Chitral Times

Apr 19, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

لینڈ سیٹلمنٹ اور چترالی قوم….. تحریر: ڈاکٹر ظہیر الدین بہرام

شیئر کریں:


صوبائی حکومت لینڈ سیٹلمنٹ کے نام پر چترال کے تمام جنگلات، پہاڑ، ڈھلوان، معدنیات، چراگاہیں، گرمائی مسکن (غاری)، کچے کے علاقے (شوتار ) اور غیر آباد زمینیں صوبائی حکومت کی ملکیت قرار دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ۱۹۷۵میں اس وقت کے لینڈ کمیشن کے سربراہ شیخ محمد رشید جیسے انتہائی جانبدار، متعصب اور بددیانت شخص کی سفارش پر چپ کے سے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرکے اس ظالمانہ حرکت کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئی تھی لیکن اب (غالبا ۳۱اکتوبر ۲۰۲۰ سے) اس متنازعہ نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کی باتیں ہو رہی ہیں۔


یہ بات بھی قابل غور ہے کہ لینڈ سیٹلمنٹ صرف چترال کا مسئلہ کیوں بن گیا ہے حالانکہ قریبی علاقوں (دیر، سوات، قبائلی اضلاع وغیرہ) میں شاملات لوگوں کی ملکیت ہیں نا کہ صوبائی حکومت کی۔
لینڈ سیٹلمنت کے حوالے سے ابہام پھیلا کر چترالی قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور بعض نادان چترالی بھی اس مقصد کے لیے دانستہ یا نادانستہ استعمال ہو رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ لینڈ سیٹلمنٹ سے محض چند خاندانوں کو نقصاں ہوگا جبکہ اکثریت کا اس کوئی لینا دینا نہیں اور یہ کہ شاملات کو سرکاری ملکیت قرار نہ دینے سے لوگوں کے درمیان تنازعہ پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ لوگوں کے یہ مفروضے اور ان کے یہ خدشات بالکل بے بنیاد ہیں کیونکہ شاملات کا معاملہ چترال کی علاقائی دستور اور روایات کے مطابق بالکل واضح ہے۔ مجموعی طور پر یہ شاملات کسی ایک خاندان کی ملکیت نہیں بلکہ علاقے کی روایات کے مطابق پوری قوم کی ملکیت ہیں۔ پھر ہر خاندان، ہر گاؤں اور ہر علاقے کےشاملات یعنی غاری، جنگلات، ڈھلوان، معدنیات، موشین ژا، چراگاہ، شوتار وغیرہ کی تقسیم پہلے سے طے شدہ ہیں۔ ہاں کچھ مخصوص جگھے کسی فرد یا خاندان کی ملکیت ہیں تو وہ بھی علاقائی دستور اور مروجہ قوانین کے مطابق ہیں۔


ابھی تو اسے یہ رنگ دیا جا رہا ہے کہ سرکاری ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ عوام اس سے استفادہ کر سکتے ہیں حالانکہ یہ محض واہمہ ہے۔ کیونکہ ۱۹۷۵ کی نوٹیفیکیشن پر عمل درآمد کی صورت میں صوبائی حکومت ان چیزوں کو ٹھیکہ داروں کے حوالے کرکے پیسے کمانے کا ذریعہ بنائے گا تو پھر ’’نہ تتے ڈری نہ متے کپھینی‘‘ والی صورتحال بن جائے گی اور اس کو اُس وقت روکنا ناممکن ہوگا جبکہ ابھی قومی یکجہتی کے ذریعے اسے بڑی آسانی کے ساتھ روکا جا سکتا ہے کیونکہ ۱۹۷۵ کا نوٹیفیکیشن غیر قانونی ، امتیازی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔


کسی ایک خاندان کی معروف شخصیت کے نام پر قائم تنظیم کے زیر اہتمام کانفرس منعقد کرنا بھی انتہائی بے تدبیری ہے۔ اگرچہ منتظمین کے مطابق اس کانفرنس میں چترال بھر سے تمام خاندانوں کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا تھا تاہم کسی خاندان کی مرکزی شخصیت کا نام استعمال کرکے ایک اجتماعی اور قومی مسئلے کو دانستہ یا نادانستہ ایک خاندان کا مسئلہ بنانا کہاں کی دانشمندی ہے؟


افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چترالی قوم کی مشترکہ ملکیت کو صوبائی حکومت کی ملکیت قرار دے کر قوم کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے لیکن اس کے خلاف اجتماعی مزاحمت کرنے کے بجائے کچھ لوگ اس کے خلاف انفرادی یا خاندانی سطح پر کام کر رہے ہیں اور کچھ لوگ محض تعصب اور جہالت کی بنیاد پر اسے کسی خاندان کا مسئلہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض اچھے بھلے سنجیدہ اور اہل علم لوگ بھی اس عوام دشمن نوٹیفیکیشن کی حمایت کر رہے ہیں تو کسی متعصب جاہل سے کیا گلا کریں۔
اللہ تعالی ہمارے حال پر رحم فرمائے آمین۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
40898