
اپنے کام سے کام رکھیں….(دوسرا حصّہ)…..سردار علی سردارؔ اپر چترال
یہ وہ سوالات ہیں جنہیں ہر ذی عقل انسان دوسرے انسانوں کی محتاجی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کرنا چاہئے جس سے کسی غریب کا مسئلہ حل ہو؛ نہ کہ ہم اُس کے ایمان کو اپنی عقل کے ترازو میں تولنے کی کوشش کریں۔معلوم نہیں جس کی ہم اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ہم سے بہتر انسان اور بہتر مذہبی ہو۔ ہم کو چاہئے کہ پہلے اپنا قبلہ درست کرلیں نہ کہ دوسروں کا۔ کیونکہ ہم سب کو ایک نہ ایک دن خدا کے حضور جواب دہ ہونا ہے۔ مالک یوم الدین وہی ہے سب کو اُسی کے پاس اپنے اعمال کے ساتھ جانا ہوگا ۔ کون صحیح کون غلط فیصلہ وہاں ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اعمالِ صالحہ کو ہمیشہ ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم قرار دیا ہے ارشاد خداوندی ہے کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ ٘ 95.6
ترجمہ: ۔سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے اُن کے لئے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نےشروع ہی سے اپنے پیغمبروں اوراولیاء کے ذریعے انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ بندوں کے اعمال اچھے ہوں تاکہ اچھے اعمال ہی کی وجہ سے اُنھیں اجرِ عظیم کا صلہ ملے گا۔اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے۔ زندگی اور موت اُسی کے ہاتھ میں ہیں اُس نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ وہ اچھے اعمال کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے، الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔ 67.2 ترجمہ: جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے۔
مذکورہ آیات رباّنی اس بات کی تاکید کرتی ہیں کہ دوسروں کے ایمان کو جانچنے کی بجائے خود اچھے اعمال انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔کیونکہ زندگی کے ہر شعبے میں عمل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ ہماری زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں کام کئے بغیر کامیابی حاصل ہوسکے۔ انسانی زندگی دراصل ایک گاڑی کی مانند ہے جس کے تمام پرزے مل کر منزل تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں جن کے بغیر ایک قدم بھی سفر آگے نہیں جاسکتا ۔ اسطرح معاشرے کا کوئی بھی فرد اپنے کام سے کام نہ رکھے اور سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرے تو اُس کا اثر پورے معاشرتی زندگی پر پڑے گا۔اس لئے اپنے کام سے کام رکھنے والا انسان ہی کامیاب ہوسکتا ہے جس کی ضمانت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مقدس کتاب میں دی ہے ارشاد ہوتا ہے۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ٘ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ ٘ 53.40
ترجمہ: اور یہ کہ ہر انسان کے لئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی۔اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔
اس آیت سے یہ واضح ہوا کہ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کے لئے اُس نے کوشش کی ہو۔کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے کام سے کام رکھے ۔دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے خود اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔ یہی ہے اصل زندگی کا راز۔خداوند تعالیٰ نے ہر انسان کو کچھ نہ کچھ صلاحتیں دے رکھی ہے ۔ان صلاحیتوں سے ہی کام لے کے اپنا کام کرنا چاہئے تاکہ دوسروں کا دست نگر نہ ہونا پڑے اور اپنے ہی جیسے انسانوں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔انسانی معاشرے میں اختلافات کا ہونا اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن محنت اور خلوص، دل سے کام ہی انسان کو معراج تک پہنچانے کا واحد سہارا ہیں اور اللہ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بھی۔
انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے اختلاف کا ہونا ہر مذہب اور ہر ثقافت میں ہوتا ہے لیکن اِ س کا مطلب یہ نہیں کہ ہم سب سے عقلمند اور دانا ہیں۔ ہماری ہربات سب کے لئے اہم اور قابلِ عمل ہے ۔ انسان کا یہ نظریہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کہ اُس کی بات ہی سب کے لئے قابلِ عمل ہو باقی سب غلط ۔کیونکہ ہر فرد، خاندان اور قبیلے کے لوگوں کے خیالات ،افکار ،طور طریقے اور رسم و رواج ایک دوسرے سے الگ ہی ہونگے۔ لہذا انسانوں کی یہ تفریق سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے سماجی،معاشرتی اور ثقافتی تنوع کو قبول کریں اور ایک دوسرے سے تعاون کریں ۔کیونکہ اس دنیا میں اور دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہر شخص کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنے نظریات اور مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے ذاتی اختلافات کو چھوڑ کر اپنے خیالات اور نظریات کو مثبت انداز سے ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کی جائیں ۔ کیونکہ اسلام رواداری ، برداشت، بھائی چارہ، فیاضی، رحمدلی،عدل وانصاف اور مساوات کی تعلیم دیتا ہے ۔ اگر ان اصولوں کو زندگی کا معیار بنایا جائے تو یہی اصول بنی نوعِ انسان کے مختلف رنگ و نسل اور مختلف ثقافتوں میں بسنے والے لوگوںکو اپنے نظریات اور احساسات کا آزادی کے ساتھ اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے طریقے اور مذہب پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی ضمانت دے سکتے ہیں۔
بعض معاملات میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اپنے کام سے کام نہ رکھتے ہوئے دوسروں کے کاموں میں شکایت کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ اُس نے یہ کام نہیں کیا ۔وہ ایسا ہے ویسا ہے وغیرہ وغیرہ ، یہ سب منفی رجحانات ہیں جو انسان کو اگے بڑھنے نہیں دیتے ۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کو اپنے سے کم تر یا حقیر سمجھتے ہیں۔ ہم کبھی بھی انسان کی خوبیوں اور اچھائیوں کو نہیں دیکھتے بلکہ کسی انسان کی اچھائی بھی ہمیں برائی ہی لگتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اچھے نہیں ہیں، یااچھا نہیں سوچتے اس لئے دوسروں کی اچھائی بھی ہمیں اچھی نہیں لگتی ۔ دوسروں کو کمتر سمجھنا اور اُن کی برائیاں بیان کرنا یہ نتیجہ دیتا ہے کہ انسان دوسروں کی نظر میں کمتر ہوکر رہ جاتا ہے۔
“انسان کی یہ فطرت ہے کہ وہ دوسروں کی برائیاں بیان کرنے میں ہمیشہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا ہے اور خود اپنی برائیوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ دوسروں کی برائیاں وہ اس طرح بیان کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا ہو حالانکہ وہ باتیں یا تو سنی سنائی ہوتی ہیں یا قیاس آرائیاں”۔
(الکواکب مجموعہ مقالات، کمال الدین علی محمد، و زرینہ کمال الدین کراچی 2004 ،ص 227 )
انسانی ذہن میں مختلف اوقات میں مختلف خیالات پیدا ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر جب انسان خوشی کے لمحات سے گزرتا ہے تو اُس کی باتوں میں خوشی کے جذبات پیدا ہوتی ہیں۔اُس کا ایکشن، اندازِ بیان اور رویہ مثبت انداز سے اظہار ہوتا ہے لیکن جب وہ کسی پریشان کن واقعے سے گزرتا ہے تو اُس کے تمام رجحانات ،اُس کی گفتگو اور اندازِ بیان سب کچھ اُسی کے مطابق ہوتی ہیں اور یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ انسان کسی بھی حال میں خوش نہیں رہتا ۔خوشی اور غم انسانی زندگی کے دو بنیادی پہلو ہیں ۔اب یہ دوسرے زیرک انسان پر منحصر ہے کہ وہ موقع کی مناسبت سے عمل کرے ۔نہ کرنے کی صورت میں اختلافات اور نفرتیں بڑھتی جائیں گی جن کا پھر آزالہ کرنا مشکل ہوجائےگا۔
” آدمی کے ذہن میں منفی خیالات ہمیشہ ردِّ عمل کے طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ کسی آدمی نے سخت بات کہہ دی تو آپ کو غصہ آگیا ۔ کسی سے ناخوشگوار تجربہ ہوا تو آپ مشتعل ہوگئے ۔کسی نے آپ کے وقار کو مجروح کیا تو آپ کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اُٹھی ۔ یہی سب چیزیں جو ابتدا ََ ذہن کے اندر پیدا ہوتی ہیں،وہی باہر آکر جنگ اور فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے لوگوں کی منفی سوچ کو ختم کیا جائے اور اُن کے اندر مثبت سوچ پیدا کی جائے ۔ لوگوں کے اندر یہ مزاج بنایا جائے کہ وہ اشتعال کی باتوں پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ ناخوشگوار چیزوں میں الجھنے کی بجائے ان سے اعراض کریں ۔ وہ نفرت کے جواب میں محبت کرنا سکھیں۔ وہ ٹھنڈی سوچ کے تحت فیصلہ کریں نہ کہ جذباتی ابال کے تحت۔
( کتابِ زندگی، مولانا وحیدالدین خان۔ کراچی 2001، ص 86 )
آج انسان کی زندگی کشمکش سے دوچار ہے ہزاروں مسائلِ زندگی پیدا ہوچکے ہیں جن کا ماضی میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا ۔آج زمان و مکان کے نظریے تبدیل ہوچکے ہیں ۔ زمانہ گلوبل ہوچکا ہے خیالات ،فکر ،سوچ اور نظریات ایک برِ اعظم سے دوسرے برِ اعظم میں داخل ہوچکے ہیں ۔انسان نہ صرف سمندر کی گہرائی میں اپنا قبضہ جما چکا ہے بلکہ فضاوں کی بلند ی کو بھی تسخیر کرچکا ہے۔ ایسے تیز حالات میں انسان پہلے سے زیادہ اپنے کام میں منہمک نہ ہو اور اپنے اندر صلاحیت و قابیلیت پیدا نہ کریں تو اس مشکل دور میں اپنا مقام حاصل کرنا اُس کے لئےنہ صرف مشکل ہوجائے گا بلکہ ناممکن بھی۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنے سامنے طویل المیعاد مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لئے اور اپنی آئندہ نسلوں کے لئے اس دُنیا کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جس کے لئے ہمین آج ہی سے یہ تہیہ کرنا ہوگا کہ ہمیں اپنے کام سے کام رکھنا ہوگا ۔ دوسروں پر بے جا تنقید کرنے کے بجائے اپنی کمزوریوں کو دورکرکے نئی مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا ۔تمام اختلافات کو بھولاکر محبت ، آمن اور رواداری کا درس عملی طور پر دینا ہوگا۔ تاکہ آنے والا دن اُس کے لئے خوشیاں اور راحت کے لمحات پیدا کرے گا۔کیا خوب فرمایا ہے الطاف حسین خالی ؔنے۔
بڑھاؤ نہ اپس میں ملت زیادہ
مبادہ کہ ہوجائے نفرت زیادہ
فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ۔