Chitral Times

Apr 25, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

عجیب دعوی….. تحریر: اقبال حیات اف برغذی

شیئر کریں:

ہمارے قومی رہنما جب زیادہ سرور کی کیفیت میں ہوتے ہیں تو ہمیں خوددار قوم کے لقب سے نوازتے ہیں۔ حالانکہ بحیثیت قومی نمائندہ ان کے وجود کو کریدنے سے بھی اس لقب کے آثار کہیں نظر نہیں آئینگے ۔ یہ ایک ایسی صفت ہے ۔ جس کے حصول کے لئے آنکھوں  کو اپنی ذات تک مرکوز رکھنا ہوگا۔ اور دوسروں کے سہارے جینے پرموت کو ترجیح دینا ہوگا۔اسی طرح اوروں کے سامنے جھک کر زندہ رہنے کی بجائے سینہ تان کر پھانسی کے پھندے کو گلے میں ڈالنا ہوگا۔

بدقسمتی سے “ملک نازک حالات سے گزررہا ہے” کے الفاظ ہمارے اس عظیم ملک کے دامن سے لپٹے ہوئے ہیں۔ ہر حکمران ا س دھائی کے ساتھ مسند اقتدار سنبھالتا ہے۔ اور ان کے گلے سے اغیا رکے سامنے پھیلائے جانے والے کشکول کا ناطہ ٹوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ بیساکھیوں کے سہارے جیتے ہوئے خودداری لفظ کا جامہ زیب تن کر نا انہونی تصور لگتا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ کہ خودداری کو مسلمان کی اساسی کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ مذہب اسلام ایک ہی ذات سے امیدوں کی برآوری پر یقین کامل رکھنے اور دونوں جہانوں کو سنوارنے اور بگاڑنے  کی طاقت کے مالک ہونے پر اعتقاد کا درس دیتا ہے۔

خودداری کو جلا بخشنے میں اجتماعی فکروخیال او ر سوچ کی تاثیر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر من حیث القوم اجتماعی قومی سوچ کی بجائے۔ ہم پر انفرادی فکر وخیال کا جنون سوار رہتاہے۔ باہمی محبت  اور اخوت  کی رسی کو مظبوطی  سے تھامنے کی بجائے قومیت،علاقائیت،زبان،مسلک اور دیگر فروغی اختلافات کو ہوا دے کر باہمی منافرت کی فضا پیدا کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ہم سیاست کو عداوت ،دشمنی اور بعض وعناد کا رنگ دے رہے ہیں۔ اپنے مذہبی اقدار کی پاسداری کو مغرب کی خودساختہ تہذیب سے متصادم تصور کرکے شرم محسوس کرتے ہیں۔ بدعنوانی،لوٹ کھسوٹ ،رشوت ستانی اور اقرباء پروری کی خباثت سے معاشرتی زندگی کو متعضن  کردیئے ہیں۔ ملک کی ترقی اور استحکام کا راز مظبوط معیشت سے مربوط ہونا ایک مسلمہ حقیقت ہے۔اور دنیا میں بڑی بڑی سلطنتین معیشت کی ابتری کے سبب زوال پذیر ہوئی ہیں۔ اور ان کی عسکری قوت انکی گرتی ہوئی ساکھ کو نہ بچا سکی ہیں۔ ناقص معاشی پالیسیوں اور بدعنوانی نے ہماری قومی معیشت کو دھیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور ہم مالیاتی اداروں کے قرضوں تلے سسکتے ہوئے معاشی پالیسی بناتے ہیں۔ اور انکی طرف سے دی جانے والی تجاویز کو رہنما اصول کے طور پر اپناتے ہیں۔

نظام تعلیم ہماری قومی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ ہم پر ہر وقت دوسروں کا خوف سوار رہتا ہے۔ اور اغیار کی طرز زندگی کو کامیابی کا ضامن تصور کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار  سے ہم من حیث القوم دنیا میں جس مقام کے مالک تھے۔ وہ صرف تصورات کی بنیاد پر نہیں تھا۔ بلکہ

                                                مٹایا قیصر وکسری کے استبداد کو جس نے

                                                وہ کیا تھا زور حیدر فقربوزر صدق سلمانی

اگر ہم اپنے آپ کو مذکور ہ اوصاف   سے مزین کریں گے توخود داری کا تاج ہمارے سروں پر جھگمگا تا نظرآئے گا۔ بصورت دیگر خالی دعویداری این خیال است ومحال است وجنون کے مصداق ہوگا۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41541