Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صوبہ گلگت بلتستان حقیقت یا خواب…. تحریر: دیدار علی شاہ

شیئر کریں:

گلگت بلتستان صدیوں پرانی تہذیبوں، مذاہب، ثقافت، روایات، سماج، نسلوں اور زبانوں کا مرکز رہاہے۔ اور اس کا جغرافیہ اسے دنیا میں منفرد مقام دیتا ہے۔ یہاں کے مختلف علاقوں میں ثقافت، نسل، زبان، مذہب، فرقہ، عقیدہ، سیاست، ہم آہنگی اور بہت کچھ آپس میں مل کر ایک خوبصورت افکار کا مظہر ہے۔ ان سارے اوصاف میں تبدیلیاں اُس وقت آئیں ہے جب آج سے تقریباً پینتیس سال پہلے یہاں فرقہ وارانہ بدامنی کی لہر گزری ہے جس کے اثرات آج تک باقی ہے۔


پرانی گلگت بلتستان میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں جس پر مختلف راجاوں نے حکمرانی کی ہے۔ پھر ڈوگرہ کے ساتھ انگریز نے بھی یہاں پر اپنے سلطنت کے جھنڈے لہرائے ہے۔


پاکستان بننے کے بعد جب یہاں کے مقامی لوگوں نے ڈوگرہ کو مار بگا کر پاکستان سے الحاق کیا تو ایک نہ ختم ہونے والی سیاسی، قانونی اور تکنیکی جیسے مسائل نے جنم لیا، جوکہ ابھی تک حل طلب ہے۔اس کی وجہ گلگت بلتستان کے پاکستان سے الحاق کے کچھ عرصے بعد پاکستان نے اسے کشمیر ایشو کا حصہ بنا کر معاملہ اقوام متحدہ کے پاس چلے گئے۔ پھر گلگت کو ایجنسی کا درجہ دے کر یہا ں پر ایف سی آر کا نفاذ کیا گیا۔ ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کو پوچھے بغیر 1949 کو ایک وفاقی وزیر اور کشمیری رہنماوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ہے۔جو معاہدہ کراچی کے نام سے مشہور ہے۔ اس معاہدے کی رُو سے گلگت بلتستان انتظامی طور پر ریاست پاکستان کے زیر انتظام آیا ہے۔اس کے بعد سیاسی طورپراس علاقے کو بغیرعوامی نمائندگی کے ویلج ایڈ کے نام سے تو کھبی زرعی صنعتی پروگرام کے نام پر وفاق نے 1970تک سرکاری افسروں کے زریعے سے یہاں کے انتظام کوچلایا گیا ہے۔ اس کے بعد مشاورتی کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔اس کے فوراً بعدبھٹو صاحب نے 1972اور 1974کو ریاست ہنزہ و نگر کو تحلیل کیا۔ اس کے بعدجنرل ضیاالحق نے مشاورتی کونسل کی جگہ ناردرن ایریا کونسل ایڈوائزری تشکیل دی۔اسی دوران انتخابات بھی ہوئیں جو کہ 1970, 1979, 1983, 1987, 1991, 1994میں منعقد ہوئیں ہیں۔اس کے بعد پھر آرڈر 1994میں ترمیم کے زریعے ناردرن ایریاز کونسل کا نام تبدیل کر کے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل رکھ دیااور اس کے ساتھ سپیکر کا عہدہ اور خواتین کی مخصوص نشستوں کا اضافہ کیا گیا۔پھر 1999اور 2004 میں انتخابات منعقد ہ ہوئے۔اس کے بعد ایک صدارتی آرڈر جاری کیا گیا جس میں گلگت بلتستان کے نام کے ساتھ صوبائی طرز کا نظام دیا گیا، اسے گورننس آرڈر 2009 کا نام دیا گیا۔اس آرڈر کے تحت گورنر اور وزیر اعلی کے مناصب متعارف کیا گیا جی بی کونسل کے ساتھ 52 شعبوں میں اس اسمبلی کو قانون سازی کا حق اور اختیار دیا گیا۔ اور الیکشن بھی 2009 میں ہوئے۔ اس کے بعد 2015 کے الیکشن کے بعد مسلم لیگ ن نے پھر گلگت بلتستان آرڈر 2018 کے نام سے مالی و سیاسی اختیارات دینے کا اعلان کیا۔ اس آرڈر میں گلگت بلتستان کونسل کے اختیارات کم کیے گئے اور اس آرڈر کو عوامی سطح پر پذیرائی نہیں ملی اور بات سپریم کورٹ آف پاکستان تک پہنچ گیا۔


گلگت بلتستان شروع ہی سے مختلف سازشوں اور بحرانوں کا مرکز رہا ہے۔ خاص کر انگریر دور میں جب اُنھیں شبعہ تھا کہ روس اور چین شمال کی طرف سے حملہ آور نا ہوں۔ اسی لئے انگریز نے 1891 میں ہنزہ اور نگر پر حملہ آور ہو کر انھیں اپنے تابع میں لائیں۔


اُسی وقت سے گلگت بلتستان کی اہمیت آج تک برقرار ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کی وجہ شمال میں چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت اور امریکہ کے ساتھ کشیدگی، روس اور ہندوستان کی بڑھتی معیشت، کشمیر کا مسئلہ اور خاص کرگلگت بلتستان اور سنٹرل ایشیا میں موجود قدرتی وسائل ہے۔ اسی لئے دنیا کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں کی نظر گلگت بلتستان پر ہے۔ کیونکہ گلگت بلتستان معاشی طاقتوں، مسئلہ کشمیر اور جغرافیائی لحاظ سے قدرتی وسائل کے مرکز میں واقع ہے۔


اسی وجہ سے گلگت بلتستان اب پاکستان کے مستقبل کے لئے دفاعی، سلامتی، اور اقتصادی لحاظ سے اہمیت کے حامل بن چکا ہے۔شروع میں پاکستان نے اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنا کر معاملہ اب تک اقوام متحدہ میں ہے۔ اس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور مارشل لا کے زمانے سیاسی طور پر اسے حقوق اور آئین کے نام پر یہاں کے لوگوں کو صیح معنوں میں بیوقوف بنا چکے ہے۔ جس کا ذکر اوپر بیان کر چکا ہوں۔ اسی تسلسل میں آخری کوشش سرتاج عزیز کمیٹی کی صورت میں ہوئی، جسے گلگت بلتستان کے لوگوں نے رد کیا تھا اور بعد میں اس میں اصلاحات کیا گیا ہے۔
حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کو دبے الفاظ میں اور کچھ بیانئے کی صورت میں عبوری صوبہ کا درجہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ معاملہ تب شروع ہوئی جب ہندوستان نے اگست 2019 کومقبوضہ کشمیر کے خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر دیا۔
گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینے کے اعلان کے بعد یہاں کے لوگوں میں کافی حد تک خوشی کی لہر آئی ہے۔ مگریہاں کے لوگ مطمئن نہیں ہے۔ اس کی وجہ وفاق کی طرف سے ماضی میں کئے گئے جھوٹے وعدے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اسے صوبہ کا درجہ دین گے توکیسے؟ اور عبوری صوبہ کیوں؟۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ انہیں آئینی حقوق دیا جائے یعنی گلگت بلتستان کو جغرافیائی اور آئینی طور پر پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ایسا ہونے سے یہاں کے لوگوں کو شناخت ملیں گی، ملکی فیصلوں میں رسائی ملیں گی، اپنا فیصلہ سازی خود کریں گے، یہاں کے لوگ بااختیار ہوں گے، معاشی مواقعے زیادہ میسر ہوں گے، روزگار بڑھیں گے، ان لوگوں کی پہچان پاکستان ہوگا، یہاں پر موجود سیاحت اور معدنیات سے یہاں کے لوگوں کو فائدہ اور پاکستان خوشحال بن سکتا ہے۔


گلگت بلتستان کے لوگوں کے لئے ایک قانونی اور تکنیکی مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر صوبہ بنایا جاتا ہے تو یہاں کے لوگ سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر مضبوط نہیں ہیں تو خدشہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے صوبے سے آکر یہاں کے معاشی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہوں گے، کیونکہ اس سے پہلے یہاں پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کے تحت یہاں صرف مقامی لوگوں کو ہی سرکاری ملازمتیں، سیاسی عہدے اور جائیدادیں خریدنے کا حق حاصل تھا، پھر ستر کی دہائی میں بھٹو کے دور حکومت میں اس قانون کو ختم کیا گیاہے۔
ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ابھی تک گلگت بلتستان کو 1970کے بعدجب جب اصلاحاتی پیکیج دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے نہ یہاں کے لوگوں کی رائے لیے گئے ہے اور نہ انھیں اعتماد میں لیا گیا ہے۔ ابھی مختلف ماہرین کی رائے کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینے سے مسئلہ کشمیر پر موقف کمزور پڑ سکتا ہے۔ یہاں پر ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ گلگت بلتستان جغرافیائی طور پر کشمیر کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ کشمیر کا حصہ ہے۔ اور اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنایا گیا ہے۔


وفاق میں برسراقتدار حکومت نے گلگت بلتستان کو نیا عبوری صوبہ بنانے کا فیصلہ ضرور کیا ہے مگر یہ عبوری صوبہ ہوگا کیسے اس کی کوئی تفصیلی معلومات سامنے نہیں آیا ہے۔جبکہ کشمیر میں گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنانے کے لئے جلسہ جلوس اور بیانات زور و شور سے جاری ہے۔


معاون خصوصی برائے قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ انتظامی مقاصد کے لئے گلگت بلتستان کو صوبہ بناسکتے ہے۔ تاحال اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے اور جو بھی فیصلہ ہوگا وہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق ہوگا۔


معید یوسف کے اس بیان سے یہ بات واضع ہے کہ وفاق نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان میں 15 نومبر کو الیکشن ہونے جارہا ہے اگر وفاق میں برسراقتدار پاکستان تحریک انصاف نے یہ صوبہ کا شور شرابہ اپنے سیاسی مقاصد کے لئے رچایا گیا ہے تو یہ گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہوگا۔ جو پچھلے ستر سالوں سے ہوتا ہوا آرہا ہے۔اور اس دفعہ بھی گلگت بلتستان کے بیس لاکھ عوام کے خواب حقیقت سے پہلے دفن ہوگا۔


شیئر کریں: