Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

انسان خودکشی کیوں کرتا ہے؟ ۔۔۔۔۔جواد محبوب

شیئر کریں:

 انسان کو اللہ تعالیٰ نے اتنا مضبوط بنایا ہے پھر بھی ایک وقت بعض لوگوں کی زندگی میں ایسا بھی اتا ہے کہ وہ کمزور پڑ جاتا ہے ،وہ تھک ہار جاتا ہے ،اسے اپنی زندگی سے محبت ختم ہوجاتی ہے ،وہ خود کو اپنے اوپر بوجھ سمجھتا ہے۔دنیا کی زوق اُسکے اندر ختم ہوجاتی ہے اور وہ خودکشی کرلیتا ہے ۔ WHO کے تحقیق کے مطابق تقریباً ہر سال دنیا میں قریب ایک کروڑ لوگ خودکشی کرتے ہیں ۔ان کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ بعد ایک خودکشی ہوتی ہے ۔ اور ہر سال خودکشی کے شرح میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔

رواں سال چترال میں بھی کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے کے خودکشی کرنے والوں کی تعداد دوسرے سالوں کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔اور بدقسمتی سے 99٪ نوجوانوں کی کی ہے جن کی عمریں 16سے35 سال ہے۔

آخر اس کی وجہ کیا ہے کے دیں بدیں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لیے ۔ دنیا میں جتنی بھی اسے واقعات ہوتے ہیں اُن کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے ۔WHO کے مطابق جو اہم وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنی جان لینے پر مجبور ہوجاتا ہے وہ یہ ہیں
1۔ mental illness
2۔ depression
3۔ family history of sucide
4۔ Social isolation۔


ابھی ہم چترال کی طرف آتے ہیں کہ چترال میں اسکی سب سے بڑی وجہ کیا ہے ۔الحمدللہ literacy rate بهی ہمارا دوسرے ڈسٹرکٹ سے بہترہے ،الحمدللہ ہماری اخلاق کی بھی دنیا بھر میں لوگ تعریفیں کرتے ہیں ،الحمدللہ غربت بھی دوسرے ڈسٹرکٹ سے بہت کم ہے ہر بندہ کو راحتی سے 3 وقت کا کھانا ملتا ہے اور الحمدللہ جرائم کی شرح بھی دوسرے اضلاع کی نسبت بہت کم ہے ۔تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان یہ راستہ استعمال کرتے ہیں ۔آخر وہ اتنا مجبور اور کمزور کیسے ہوتے ہیں کے وہ اپنی زندگی ہار جاتے ہیں ؟؟

کہیں اس کے پیچھے اُن کے اپنے تو نہیں ؟؟ میری یہ بات تلخ ضرور ہے مگر حقیقت بھی ہے ۔چترال میں جیتنے بھی خودکشی ہوتے ہیں اُن کی وجہ depression ہے۔اور ہے depression اُسکے اپنے ہی گھر سے اسے ملتی ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ اُن کے گھر سے کیسے ملتی ہے ؟؟؟

میری بات پہ غور کریں ہمارے چترال کا معاشرہ ایسا بنا ہوا ہے کہ بہت ہی زیادہ competition کر رہے ہیں ہم ایک دوسرے سے ۔نوجوانوں سے زیادہ اُن کے گھر والے اس دوڑ میں لگے ہیں کے میرا بیٹا يا بیٹی دوسروں کے بچوں سے آگے نکل جائیں اُن سے وہ توقعات رکھتے ہیں جن کو پورا کرنا اُن کی بس میں نہیں ۔

میری ایک بات سے شاید آپ اتفاق نہ کریں کہ ہر انسان ایک جیسا نہیں ہوتا، ہر انسان کی صلاحیتیں ایک جیسی نہیں ہوتی۔کوئی بھی perfect نہیں دنیا میں ہر کسی میں کوئی نہ کوئی کمی ضرور ہوتی ہے ۔ اس competition میں ہم اپنے بچوں کو ایسا torture کرتے ہیں لیکن اسکا ہمیں اندازہ نہیں ہوتا ۔اگر وہ کسی کام میں کامیاب نہیں رہتا تو ہم اسکا سہارا بنے کے بجائے اسے تغنے دیتے ہیں ۔اسے بتاتیں ہے کے وہ دنیا کا ناکام انسان ہے ،اسے بتاتیں ہیں کے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا اور exactly وه آپ کی اُن تغنوں کی لاج رکھتا ہے اور کبھی کامیاب نہیں ہوتا،وہ زندگی بھر کے لیے مایوس ہوجاتا ہے ۔ اور یہی باتیں اسکو اس راستے پر لاتی ہیں ۔ جب ایک بچہ غلطی کرتا ہے تو بھاگ کے اپنے ماں کے پاس اتا ہے اور خود کو محفوظ سمجھتا ہے ۔اگر یہی ماں اسکا سہارا بنے کے بجائے اسے تھپڑ ما رے تو یہ بچہ کیسے دنیا کا مقابلہ کریگا ۔آپ کے اس تھپڑ سے وہ مضبوط نہیں بلکہ بزدل بن جائےگا۔جب آپکے بچے سے کوئی غلطی ہو اس وقت بھی اسکا ساتھ دیں اسے طریقے سے سمجھا ین نہ کہ اسے تھپڑ ماریں۔


ہمارے معاشرے میں جو زیادہ نمبر لیتا ہے امتحانات میں اسے کامیاب سمجھا جاتا ہے ۔اور جو بچہ کم نمبر لیکر گھر آئے تو اسے طرح طرح کے باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔و وقت جب اسے سپورٹ کی ضرورت ہے، اسے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے ،اسے حوصلا چاہیے ،اس وقت جب اسکی پریکٹیکل لائف کی طرف پہلا قدم تھا ۔اُن کے گھر والوں کی باتیں اس کے اوپر بوجھ بن جا تی ہیں۔اسے اپنے زاد سے نفرت ہونے لگتی ہے ،اسے دنیا سے نفرت ہوتی ہے ۔وہ اتنا ڈر جاتا ہے کے ان باتوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔آخر کار یہ باتیں اسے اندر سے ختم کر دیتی ہیں اور وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں اپنے ہی ہا توں سے تباہ کردیتا ہے ۔


اس competition میں ہم اسطرح ڈوب جاتے ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل اپنے ہاتھ سے لکھنے لگتے ہیں۔بھلا کوئی مجھے بتائے کہ انسان میں اتنی پاور کہاں سے اور کب ائی کے وہ کسی کا مقدر لکھ سکے ؟؟؟
یہ محض ایک غلط فہمی ہے اپنے بچوں کی قسمت آپ نہیں لکھ سکتے البتہ اُن کو اچھا اخلاق اور اچھا انسان بنا سکتے ہیں ۔اسے حوصلا دے سکتے ہیں کے بیٹا تو کم نمبر لیکے ناکام نہیں ۔تمہارے لیے اور بھی ہزاروں اسے راستے ہیں جن سے گزر کر تم کامیاب ہوسکتے ہو ۔

آخر میں تمام والدین سے میری گزارش ہے کہ خدارا اپنے بچوں کے اوپر نادانی میں اتنا ظلم نہ کریں کہ اُن کی دنیا اور آخرت اپ کے اپنے ہاتھوں سے تباہ ہوجائے ۔اپنے بچوں کو ایک اچھا ماحول فراہم کریں اور اس مضر اور قاتل competition کو اپنے ذہنوں سے نکال لیں۔ اسی میں آپکی اور آپکی اولاد کی بہتری ہے ۔شکریہ


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
41147