بیٹھا سگريٹ نوش فرمارہے تھے۔ ہوا کھانے کے بہانے گاڑی کھڑی کی نیچھے اترااور انہیں بھی اترنے کو کہا۔ جوں ہی وہ نیچھے اترے صاحب واپس بیٹھ گیا اور ان سے مخاطب ہوا اب ہم چلتے ہیں۔ یہ سنتے ہی خوش باش چہروں میں پریشان سی لہر دوڑنے لگی۔ حیرانگی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ کہنے لگے یار اپ کہاں جارہے ہیں۔ ہمیں یہاں چھوڑ کر ۔ صاحب جواب دیا میں تو گھر جارہا ہوں پر اپ فکر نہ کریں ” پاکستان ہے چلے گا“۔ گاڑی ٹرن کی زور زور سے قہقہا لگاتے ہوۓ  روانہ ہوۓ۔ان کے کانوں میں صاحب کے قہقہوں کی اواز دیر تک گونجتی رہی۔ انہیں اپنے غلطی کا احساس ہوگیا تھا کہ ہر مسکرانے والا دوست نہیں ہوتا ۔  بیچارے10گھنٹے مسلسل پیدل سفر کرکے تھکے ہارے گھر پہنچ گۓ۔

دو دن بعد تنخواہ لینے دفتر گۓ تو کیشر صاحب انہیں دیکھ کر لپکا گلے لگا کر ہستے جارہے تھے۔ہنسی دیکھکرجان چھوڑاتے ہوۓ تنخواہوں کا مطالبہ کیے تو کیشر نے کہا اپ کے تنخے ایکسن صاحب کے پاس ہے دفتر جاکر لے لو ۔ تو کیا دیکھتے ہیں دفتر میں وہی بندہ بیٹھا ہے۔ اے سی اور ایکسن صاحب انہیں دیکھ کر  زوردار قہقہے لگایے اور یک زبان ہوکر کہنے لگےاٸیں ”پاکستان میں کیا چل رہا ہے“۔ ایک بار پھر سے فضا قہقہوں سے گونج اٹھا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41962