Chitral Times

Apr 23, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

معیاری تعلیم وتربیت ۔۔۔ یہودی بالادستی کا اہم راز!…….ڈاکٹرمحمدیونس خالد

شیئر کریں:

          سوال یہ ہے  کہ اس وقت دنیا میں یہودیوں کی بالادستی کیوں ہے؟یہ لوگ دنیا کی ہر فیلڈ میں کامیاب کیوں ہیں؟ ایک رپورٹ کے مطابق یہودی دنیا کے ستر فیصد بزنس کو چلارہے ہیں تمام عالمی فیصلو ں پر وہ اثرانداز ہوتے ہیں، ہرقسم کا میڈیا تقریبا یہودیوں کے قبضے میں ہے، دنیا کی اکثر ملٹی نیشنل کمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں، ٹیکنالوجی اور سائنس کے علم پر وہ حاوی ہیں، دنیا کی بڑی فلم انڈسٹریز، فوڈ آئٹمز، مشروبات اور میڈیسن کی انڈسٹری کے وہ مالک ہیں، دنیا کے اکثر بڑے برانڈز ان کے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی ان کے گھر کی چیز ہے، تعلیم کے میدان میں وہ چیمپین ہیں اب تک کوئی 180 سے زائد  تعداد میں وہ نوبل پرائز جیت چکے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں پورے عالم اسلام کے حصہ میں صرف د و یا تین نوبل پرائز ہی آسکے ہیں۔

           ذرا غورکیجئے دنیا  میں  اسرائیل کی  کل آبادی ویکی پیڈیا کے مطابق 3کروڑ سے بھی کم  ہے دنیا میں یہودیوں کی کل آباد ی دو کروڑ چالیس لاکھ ہے جس کا تناسب دنیا کی آبادی میں ایک فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ اوریہودیوں کے مسکن اسرائیل کاکل رقبہ بیس ہزار دوسوستر مربع کلومیٹر ہے جوپاکستان کے ضلع چاغی سے رقبے کے لحاظ سے آدھے سے بھی کم ہے۔ اتنا کم ایریا رکھنے اور اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود وہ دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں کو اپنی مٹھی میں دبا کے رکھے ہوئے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟کیا یہ لوگ ایکسٹرا جینئیس ہیں کہ کوئی ذہانت میں ان کا ہم پلہ نہیں ہوسکتا اور کوئی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا یا وہ دنیا کے عام انسانوں کی طرح ہی ہیں لیکن ان میں کسی خاص قسم کی تعلیم وتربیت کا رجحان پایاجاتا ہے جس سے وہ اپنی کامیابی کو یقینی بناتے ہیں؟یہودی خوداپنے آپ کو The Chosen few یعنی خدا کے منتخب بندے کہتے ہیں اور اسی نام کی ایک کتاب کو سال 2017 میں نیشنل جیوش بک ایوارڈ بھی ملا ہے۔ جس میں اس بیانیہ کی توضیح وتشریح کی گئی ہے کہ یہودی اللہ کے خاص انعام یافتہ لوگ ہیں۔ لیکن قرآن کریم کی رو سے اللہ تعالی کے ہاں، ذات پات اور رنگ ونسل کی کوئی اہمیت نہیں اللہ کے ہاں توصرف ایمان اور تقوی کی اہمیت ہے، قرآن کریم نے واضح طورپر فرمایا:  ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (۹۱)” بے شک اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہ شخص ہے جو اس سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔

          جو سوال ہم نے اٹھایا یہی سوال امریکہ کے ڈاکٹر اسٹیفن کارلیون کے ذہن میں بھی پیدا ہوا۔ ڈاکٹر اسٹیفن نے 1980ء کی دہائی میں تین سال اسرائیل میں گزار کر اس بات پر ریسرچ کی کہ آخر یہودیوں کی کامیوں کا راز کیا ہے؟کیاان کی یہ صلاحیت فطری  God giftedہے یا وہ اپنی کوشش اور محنت سے یہ صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ڈاکٹر اسٹیفن کارلیون نے اس موضوع پر ایک ریسرچ پیپر بھی لکھا جو ساوتھ ایشن پلس نامی ویب سائٹ میں چھپا۔ اس ریسر چ پیپر میں تفصیل سے اس موضوع پر لکھا اور ڈاکٹر اسٹیفن نے یہ واضح کیاکہ یہودیوں کی یہ صلاحیت کوئی گاڈگفٹڈیا قدرتی نہیں ہے بلکہ یہودی بچے بھی عام بچوں کی طرح ہی صلاحیتیں لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن یہودی اپنے بچوں کی معیاری تعلیم وتربیت اور کوششوں سے اپنی اور اپنی نسل کی  کامیابی کو اس طرح سے نکالتے ہیں جس طرح کمپنی سے کوئی پروڈکٹ بنا کر نکالاجاتا ہے۔ ڈاکٹر اسٹیفن یہودیوں کی لائف اسٹائل اور ان کے انداز تربیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے یہودی معاشرے میں بچے کی تربیت کی شروعات اس وقت سے کی جاتی ہے جب ان کو یہ امید ہوتی ہے کہ عورت کو حمل ٹھہرگیا ہے۔جب عورت کو حمل ٹھہرتا ہے تو اس عورت کی غذا، آرام اور ذہنی آسودگی کا پورا خیال رکھنے کے ساتھ اس کو ایسے مشاغل دیے جاتے ہیں جن سے ان کو یقین ہوتا ہے کہ ان مشاغل کی وجہ سے عورت کے پیٹ میں ارتقاء بذیرجنین ذہین ، جینئس اور جذباتی طور پر نہایت متوازن  ہوگا۔ ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ صرف بچہ کی پیدائش کے خواہاں نہیں ہوتے بلکہ ایسے بچے کی پیدائش کے خواہاں ہوتے ہیں جو ذہین ہوجینئس ہو اور لیڈرشپ کی صلاحیتوں کا حامل ہو۔ چنانچہ حمل ٹھہرنے کے بعد اس حاملہ عورت کی غذا میں دودھ، بادام، مچھلی، انڈے، مغزیات اور روغن ماہی جیسی مقوی دماغ چیزیں روزانہ کی بنیاد پر لازمی شامل کی جاتی ہے۔ حاملہ ماں کو روزانہ بنیادوں پر میتھامیٹکس کی پریکٹس کرائی جاتی ہے کیونکہ ان کی ریسرچ بتاتی ہے کہ بچہ جب ماں کے پیٹ میں جنین کی حالت میں ہو توماں کی ذہنی آسودگی، بہترین غذا،خوشگوار ماحول اور میتھ جیسے مضامین میں مشغولیت سے بچے کی ذہانت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے ساتھ وہ میوزک کی مشق بھی کرتی رہتی ہیں۔یوں وہ اپنے بچے کی تربیت حمل ٹھہرتے کے ساتھ ہی شروع کردیتے ہیں۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد دوسے تین سال میں اسے کنڈرگارٹن میں داخل کرادیتے ہیں، ڈاکٹر اسٹیفن کامزید کہنا ہے کہ  یہودی ایجوکیشن سسٹم میں گریڈ 6 سے بچے سے بزنس میتھ کا کام کروایا جاتا ہے اور میڑک کا سرٹیفکیٹ اس وقت تک نہیں دیا جاتا جب تک کہ بچہ دس ہزار ڈالر کا کامیاب پروجیکٹ کرکے نہ لائے۔ان کے ہاں بچوں کو جاب ڈھونڈنے کا ذہن نہیں دیا جاتا بلکہ اپنا بزنس شروع کرنے کا رجحان دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہودی تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اکثر ملٹی نیشنل کمپنیز اور دنیا کی70فیصد بزنس پر قابض ہیں۔

          ایک اور ریسرچ کے مطابق نیویارک کو جرائم کا شہر کہاجاتا ہے جہاں ہر کمیونٹی کے افراد کسی نہ کسی جرم میں گرفتار ہوتے رہتے ہیں لیکن اسی شہر میں یہودیوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور رپورٹ کے مطابق آج تک کسی یہودی بچے کو کسی جرم میں گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ یہودی اپنی اولاد کی تربیت بہت اہمیت کے ساتھ کرتے ہیں۔ اور شام ڈھلتے ہی ان کے بچے گھر وں میں ہوتے ہیں، غیر ضروری طور پر راتوں میں گھومنا ان کے ہاں معیوب سمجھا تا ہے۔یہودیوں کی اس طرز تعلیم وتربیت کو سامنے رکھ کر اب ذرا سوچئے ان میں اکثر باتیں تو اسلام کی خوب صورت تعلیمات میں سے  ہیں۔مثلااسلام نے بچے کی تربیت کو رشتے کی تلاش سے شروع کیاتھااور بعد کے تمام مراحل میں بچے کی بہترین تربیت پرزور دیا تھا، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی تعلیمات کو نظرانداز کیا اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کو چھوڑدیا بلکہ اس کا احساس ہی مسلم امہ سے ختم ہوگیا۔

                   وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا             کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا

جب تک ہم اپنے اس متاع گم شدہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس کی گمشدگی کا شدت سے احساس نہیں کرتے،خاکم بدہن مسلمان دنیا میں مغلوب ہی رہیں گے۔لہذا ہمیں خود بھی اور معاشرتی لیول میں بھی اس احساس کو تازہ کرنا ہوگا اوراپنی اولادکی بہترین علمی، عملی اور کرداری تربیت کاآغاز کرنا ہوگا۔  


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41253