Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

اتحاد امت کی نا گزیر ضرورت…..تحریر: محمدآمین

شیئر کریں:


اج کل امت محمدی جس بحران سے گزر رہا ہے صرف ایک چیز ان کو اس دلدل سے نکال سکتا ہے اور وہ ہے امت میں اتحاد کی اشد ضرورت۔اس حقیقت کو ہر مسلمان یو ں محسوس کرتا ہے جس طرح وہ اپنی صحت و بیماری،بھوک اور پیاس جیسی طبیعی و فطری حالتوں کو محسوس کرتا ہے طاغوتی قوتیں مسلمانوں کو فرقہ بندی اور ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں ان میں مسلک اور لسانی عناصر کے زریعے ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور حالت زر یہ ہے کہ بہت سارے اسلامی ریاستیں ان کے الہ کار بنے ہوئے ہیں تاکہ ان کے چھپے ایجنڈے حاصل ہو سکیں اور مسلمانوں کو لڑا کر ایک طرف ان کو کمزور بنا دیا جائے اور دوسری طرف ان کے قدرتی وسائل پر قابض ہو سکیں۔


عمومی طور پر ہم مسلمان ہمیشہ آرزون کی رسی سے معلق رہتے ہیں عمل کی بجائے باتوں کو کافی سمجھتے ہیں،حقائق کے بجائے ظاہری امو ر کے گرد چکر لگاتے ہیں،کسی بات کی تہ تک پہنچنے کی بجائے اوپر سے گزرتے ہیں۔ہمارے اس رویے کے بالکل بر عکس ہمارے بزرگ سعی و کوشش کے مالک تھے وہ گفتار سے پہلے کردار کی سچائی کے حامل تھے بات کی بجائے پختہ ارادوں کے مالک تھے۔


ہم اتحاد و اتفاق کی اعلانات تو کرتے ہیں،گلے پھاڑ پھاڑ کے تقاریر کرتے ہیں اور اس قسم کی تحریروں سے اخبارات و جرائد کے صفحات کو بھر دیتے ہیں،پھر یہ گماں کر لیتے ہیں کہ ہم نے اتحاد کے اہم مقصد کو حاصل کر لیے ہیں اور ہم ایسی ذندہ قوم میں بدل گئے ہیں جس نے اپنی وحدت و یکجہتی و عزت و عظمت کو پالیا ہے اور وہ مقام حاصل کیا ہے جس کی وہ مستحق ہے۔انہی وجوہات کی بناء پر ہمیں تنزل کے علاوہ کچھ نصیب نہیں ہوتا اور ہماری کوششوں کا نتیجہ سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں نکلتا اور ہمارے سارے اقوال و اعمال غیر موثر ہو کے رہ جاتے ہیں۔یہ ساری باتیں اس وقت تک کام نہیں ائیں گے جب تک مسلمان اپنی اندر بنیادی طور پر تبدیلی نہ لائیں،سنجیدہ کوشش نہ کریں اور اپنے اسلامی، اخلاق و عادات کی صحیح طور پر حفاظت نہ کریں۔اتحاد امت کے لیے نفسانی خواہشات کو لگام دینا ہوگی اور عقل و خرد،فہم و فراست اور حکمت و دانشمندی کو ازادی کے ساتھ سوچنے کا موقع فراہم کرنا ہوگا۔اس صورت میں ہر مسلماں اس حقیقت کا ادراک کرے گا کہ اس کے مسلمان بھائی کی مصلحت اور بھلائی درحقیت اس کی اپنی مصلحت و بھلائی ہے تب وہ مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کے لیے اس طرح کوشش کرے گا جس طرح وہ اپنی ذاتی مفادات کے لیے کوشش کرتا ہے۔یہ بات اس وقت عملی جامہ پہن سکے گا جب ایک مسلمان کا دل دوسرے مسلمان کے حوالے سے کینہ و عداوت اور حسد سے پاک ہو جائے گا اور ہر مسلمان دوسرے کو دوشمنی اور غضب کی نگاہ سے نہیں بلکہ اخوت و رضامندی کی نظر سے دیکھیں اور ایک دوسر ے کے ساتھ انتقام و سختی سے نہیں بلکہ شفقت و مہربانی سے پیش ائیں۔یہ کیفیت اس وقت پیدا ہوگی جب ایک مسلمان اپنے قلب و ضمیر کی گہرائیوں سے یہ محسوس کرے کہ اس کی عزت و احترام اس کے دوسرے مسلمان بھائیوں کی عزت و احترام کے ساتھ منسلک ہے۔


ملی امور کو حاصل کرنے کا بنیادی اصول اور فارمولہ یہ ہے کہ حرص و لالچ،برتری جوئی،ناروا امتیاز،حسد اور دوسروں کو پیچھے دھکیل کر خود اگے بڑھنے کی بری صفات سے نجات حاصل کی جائے کیونکہ یہ بری صفات بد بختی اور افات کی زنجیر ہیں جس کی کڑیاں ایک دوسرے سے متصل ہیں اور ان میں سے ہرا یک صفت انسان کو بری صفت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے نیز عقل سلیم اور مشاہدہ یہ سچی گواہی دیتی ہے کہ جہاں کہیں بھی یہ برائیاں موجود ہو وہاں قومین فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہیں،پختہ عزائم اپنی موت اپ مر جاتے ہیں،ارادے ناکام ہوتے ہیں اور اس قوم کا شیرازہ بکھر جاتا ہے اس مرحلے پر وہ غلامی،استحصال،ہلاکت و تباہی،اجنبی لوگوں کے غلبے اور دشمنوں کی بلادستی جیسی ذلتوں سے دوچار ہوجاتی ہے۔


اگر کسی قوم کے افراد کے نظریات میں ہم اہنگی،ترجیحات میں مطابقت،دلوں میں الفت ہو اور وہ باہمی تعاون اور فکری طور پر ایکدوسرے کی مدد اور فیصلوں میں ایکدوسر کی تائید جیسی اچھی صفات کی حامل ہو تو ایک دوسر ے کے لیے ان کے دلوں میں نفرت اور سینوں میں کینہ و عداوت نہیں ہوگی وہ مدد کے مواقع پر تعاوں سے نہیں ہچکچائیں گے ایسی حالات میں قوموں کو عزت و بقا،عافیت و خوشحالی،طاقت و غلبہ،دولت و حکومت اور شان و شوکت کی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے۔اللہ انہیں سختیوں سے کشائش اور مشکلات سے نجات بخشتا ہے ان کی ذلت و غلامی کو عزت و استحکام میں اور خوف و وحشت کو امن و امان میں بدل دیتا ہے۔آج مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اسلام سے پہلے اپنے اباوٗاجداد کی حالت سے عبرت حاصل کریں کہ وہ دنیا میں پست و زلیل تھے سختی و مشکلات میں گرفتار تھے،قوموں میں سب سے کمزور اور بد حالی کے شکار تھے انہیں نہ کسی نظریے اور فکر کی پشت پناہی حاصل تھی اور نہ ہی مشکلات و افات اور ویران کن جنگوں سے فرار ہونے کی گنجائش،زندہ در گور بچیان،بت پرستی،قطع رحمی اور خون ریزی ہی ان کی پہچان تھی۔جب اللہ نے اسلام کے زریعے انہیں متحد فرمایا،توحید کے زریعے ان کی شیرازہ بندی کی،دعوت پر مبنی ان کے پرچم کو عزت بخشی تو رحمت خداوندی نے ان کے لیے اپنے پر پھیلادیے،اپنی نعمتون کے دریا بہا دیے اس طرح ان کی ذندگی میں بہار ائی،اتحاد و اتفاق سے انہیں ناقابل تسخیر قوت و غلبہ کے قلعہ میں پناہ دی اور مستحکم و اقتدار سے انہیں نوازا۔یوں وہ اپنی سابقہ پستی و زلت سے نکل کر دنیا کے حاکم بن گئے اور اطراف و عالم کے بادشاہی سے لطف اندوز ہوئے اور مملکتوں کی تقدر کے مالک بن گئے اور جہاں چاہتے اپنے احکام کا اجرا کرتے رہے۔یہ سب اسلئے ہوا کہ اس وقت مسلماں ہمہ گیر وحدت اور سچی اخوات کے حامل تھے مسلمانوں کے مفاد اور نفع نقصاں مشترک تھے اور ان کے عزائم و ارادے ایک دوسرے کے موافق تھے ایک مسلمان دوسرے کے حق میں مدد،تعاوں اور حقوق کی رعایت کے سوا اور کچھ نہیں سوچتا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے


جن کو اپنے نفس کے لالچ سے محفوظ رکھا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں،،
دوسری جگہ پھر ارشاد تعالی ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو،،
ایسا اتحاد اگر وجود میں ائے تو منافع سب کے لئے ہوں گے،فوائد و برکات مین سب شریک ہو نگے اور حقوق و فرائض بھی یکساں طور پر سب پر لاگو ہو نگے۔اتحاد کا معنی یہ ہر گز نہیں کہ ایک گروہ دوسرے کے حقوق غصب کر لیں تو مظلوم خاموشی اختیار کر لے اور نہ ہی یہ انصاف ہے کہ کوئی اپنے حقوق کا مطالبہ کر لے اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر فریاد کر لے تو یہ کہیں کہ تم فسادی ہو اور امت کی صفوں میں نفاق پھیلانا چاہتے ہو،بلکہ اتحاد یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس کے مطالبے کو سن لیں اگر وہ بر حق ہے تو ضرور اس کی مدد کی جائے۔


آجکل ایک سیدھی سادہ مسلمان بھی جانتا ہے کہ عالم اسلام کے تمام ملکوں اور علاقوں میں استعمار کے ایجنڈ موجود ہیں،استعماری اژدھے منہ کھولے اسلامی سر زمین کے ہر خطے میں موجود ہیں تا کہ اس سر زمین اور اس کے وسائل کو لقمہ کی طرح نگل لے۔کیا یہ بات کا فی نہیں کہ مسلماں متحد ہو جائیں اور ان کے اندر غیرت و حمیت کی اگ بھڑک اٹھے؟ کیا عالم اسلام کو درپیش مصائب عالم کی سختی اور ان کھٹن حالات کے دکھ درد موجب نہیں بن سکتے کہ مسلماں باہمی عداوتوں اور کینہ و کدراتوں کا خاتمہ کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔


مسلمان اپنے سخت دشمنوں کو بھول چکے ہیں جو ان کی گھاٹ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور تما م مسلمانوں کو نست و نابود کر نے کے درپے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ امت محمدی کے درمیاں اختلاف و دشمنی کا بیچ بوئیں تاکہ مسلمان ایکدوسرے کے خلاف بر سر پیکار رہیں اور اپنے مکرو فریب کا جال بچھا کر مسلمانوں کو شکار کر سکیں۔اجکل فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ سارے ان ہتھکنڈوں کی ذندہ تصوریں ہیں اور مسلماں خرگوش کی نیند سوئے ہو ئے ہیں۔


شیئر کریں: