Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معاشرتی رواداری جمہوریت کے ساتھ۔۔۔۔تحریر اکرم شاہ بیگل جی بی

شیئر کریں:

معزز قارئین انسان معاشرے کا اہم رکن ہے. جس کی وجہ سے ہی معاشرے کا وجود ممکن ہے. ایک منظّم اور مستحکم معاشرے کی تعمیر میں ہر فرد کے کاندھے پر زمہ داری عائد ہوتی ہے. ان زمہ داریوں کو پورا کرنے میں بہت زیادہ مشکلات راستے میں حائل ہوتی رہتی ہیں. ان رکاوٹوں سے نبرد آزما ہو کر ہی بحیثیت معاشرتی حیوان اپنی وجود کو برقرار رکھنا ممکن ہے. معاشرہ انسان کو رہنے کے لئے ہر وہ ماحول پیدا کرتا ہے جو ضروری ہے. بحیثیت معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تمام لوگ بقا کی خاطر جدوجہد مسلسل میں لگے رہتے ہیں جس کا نام زندگی ہے اور یہ نعمت خداوند کی عنایت اور مہربانی سے ہی ممکن ہے. معاشرے کی بقا وہاں کر باسیوں کی مشترکہ کاوشوں پر مضمر ہے. ایک مثالی معاشرہ کو قائم و دائم رکھنے کی سعی ہر وہ شخص کرتا ہے جو زی شعور ہے. اس کے پیچھے بہت سے محرکات ہیں کہ کوئی بھی شخص ایسے معاشرے میں جینا گوارہ نہیں کریگا جہاں بے امنی کا راج, جہاں انسانوں کی بنیادی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کریں. انسانوں کی آپس کی محبت اور رواداری ہی وہ عمل ہے جو کسی بھی تباہ حال معاشرے کی مثبت تشکیل نو میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتی ہے.

بات موجودہ حالات میں انتخابات سے  قبل کی مجموعی حالات کا بغور مشاہدہ اگر کیا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتا ہے کہ لوگوں میں اپنے پسندیدہ انتخابی  امیدواروں کی حمایت کی اڑ میں معاشرتی اقدار کی پامالی جاری ہے. بات سب جمہوریت کی کررہے ہیں لیکن کوئی جمہوریت کے حسن تک پہنچنے سے قاصر ہے. جمہوریت میں یہ ہوتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی انتخاب اپنی مرضی سے کرنے کی اجازت ہے. جمہوریت برداشت کا دوسرا نام جمہوریت میں ہر کسی کی رائے کا احترام کرتا ہے. یہاں تو ہر بندہ دوسروں کو اپنی عینک سے دیکھنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ جو وہ سوچ رہا ہے ہر کوئی وہی سوچے یہ جبراً ممکن ہے لیکن جمہوری اقدار کی پیروی کرتے ہوئے ناممکن ہے. بعض عناصر ان حالات میں معاشرے میں پہلے سے موجود رواداری, محبت اور بھائی چارگی کے خوبصورت اور فائدے مند اقدار کو نقصان  پہنچا کر آپے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لئے اپنی ہر ممکن کوشش کرتا رہتا ہے. یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی سیاسی بندے کو منتخب کریں.

ترقی پذیر ممالک میں یہ عمل گفت و شنید اور سوال و جواب سے انتخاب کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل کے حوالے سے ان نمائندوں منشور اور ترجیحات کا بغور معلومات عوام کو معلوم ہو تاکہ ان کی انتخاب میں شفافیت برقرار رہے. لیکن اپنے یاں حال کچھ مختلف ہے یہاں جذبات ,ذات, علاقہ پرستی اور فرقے کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہیں. ان عوامل کو پروان چڑھانے غیر سیاسی عوامل کا سیاسی معاملات میں دخل اندازی ہے تاکہ وہ اپنے ذاتی مقاصد کی تکمیل ممکن بناسکیں. اگر ہم سیاسیات کو ذاتی انا اور اپنے مقاصد کی تکمیل کو ملکی اور علاقائی مفادات پر ترجیح دینگے تو پھر ہم مجموعی طور پر ترقی کے عمل سے دور ہوتے جائنگیں  یوں بس ہمارے زہنوں میں مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا. مجموعی طور پر ہر فرد اپنے شعبے میں ترقی کی خاطر سوچے اور سیاسی معاملات ان سیاسی افراد تک ہی محدود رکھیں نہ کہ زاتی مسلہ تصور نہ کریں تو پھر نہ رشتے منقطہ ہونگے نہ ناراضگی بڑھے گی بلکہ شعوری طور پر منظم اور مستحکم سیاسی شخصیات رہنمائی میسر ہوگی اور ضرور ترقی اور استحکام کا سفر بلا جھجک رواں دواں رہے گی. اسطرح قابل ذہین اور سیاسی بصیرت کے حامل نمائندے ہی قوم کی ترجمان ہوگی اور صحیح معنوں میں لوگوں کی بنیادی حقوق کی خاطر فورمز پر آواز بلند کریگی اگر اس کے برعکس ہم آج ہم فیصلہ ذاتیات, فرقہ, زبان اور علاقہ پرستی کی طرف مائل ہونگے تو ہم بیشک کسی امیدوار کو کامیاب کرسکتے ہیں لیکن ہم مستقبل کے لیڈر جو قوم کی صحیح معنوں میں رہنمائی کریں انتخاب نہیں کر سکیں گے. ووٹ ضرور کسی نہ کسی نمائندے کو دے لیکن اپنوں کی ناراضگی کا باعث نہ بنے. کیونکہ باہمی رواداری اپنوں میں رہ کر ہی ممکن ہے. شکریہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
41291