Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

بحثیت ووٹر ایک شہری کی زمہ داری…..شاہ عالم علیمی

شیئر کریں:


اگر اپ مجھ سے پوچھ لیں کہ ایک فرد/شہری پر ایک قوم کا سب سے اہم حق کیا ہے تو میں اپ کو بتا دونگا کہ ایک شہری پر قوم کا حق ووٹ اور ووٹ کا صیح اور سوچ سمجھ کر استعمال کرنا ہے۔ یہ ووٹ ہی ہے جو اس شہری سمیت پوری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے۔ 


مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں ووٹ کی اہمیت کو اج تک نہیں سمجھا گیا۔ اپنے ہاں لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنے خاندان برادری قبیلہ ہم زبان ہم علاقہ ہم مسلک وغیرہ کو ووٹ دیتے ہیں۔ اور اکثر اوقات ووٹ کو چند پیسوں ایک کلو اشیا خوردنی یہاں تک کہ ایک پلیٹ پلاؤ کے لیے بھی بھیجا جاتا ہے۔ کاش کہ ان لوگوں کو علم ہوتا کہ یہ کس قسم کی خیانت کررہے ہوتے ہیں۔ کاش کہ ان کو علم ہوتا کہ یہ ووٹ صرف ایک کاغذ کے ٹکڑے پر مہر لگانا نہیں ہے بلکہ ایک پوری قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔ کاش کہ ان لوگوں کو  ووٹ کی طاقت کا علم ہوتا۔ 


مگر اپ انھی لوگوں کو بات کرتے سنا ہوگا کہ حکومت عوام کے لئے کچھ نہیں کررہی۔ یا یہ کہ سیاستدان سب بدعنوان ہیں۔ ان کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ حکومت ان لوگوں کے مجموعہ کا نام ہے جنھیں اپ نے ایک پلیٹ پلاؤ یا ایک کلو چائے یا دو ہزار روپے کے لئے ووٹ دیا تھا۔ اور یہ وہی بدعنوان سیاستدان ہے جسے اپ نے اپنے  برادری قبیلہ  زبان علاقہ مسلک وغیرہ کا سمجھ کر ووٹ دیا تھا۔ 


اج اگر اپ ووٹ دینے سے قبل اس بات پر غور کرلیں کہ یہ ووٹ ہے کیا اور اس کی کیا اہمیت تو یقیناً کل اپ سیاستدانوں کو کوستے ہوں گے نہ حکومت کو۔ یہ ووٹ وہی تلوار ہے جسے لیکر کسی زمانے میں ایک لشکر جاکر کسی اور ملک پر قبضہ کرتی تھی اور پھر وہاں اس کی مملکت اس کا اقتتدار ہوتا تھا۔ ہاں فرق یہ ہے کہ ووٹ ایک انگوٹھے کا سادہ سا عمل ہے جسے اپ سوچے یا بے سوچے استعمال کرتے ہیں۔ اور لشکر کشی کرنا سب داو پر لگانا ہوتا تھا یہاں تک کہ جان بھی۔ لشکر کشی میں کوئی کسی پر قابض ہوتا تھا اور ووٹ کے زریعے اپ خود کسی کو اپنا حکمران چنتے ہیں۔ 


اگر اپ سوچ سمجھ کر ووٹ کا استعمال کریں گے تو حکمران اپ کے تابع ہوگا اور اگر اپ نے بے سوچے سمجھے ووٹ کا استعمال کیا تو حکمران واقعی حکمران ہوگا۔ جیسے کہ اپنے ہاں ہوتا ایا ہے۔ اپ اس کے ریا ہوں گے اور وہ حاکم۔ اپ اس سے پوچھ گچھ نہیں کر سکیں گے۔ وہ اپنی من مانی کریگا۔
بدقسمتی سے ہمارے لوگ زہنی طور پر اج بھی اس بات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ وہ ازاد ہیں اصل حکمرانی ان کی اپنی ہے اصل طاقت ان کی اپنی ہے۔ صدیوں غلامی میں رہنے کی وجہ سے اج بھی ایسا لٹریچر ڈویلپ نہیں ہوا جو عوام کی زہنی اور فکری راہنمائی کرتا اور ان کو یقین دلاتا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام خود ہی ہیں۔ 


یہی وجہ ہے کہ عوام میں سے ہی حکمران بننے والے اچانک فرعون بن جاتے ہیں۔ جن کو عوام نے طاقت بخشی انھی کو کچھ اور ہی مخلوق پاتے ہیں۔ جن کو ووٹ دیا ہے پھر ان کے سامنے جاکر اپنے حق کا مطالبہ کرنا تو دور کی بات ان کے سامنے جاتے ہوئے بھی کتراتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈپٹی کمشنر اے سی یہاں تک تحصیلدار تھانیدار کو بھی عوام راجہ یا بادشا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ پپلک سرونٹ یعنی عوام کے خدمت گار ہوتے ہیں۔ 


ہمارے لوگوں کی زہنی تربیت کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس سلسلے میں سب سے اہم اور بنیادی کام یہی ہے کہ ان کو پہلے ووٹ اور اس کی طاقت کا احساس دلایا جائے۔ اور پھر ان میں وہ ہمت پیدا کی جائے کہ وہ اپنے منتخب حکمرانوں کا گریبان پکڑ کر پوچھ سکے کہ ان کے وعدے وعید کہاں تک پورے ہوئے ہیں۔ 

 عوام کو چاہئے کہ وہ ووٹ مانگنے والے انتخابی امیدوار سے پوچھ لیں کی بھائی ہم اپ کو ووٹ کیوں دیں؟  اپ کا بیانیہ کیا ہے؟  اپ کے نزدیک عوام کے اور علاقے کے پانچ اہم مسائل کیا ہیں؟  اور اپ کے پاس ان مسائل کا حل کیا ہے؟ اور اس سے پہلے امیدوار کا انفرادی کردار اور علم و تعلیم بھی دیکھ لینا چاہئے۔ کہ ایا یہ شخص جو اج ہمارا راہنما بننا چاہتا ہے اس سے پہلے اس کے عوام میں معاشرے میں علاقے میں کردار کیا تھا۔ زاتی اور انفرادی حیثیت میں یہ کیسے زندگی گزارتا رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں کے بعد سب سے بہترین امیدوار کو صرف اس کے کردار خلوص علم و تعلیم اور جذبے کی بنیاد پر منتخب کرنا چاہیے۔ جو لوگ ووٹ کسی بھی قسم کی لالچ کے لیے فروخت کررہے ہیں یا جہالت اور لاعلمی کی بنیاد پر ادھر ادھر کررہے ہیں وہ قوم کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کررہے ہیں۔ قوم پر کسی بھی مشکل وقت کسی پر مسلے کی زمہ داری اس قسم کے ووٹر پر برار ہوتی ہے۔ 


شیئر کریں: