Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

صوبے کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی ……محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے انکشاف کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے چھ بڑے منصوبے سی پیک میں شامل کئے گئے ہیں۔ سی پیک کے تحت رشکئی خصوصی اکنامک زون کے ترقیاتی معاہدے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں جس پر ایک سے دو ماہ کے اندرکام شروع ہو جائے گا۔ اس منصوبے سے تقریباً 1.9 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری جبکہ پچاس ہزار براہ راست اور تقریباً ڈیڑھ لاکھ بالواسطہ روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔ محمود خان نے کہاکہ خیبرپختونخوا اپنی بہترین جغرافیائی لوکیشن اور قدرتی وسائل کی وجہ سے پورے خطے میں صنعت و تجارت کا حب بننے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، جس سے چین اور پاکستان دونوں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ چینی سرمایہ کار آگے آئیں اور صوبے میں سرمایہ کاری کریں، حکومت ہر ممکن سہولت فراہم کرے گی۔وزیراعلیٰ نے واضح کیا کہ صوبے کے اپنے متعدد اکنامک زونز پر بھی کام جاری ہے۔ ہم 3125 ایکڑ اراضی پر مشتمل درابن اکنامک زون کو سی پیک میں شامل کرنے کی کوشش کر یں گے۔ یہ صوبے کا بڑا اکنامک زون ہے جو وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری اور روزگار کے فروغ کا باعث بنے گا۔ صوبے میں مواصلاتی نیٹ ورک کی بہتری اور صنعتی ترقی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ سوات موٹروے کا فیز ون مکمل ہوچکاہے جبکہ اس کے فیزٹو پر بھی جنوری تک کام شروع کر دیا جائے گا۔ دیر سے چترال تک ایکسپریس وے بھی تعمیر کی جائے گی جو افغانستان اور اس سے منسلک وسطی ایشیائی ممالک تک آسان رسائی میں مدد گار ثابت ہو گی۔ پشاور سے طور خم خیبر پاس اکنامک کوریڈور پر بھی جلد کام شروع کیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا میں کلین اینڈ گرین انرجی کی خاطر خواہ استعداد موجود ہے۔ متعدد پن بجلی منصوبوں پر کام شروع کیاگیاہے جن سے پیدا ہونے والی بجلی صوبے میں صنعتوں کو سستی قیمت پرفراہم کی جائے گی۔چین پاکستان اقتصادی راہداری کا خاصہ یہ ہے کہ یہ منصوبہ صرف روڈ انفراسٹرکچر تک محدود نہیں بلکہ صنعت، زراعت، توانائی، سیاحت اور سماجی بہبود کے منصوبے بھی اس کا حصہ ہیں۔ خیبر پختونخوا میں سی پیک کے تحت مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے اور صوبائی حکومت متعدد میگا منصوبے سی پیک میں شامل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔خیبر پختونخوا میں تین شعبے ایسے ہیں جن پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آج تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اگر ان شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری آجائے تو نہ صرف لاکھوں افراد کو روزگار کے مواقع ملیں گے بلکہ ہمارا صوبہ مالی طور پر خود کفیل ہوسکتا ہے اور وہ تین شعبے سیاحت، معدنیات اور ہائیڈرو پاور جنریشن کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس صوبے کو حسین قدرتی مناظر سے مالامال کیا ہے یہاں گھنے جنگلات بھی ہیں برف پوش، فلک بوس پہاڑ بھی ہیں،سینکڑوں کی تعداد میں گلیشئرز کی بدولت اس صوبے میں آبی وسائل کی فراوانی ہے۔ یہاں کے پہاڑقیمتی اور نیم قیمتی پتھروں کے ذخائر سے مالامال ہیں جن میں سونا، زمرد، جپسم، یاقوت، اینٹی منی، سنگ مرمر، شیلائیٹ اور یورینیم وغیرہ شامل ہیں۔روڈانفراسٹرکچر نہ ہونے اور مالی وسائل کے فقدان کی وجہ سے ان چھپے خزانوں سے آج تک استفادہ نہیں کیا جاسکا۔اس صوبے کے دریاؤں سے پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے۔صرف دریائے چترال، دریائے سوات اور دریائے پنج کوڑہ سے ڈیم بنائے بغیر 25ہزار میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکتی ہے جو مجموعی ملکی ضروریات سے بھی زیادہ ہے۔ اگر صوبائی حکومت ان تین شعبوں کو سی پیک میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئی تو اس صوبے میں ترقی کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ترقی ہموار سڑک پر سے سفر کرکے آتی ہے ہماری پسماندگی کی بڑی وجہ ضرورت سے کم روڈ انفراسٹرکچرہے۔ اس صوبے کی 70فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں آمدورفت کی سہولیات برائے نام ہیں۔ آج بھی صوبے کے بعض دیہی علاقوں میں مریضوں کو چارپائیوں پر لٹاکر لوگ انہیں اٹھاکر میلوں پیدل چل کر ہسپتالوں میں پہنچاتے ہیں۔اس صوبے کے حسین قدرتی مناظر کو دیکھنے کے لئے لاکھوں کی تعداد میں ملکی و غیر ملکی سیاح پہاڑی علاقوں میں جانا چاہتے ہیں مگر ہموار سڑکیں نہ ہونے، سیاحتی مقامات پر سہولیات کے فقدان کی وجہ سے نہیں جاپاتے۔معدنیات کو ایکسپلور کرنے کے لئے بھی بھاری مشینری پہاڑوں تک پہنچانی ہوتی ہے سڑکوں کی مخدوش حالت کی وجہ سے بھاری مشینری معدنی ذخائر تک پہنچانا ممکن نہیں اس وجہ سے اربوں کھربوں روپے مالیت کے خزانے پہاڑوں میں مدفون ہیں۔بھاری شرح سود اور ناپسندیدہ شرائط پر بیرونی قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے وسائل کو فروغ دے کر اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہونے کی منصوبہ بندی کی جائے تو پانچ دس سالوں کے اندر پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکتا ہے۔


شیئر کریں: