Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سیاسی بیوروکریسی…….پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

 نوآبادیاتی نظام میں بیوروکریسی کے تسلط اور حکمرانی نے قیام پاکستان کے بعدبھی اپنے پنجے گاڑھے رکھے۔قیام پاکستان کے ابتدائی دو عشروں میں بیوروکریسی کے مقابلے میں سیاسی ادارے اتنے مضبوط نہیں تھے۔ بیوروکریسی کے پاس نوآبادیاتی تجربہ تھا جبکہ سیاسی ادارے ابھی طفل مکتب تھے۔ شروع کے دوعشروں کے بعد بننے والی حکومتوں نے بیوروکریسی کے ساتھ پنجہ آزمائی کے بجائے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے بیوروکریسی سے قربتیں بڑھائیں۔ اس ضمن میں سیاسی تبادلوں اور تقرریوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ رہی سہی کسر کوٹہ سسٹم نے نکال دی۔ سیاسی بیوروکریسی کا کینسر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلسل بڑھتا گیا۔حتی کے اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم بھی بیوروکریسی کے حربوں سے محفوظ نہیں تو عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔بیوروکریسی اور سیاست کی قربت نے اداروں کو کمزور، فیصلوں کو کاغذی، کرپشن کو دائمی اور عدم احتساب کو روایت بنادیا ہے۔ بیوروکریسی چھوٹے لوگوں کے زریعے چلایا جانے والا بڑا نظام ہے جس میں بڑے محض اپنا حصہ لینے کے لیے آتے ہیں۔بیوروکریسی کو درست اور اچھے کام کے لیے موت تصورکیا جا تاہے۔ غریب کو فائلوں کی بیماری کچھ یوں لگتی ہے کہ نوٹوں کے علاوہ کوئی دوائی اثر نہیں کرتی۔ بیوروکریسی کسی بھی مکمل اور طے شدہ کام کو نامکمل اور غیر طے شدہ ثابت کرنے میں لاثانی ہے۔ شیکسپئر نے درست ہی کہا تھا کہ صدارت کلرکی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اگر کلرکوں کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے تو نیب کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں رہنی نیب تعجب و حیرت سے خود ہی چل بسے گی۔ شیکسپئر کے زمانے کی کلرکی ترقی کرتے کرتے بیوروکریسی میں بدل گئی اور اب یہ ایک اصطلاح کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد بیوروکریسی نے طاقت کو سنبھالا اور غیر قانونی، غیراخلاقی اور غیر اسلامی کام احسن انداز میں سرانجام دیے۔ اس غلط روش نے دیگر اداروں کو کمزور کر دیا۔ غیر منتخب افراد کا منتخب افراد پر تسلط اور اجارہ داری کی رسم نے پارلیمنٹ کو بندی بنا کر رکھ دیا۔ سیاسی ادارے مضبوط بیور کریسی کے سامنے جم نہ سکے اورانہوں نے فرمانبرداری کو ہی عافیت سمجھا۔ بیوروکریسی میں اعلی عہدوں پر تعینات افسران نے قائد اعظم کے احکامات اور مشوروں سے روگردانی کر تے ہوئے عوامی نمائندوں کے اختیارات کو روندتے ہوئے جمہوریت کی بسات لپیٹ دی۔ ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے جسے بے وردی اور سیاسی بیوروکریسی کے اتحاد کے نام سے جانا جا تا ہے۔ انگریزی میں اسے گینگ آف فور کا نام دیا جا تا ہے۔ خاکی اور شلوار قمیض کے درمیان طاقت، حکومت اور حکمرانی کی تقسیم 1958-68 کے عرصے میں طے پائی۔بیوروکریسی نے خاکی حمایت میں حکومتی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بیوروکریسی کو سیاست زدہ کرنے میں سی ایس پی افسران نے اہم کردار ادا کیا۔ 1965کے صدارتی انتخابات نے سی ایس پی افسروں کو چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کا موقعہ اور اجازت دونوں فراہم کیے۔ جنرل ضیاء الحق کے فوجی دور میں بھٹو صاحب کی سر پر لٹکائی ہوئی تلوار سے سکھ کا سانس لیا۔ بیوروکریسی نے 1990کے پی پی دور اور 2008سے 2013 تک مختلف مخلوط حکومتوں کے ادوار میں نہ صرف خوب ہاتھ صاف کیے بلکہ اپنے پنجے مزید مضبوط کیے۔ ایسے ادوار بھی گزرے ہیں جب نام نہاد وزیراعلی ہوتے تھے، کچھ کے مطابق تو ابھی بھی ہیں، جب سب کچھ بیوروکریسی نمٹاتی تھی اور سیاسی عہدے محض خانہ پری کے لیے رکھے جاتے تھے۔ پارلیمانی نظام میں بننے والے اکثر صدور بھی محض تقریبات میں شرکت تک ہی محدود رہے ہیں۔ کسی دور میں چیف سیکریٹری ہی پنجاب کا حقیقی وزیر اعلی گردانا جاتا تھا۔2014 میں بننے والی حکومت نے سیاسی بیوروکریسی کی ثقافت کو دوبارہ سے بحال کیا اور بہت سارے وفاقی بیوروکریٹس کی تقرریاں کی گئیں جس کے بدلے میں کم ترین وقت میں جائز و ناجائز طریقے سے دولت کے انبار جمع کر نا تھا جو بعد میں سنبھالنا مشکل ہو گئے۔ سول ملازمین نے بھی سیاسی رسیوں پر چلنا بخوبی سیکھ لیا ہے۔ اب وہ بخوبی جانتے ہیں کے چور دروازے سے کس طرح طاقت کے ایوانوں کی چابیاں حاصل کر کے پالیسیوں کو بدلا جا تا ہے، کیسے شاہانہ طرز زندگی اختیار کی جاتی ہے، کیسے شفاف کرپشن کی جاتی ہے اور بونسسزکی مد میں کیسے فائدے اٹھائے جا تے ہیں۔ سیاسی بیوروکریسی کا مقصد ذاتی مفادات کے لیے حکمران طبقے کوخوش کرنا ہوتا ہے۔ عام شہری جس کے ٹیکسوں سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں اس کو تو وہ خاطر میں نہیں لاتے۔ اب سیاسی بیوروکریسی نے تو تختہ پلٹ دیا ہے،یہ ملازم سے مالک بن چکے ہیں۔ اداروں کی حکمرانی اور بقاء کو کرسی کی لڑائی کی نظر کر دیا گیا۔کوٹہ سسٹم کے زریعے من پسند افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کو بعد میں اپنے اہداف کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔ کوٹہ سسٹم نہ صرف نظام کو تباہ کر تا ہے بلکہ بیوروکریسی کو کمزوراور نااہل بنا دیتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی قابل اور اہل بیوروکریٹس کو تیار کرنے سے قاصرہے۔ موجودہ تعلیمی نظام نمبر گیم اور ڈگریوں سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن صرف 7.5% تعیناتیاں اوپن میرٹ پر کر تا ہے جبکہ92.5% تقرریاں کوٹہ سسٹم کے تحت ہوتی ہیں۔ اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ غریب طبقہ بہترین صلاحیتوں کا مالک ہے مگرناکافی تعلیمی قابلیت اور مالی نا مساعد حالات کی وجہ سے مقابلے کے امتحانات میں شرکت نہیں کر سکتا۔ ایف پی سی ایس افسران کو سول سروس اکیڈمی، MPDD،NSPاور PASC کے زریعے تیار کیا جا تا ہے۔ زیادہ تر تربیت مہمان مقررین کے زریعے سرانجام پاتی ہے۔ ملٹی میڈیا کا استعمال کیا جا تا ہے جس میں زیرو فیصد تحقیقی اہداف شامل ہوتے ہیں۔ ترتیب دیا گیا نصاب فرسودہ ہے اور اس میں جانچنے کا معیار بہت کمزور ہے جس کی وجہ سے مستقبل کے بیوروکریٹس کو عملی میدان میں پیش آنے والے مسائل سے نمپٹنے کے لیے تیار نہیں کیا جا تا۔ پڑھے لکھے ذہین اور علمی و ادبی فراد اپنے تبادلے، معطلی اور نوکری سے برخاستگی کے ڈر سے سمجھوتہ کی پالیس پر کاربند رہ کر نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرتے ہیں بلکہ قومی و ملکی زوال کا سبب بھی بنتے ہیں۔ پبلک سروس کے تصور کو داغ دار کرنا اور عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا انتہائی تکلیف دہ عوامل ہیں جو مجموعی طور پر بدعنوانی اور لاقانونیت کو جنم دیتے ہیں۔ ذہنی اور اخلاقی فالج زدہ انتظامیہ غربت، آبادی کے پھیلاو اور نقل مکانی، فرقہ واریت، صوبائیت، لا قانونیت اور معاشی تنزلی کی ذمہ دار ہے۔ بیوروکریسی کو تیار کرنے والا موجودہ نظام ان تمام مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ نوآبادیاتی نظام سے بیوروکریسی کو کام کرنے اور مسائل کو حل کرنے کی جو صلاحیتیں اور تجربات ملے تھے وہ اس نے سیاست کی نظر کر دیے۔ تحقیق کی کمی، فرسودہ نظام و نصاب اور رٹے کی بنیاد پر ملنے والی ڈگریوں نے موجودہ بیوروکریسی کو نااہل بنادیا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ملک میں تربیت کے ادارے موجودہ اور سابقہ ادوار کی ناکام بیوروکریسی ہی چلا رہی ہے تو ہم مستقبل میں بہتر ی اور تبدیلی کی امید کیسے لگا لیں۔ حکومتیں بیوروکریٹس کو نوازتی ہیں مگر ملک و قوم کی فکر نہیں۔ غیر قانونی تقرریوں اور سیاسی ترقیابی نے بھی بیوروکریسی کو کام سے ہٹا کر سیاست پر لگا دیا ہے۔ ہم نے چھکڑے کو گھوڑے کے آگے باندھ رکھا ہے۔ ہمیں جلد یا بدیر نظام کو درست کرنا ہو گا ورنہ آگے بڑھنا یا ترقی کی منازل طے کرنا شیخ چلی کے سپنوں کے سوا کچھ نہیں۔ 


شیئر کریں: