Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

افغانستان سے امریکی روانگی کے خطے پر اثرات۔۔۔۔۔پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:


9/11 کے بعد افغانستان پرامریکی جارہیت نے خطے میں جغرافیائی، سیاسی اور معاشی اثرات مرتب کیے۔افغانستان روس کی طرح امریکہ کے لیے بھی قبرستان ثابت ہوا اور امریکہ کو یہاں سے کوچ کرنا پڑا۔ امریکی آمد کی طرح اس کی افغانستان سے روانگی بھی خطے کے حالات کو ایک نیا رخ دے گی۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ اس کے پڑوسی ممالک کو بھی اس تبدیلی کے دھچکے محسوس کرنے پڑیں گے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک امریکہ طالبان جنگ کے دوران کافی عرصے سے سیاسی، معاشی، دفاعی اور جغرافیائی کنڑول حاصل کرنے میں صف آراء تھے مگر کسی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ روس،چین، ایران، عرب ممالک، پاکستان اور انڈیا اس دنگل کے مرکزی کھلاڑی شماری ہوتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی روانگی سے امریکہ پاکستان تعلقات میں بھی ایک نیا موڑ آئے گاجس کی ایک مثال حالیہ امریکہ بھارت دفاعی معاہدہ ہے اور امریکہ پاکستان تعلقات میں ایسے نشیب و فرازآتے رہیں گے۔ امریکہ بھارت قربتیں محض چین کو روکنے کے لیے ہیں ورنہ امریکہ کو جنوبی ایشیا میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی کیونکہ اسے یہاں سے کسی فوری حملے کاخطرہ نہیں ہے اور نہ ہی جنوبی ایشیا امریکی مفادات کے لیے کوئی بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت نوازی سے امریکہ نہ صرف پاکستان کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرے گا بلکہ افغانستان پر اس کی گرفت بھی کمزور ہو جائے گی۔ افغانستان سے امریکی کی روانگی اگر پاکستان کے کردار کے بغیر ممکن ہوتی تو امریکہ کبھی بھی پاکستان کی مدد نہ لیتا۔ افغانستان میں بھارتی کردار محض پاکستان مخالف سازشوں تک محدود ہے اور بھارت افغانستان سے امریکی روانگی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔ بھارت افغانستان اور اپنے دیگر ہمسایہ ممالک کو کمزور کر کے جنوبی ایشیاء میں چمپیئن بننے کا خواب دیکھ رہا ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ یہ بات تو امریکی حملے سے ہی عیاں تھی کہ امریکہ نے افغانستان میں رکنے کے لیے نہیں بلکہ اپنے اہداف کے حصول کے لیے مہم جوئی کی تھی جو دو طرح کے تھے ایک واضع اور اعلانیہ اور دوسرے خفیہ مقاصد۔ چین بھارت کشیدگی بھی امریکی سپانسرڈ ہے اور امریکی کی روانگی کے بعد صورتحال مختلف ہو گی۔ امریکہ چین کی توجہ کو تقسیم کرنے کے فارمولے پر کاربند ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بھارت کو اکساتاہے، تائیوان کو اسلحہ کی فراہمی اور چین امریکہ تجارتی جنگ اس پالیسی کو حصہ ہیں۔چین مخالف اصل جنگ معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں لڑی جا رہی ہے۔ افغانسان سے امریکی روانگی سے مسئلہ کشمیر طوالت پکڑے گا اور اس میں کوئی غیر متوقع تبدیلی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ عقلمندی کا ثبوت یہی ہے کہ پاکستان سات سمندر پار کے بجائے اپنے ہمسایہ ممالک سے قربتیں بڑھائے تاکہ بوقت ضرورت بیڑوں کا انتظار کرتے کرتے آنکھیں مند نہ ہو جائیں۔سی پیک بھی امریکہ اور بھارت کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے۔ سی پیک کو ایشیا کا ٹروجن ہارس کہا جا تا ہے جس کی بدولت پاکستان معاشی اور دفائی اعتبار سے امریکی انحصار تک محدور نہیں رہا۔ سی پیک کی وجہ سے اب امریکہ ہمارے سر پر معاشی تلوار نہیں لٹکا سکتا اور سی پیک امریکہ اور بھارت کو ایک آنکھ نہیں بہاتا۔ امریکہ بھارت نوازی سے خطے کے امن کو خراب کررہا ہے اگرچہ امریکہ کا ہدف بھارت کی مضبوطی نہیں بلکہ بھارت کو چین کے خلاف کھڑا کرنا ہے جوکہ اتنا آسان نہیں ہے۔ امریکی روانگی کے بعد افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی کا خدشہ موجود ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے اثرات جنوبی ایشیا کے تمام ممالک پر پڑیں گے اور ہمسایہ ممالک پر اس کا اثر کہیں زیادہ ہو گا۔ جنوبی ایشیا کی ترقی کے لیے پرامن افغانستان ناگزیر ہے۔بھارت کی اپنے ہمسایہ ممالک سے نبرد آزمائی کی وجہ سے پاکستان افغانستان میں کلیدی کردار کا حامل ہے۔ امریکی روانگی کے بعد خطے میں سیکورٹی کے مسائل جنم لیں گے حتی کہ چین اور روس پر بھی اس کے شدید اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں تک پاکستان کے ایران اور سعودیہ کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو پاکستان کا جھکاو ایران کی نسبت سعودیہ کی طرف رہا ہے۔افغانستان میں ایران اور سعودیہ کا اثر رسوخ بھی کافی حد تک ہے، یہ رسہ کشی کہیں افغانستان کو ایک بار پھر خانہ جنگی میں نہ جھونک دے۔ امریکہ کو بھارتی نوازی کے ساتھ بھارتی نیوکلیائی ہتھیاروں اور ان میں استعمال ہونے والے مواد پر بھی نظر رکھنی ہو گی تاکہ امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا ئے۔ امریکہ کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے تحت افغانستان سے روانہ ہو رہا ہے۔ کشمیر پر ثالثی، دفاعی امداد کی بحالی اورایفیٹیف میں کردار کی وجہ سے امریکہ طالبان مذاکرات ممکن ہوئے ہیں۔امریکی روانگی کے بعد جنوبی ایشیاکا دیرینہ مسئلہ کشمیر پر دوایٹمی طاقتوں میں کشیدگی بڑھ جائے گی جو کہ 370اور35A کی منسوخی کے بعد خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ افغانستان سے امریکی روانگی ٹرمپ کی ایک سیاسی چال بھی ہے جس کے زریعے وہ دوبارہ امریکی صدارتی الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔مستقبل قریب میں پاک بھارت آبی جنگ بھی خارج ازامکان نہیں ہے کیونکہ بھارت مسلسل دریاوں پر بند ھ باندھ رہا ہے۔ افغانستان میں کلیدی کردار ادا کرنے کی وجہ سے پیدا ہونی والی کسی بھی صورت حال سے پاکستان شدید متاثر ہو گا۔پاکستان نے پہلے ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمارجانی و مالی قربانیاں دی ہیں جس کے بدلے میں امریکی طرز عمل غیر تسلی بخش رہا ہے۔افغانستان سے جانے کے لیے امریکہ کو کلی فاتحانہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔ ان سارے حقائق کے پیش نظر خطے میں امریکہ کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے کیونکہ اب پاکستان معاشی اور دفاعی اعتبار سے امریکی انحصارتک محیط نہیں رہا۔ یہ وقت کا تقاضہ ہے کے جنوبی ایشیا کے ممالک کو متحد ہو کر ایک نیا بلاک بنانا چاہیے جو سب کے مفاد میں ہو اورخطے سے بیرونی طاقتوں کے سامنے ایک دیوار بن جائیں۔ پاکستان، چین، ایران، روس،بنگلہ دیش، مالدیپ اور دیگر ممالک باہمی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔ انڈیا اس بلاک کا حصہ نہیں بن پائے گا کیونکہ اس نے ہر کسی کے ساتھ بگاڑ پیدا کر رکھا ہے۔ یہ بلاک نہ صرف باہمی مفادات کے لیے کام کرے بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والی سیکورٹی کی صورتحال پر بھی متحدہ طور پر کام کرے۔افغانستان سے امریکی روانگی کے ساتھ ہی انڈیا کا طلسم ٹوٹ جائے گا اور اسے یہ کہاوت بہت یاد آئے گی۔ دریا میں رہنا اور مگر مچھ سے بیر۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41751