Chitral Times

Mar 28, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

سامان سوبرس کا، پل کی خبر نہیں……. محمد شریف شکیب

شیئر کریں:


سوشل میڈیا میں ایک صاحب نے لالچ اور ناجائز دولت کمانے کے دردناک انجام سے متعلق ایک سبق آموزاور سچا واقعہ بیان کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے شہر کے نواحی علاقے میں ایک شخص کو دیکھا جو گلے میں پلاسٹک کے ڈبے میں پانی بھر کر اپنا دایاں ہاتھ اس میں ڈبو کر رکھتا ہے۔انہوں نے ہاتھ پانی میں ڈبونے کی وجہ پوچھی تو اس شخص نے ایک دردناک واقعہ بیان کیا، کہنے لگا کہ اس کا ایک تاجردوست بہت گرانفروش اور اشیائے خوردنی میں ملاوٹ کا عادی تھا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی اور بے ایمانی سے بہت ساری دولت جمع کررکھی تھی۔ جب مرنے لگا تو انہوں نے وصیت کی کہ ان کی تمام نقدی، سونا اور چاندی ان کے ساتھ قبر میں دفنادیئے جائیں۔ وصیت کے مطابق ان کی ساری دولت لاش کے ساتھ دفنا دی گئی۔ کچھ عرصے بعد اس نے سوچا کہ اس کے دوست کی قبر میں لاکھوں کی دولت پڑی ہے لاش تو خاک میں مل گئی ہوگی۔دولت کو ضائع کرنے کے بجائے اپنے کام میں کیوں نہ لاؤں۔ یہ سوچ کر انہوں نے رات کی تاریکی میں دوست کی قبر کوتوڑنا شروع کیا۔قبر میں سوراخ کرکے جب اس نے پیسے اور زیورات نکالنے کے لئے اس میں ہاتھ ڈالا تو قبر تندور کی طرح دھک رہی تھی اور اس کا ہاتھ جل کر کوئلہ ہوگیا۔اس نے ہر جگہ سے علاج کروایا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ جب ہاتھ پانی میں ڈبو تا ہے تو اسے کچھ دیر کے لئے سکون ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے پانی کا ڈبہ گلے میں لٹکا رکھا ہے تاکہ ہاتھ کے ناقابل برداشت جلن سے اسے کچھ افاقہ ملے۔ہمارے اردگرد سینکڑوں لوگ ایسے ہیں جو بے ایمانی، کرپشن،ملاوٹ، گرانفروشی اور ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے عادی ہیں۔کوئی منشیات کا کاروبار کرتا ہے، کوئی رشوت لیتا ہے، کوئی دوسروں کی جائیدادوں پر جعل سازی کے ذریعے قبضہ کرتا ہے۔کوئی اسلحہ کی سمگلنگ کا کاروبار کرتا ہے۔کوئی گوشت میں انجکشن کے ذریعے پانی ملاتا ہے، کوئی چائے میں چنے کے چھلکے ملاتا ہے کوئی مصالحوں میں لکڑی کے برادے اور اینٹیں پیس کر ملاتا ہے،کوئی رشوت لیتا ہے کوئی کنڈے لگا کربجلی چوری کرتا ہے۔اسی بجلی کی روشنی میں وہ نماز پڑھتا اور تلاوت کرتا ہے۔ غیر قانونی طریقوں سے حرام کی دولت جمع کرکے حج اور عمرہ کرتا ہے۔ کوئی قومی خزانے کا نگران بن کر اسے لوٹ لیتا ہے ٹیکس چراتا اور کمیشن لے کر دولت کے انبار لگاتا ہے۔ کوئی سرکار کی نوکریاں بیچ کر کروڑوں کا مال بناتا ہے۔ اسی دولت سے وہ ٹھاٹ باٹ کی زندگی گذارتا ہے لوگوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے ناجائز ذرائع سے دولت جمع کی ہے پھر بھی دولت اور اثرو رسوخ کی وجہ سے ان کی عزت کرتے ہیں۔وہ دولت کے بل بوتے پر اپنا ہر جائز اور ناجائز کام نکلواتے ہیں غیر قانونی ذرائع سے دولت جمع کرنے کو وہ اپنی ہوشیاری اور چالاکی گردانتے ہیں ان کا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا کیونکہ انہوں نے ضمیر نامی چیز کو تھپکیاں دے کر سلایا ہوتا ہے۔ دولت مندوں کی عیاشیاں،لائف سٹائل اور اثرورسوخ دیکھ کر عام لوگ بھی ان کی روش اپنانے کی کوشش کرتے ہیں اس طرح پورا معاشرہ خیانت، بے ایمانی، رشوت خوری اور کرپشن کی دلدل میں پھنس جاتا ہے۔آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے۔ قدرت ہمیں کبھی سیلاب، کبھی زلزلے، کبھی جابر حکمران،کبھی بے وقت کی تباہ کن بارشوں کی صورت میں خواب غفلت سے جگانے کا بندوبست کرتا ہے مگر ہم ٹس سے مس نہیں ہورہے۔ ہم آفتوں، بلاؤں اور وباؤں سے بچنے کی دعائیں کرتے ہیں باران رحمت کے لئے نمازیں پڑھتے ہیں لیکن ہماری شنوائی نہیں ہوتی۔بدقسمتی سے قوم کو جگانے والے خود خواب غفلت میں مبتلا ہیں محراب و منبر سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درس دینے کے بجائے تعصب اور نفرت کا سبق دیا جاتا ہے ہمارے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کو باعمل، باکردار مسلمان اور محب وطن شہری بنانے کے بجائے ڈاکٹر،انجینئر، بینکار، سیاست دان اور وکیل بنانے پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ان تمام برائیوں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موت کو بھلادیا ہے۔ قبر کے عذاب اور اللہ تعالیٰ کے روبرواپنے اعمال کا حساب دینا کسی کو یاد نہیں رہا، ہم سو برس تک جینے کاسامان جمع کرنے میں مگن ہیں لیکن پل کی خبر نہیں ہوتی۔ ہماری پوری توجہ دنیاکی جاہ و حشمت کے حصول پرمرکوز ہے۔اور یہ عیش و عشرت حلال کی کمائی اور جائز دولت سے ممکن نہیں۔پھر بھی ہم یہ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم پر ظالم اور جابر لوگ حکمران ہیں جن کو عوام کی کوئی فکر نہیں۔کیاکبھی ہم نے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھا ہے کہ ہم کتنے ایماندار، باکردار، صالح اور راست گو ہیں۔


شیئر کریں: