Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آل پارٹیز کانفرنس حقیقت یا افسانہ :محمد آمین

شیئر کریں:


اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں سیاسی عدم استحکام،گاتھ جوڑ اور تھوڑ پھوڑ کے بہت سارے داستان ہمیں نظر اتے ہیں مملکت خداداد پاکستان کی بدقسمی اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب بانی پاکستان حضرت قائد اعظم کی ناگہانی موت 1948؁ء میں واقع ہوا اور پھر اٹھ سالوں تک اس نئے ریاست کے لیے کوئی ائین بن نہ سکا۔کہا جاتا ہے کہ بدقسمتی کبھی بھی اکیلی نہیں اتی۔ پاکستانی سیاست کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے ک ہر دور میں مختلف حکومتوں کیخلاف کئی قسم کے تحریکیں چلی ہیں جن میں کئی چند جمہوریت کی بحالی کے سلسلے میں تھے لیکن اس قسم کی بعض تحریک نے ہم سے بہت کچھ چھیں لیا ہے جس کی مثال ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بعض مذہبی سیاسی جماعتوں کی مشترکہ مومنٹ تھی جن کو بیرونی قوتوں پشت پناہی حاصل تھی۔جب ؁1971 ء میں ذولفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور ملک کو ایک ایسا ائین دیا جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائیندوں کی شرکت اور مرضی شامل تھا اور پہلی دفعہ ملک میں غریبوں کی اواز سنی گئی اور انہیں با اختیار بنانے کے لیے اقدامات منظر عام پر انے لگے تو کچھ عناصر کو یہ راز نہ ائے کیونکہ وہ سٹٹاس کو کو ہر صورت میں برقرار رکھنا چاہتے تھے اور کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ غریب با اختیار ہو جائیں۔


پاکستان کی سیاسی تاریخ کا تاریک ترین دور جنرل ضیاء الحق کا تھا جب تمام قسم کی سیاسی ازادیوں پر قد غن لگائی گئی تھی مخالفین کے لیے کوڑے برسائے جاتے تھے اور کردار کشی عام تھی اس کی وفات کے بعد ملک میں سیاسی اور جمہوری دور کا اغاز ہونے لگا لیکن سیاست دانون کی رسی کسشی اور گاتھ جوڑ کی بناء کوئی حقیقی جمہوریت پرواں نہ چڑھ سکا اور جمہوریت سیاسی انتقام اور ذاتی مفادات کے شکار ہوا۔ہمیں وہ دور بھی یاد ہے جب ایک سیاسی جماعت کے بزرگ نے دوسر ے سیاسی جماعت کے بڑے کو اسلام اباد کے دی چوک میں لٹکانے کا وعدہ کیا تھا تاکہ قوم کی لو ٹی ہوئی دولت ان سے واپس لی جائے۔لیکن اقتدار میں انے کے بعد سب کچھ بھول کر مفاہمت کا عزم ہمارے ہاں بہت مقبول ہوتا ہے تاکہ مزے سے کھائیں اور عوام کی لوٹی ہوئی دولت سے باہر جائداد خریدیں تاکہ بوقت ضرورت کام ائیں۔


یہ ایک حقیقت ہے کہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ میں ایک خلا پیدا ہو ا تھا جس سے سیاسی میدان میں دھند پیدا ہوا تھا اور عوام بڑے پریشان تھے کہ کب ان کی قسمت میں ایک دیانتدار اور مخلص لیڈر اجائے تاکہ وہ اندرونی اوبیرونی طور پر ملک کو سنبھال سکیں اللہ کی ہاں دیر صحیح لیکن اندھیر نہیں ہوتا اور مسلمان کبھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ہیں، اور عوام کی یہ آرزو عمران خان کی روپ میں سامنے ایا۔بائیس سال لمبی جدوجہد بڑی تکلیف دہ ہوتی ہے آزمائیش سے بھرا ہوا ہوتا ہے لیکن اس مرد مجاہد نے ہمت نہیں ہارا،ا اور ایک نئی امید کی کرن نمودار ہونے لگی کیونکہ سب جانتے ہیں کہ عمران خان ملک کے لیے درد رکھنے والا انساں ہے نہ اس کہ بیرونی کوئی پراپرٹی ہے نہ پاکستان میں کوئی بڑے پیمانے پر صنعت یا تجارتی مراسم۔بس اس کے پاس اگر کچھ ہیں تو وہ ہیں شوکت خانم ہسپتال،عمران خان فاونڈیشن اور نمال یونیورسٹی۔جب اس نے فرسودہ سسٹم کو تبدیل کرنے کا عزم کیا،میگا کرپشن جو ریاست کا دستور بن چکا تھا کے خلاف ایکشن نظر انے لگے اندرونی طور پر فرسودہ نظام میں تبدیلی کے اثرات سامنے انے لگے اور بیرونی سطح پر ملک کی صحیح معنوں میں نمائیندگی ہونے لگی تاکہ خارجہ پالیسی کی بنیاد برابری اور انصاف کے اصولوں پر استوار ہو سکیں تو بعض قوتوں کو یہ راز نہ اسسکے، کہ ملک میں انصاف ہو اور امیرو غریب کے لیے قانوں یکسان ہو یکسان تعلیمی نصاب ہو،تاکہ امیر اور غریب کے بچے ایک جیسے نصاب سے استعفادہ حاصل کرسکیں۔تو ان مفاد پرست جماعتوں اور عناصر نے تحریک انصاف کے حکومت کے خلاف میدان میں انے لگے ان میں بعض ان جماعتوں کے وارث ہیں جنہوں نے بھٹو کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیے تھے اور اب ان کا اگلہ نشانہ عمران خان ہے کیونکہ اس نے بھی فرسودہ سسٹم اور statu quoکو للکارا ہے۔حال ہی میں اسلام اباد میں جو آل پارٹیز کانفرنس ہوا تھا اس کے تقریبا 26 نکات ہیں ان کو دیکھ کر ایک عام تجس کے انسان کو بھی ہنس ائے گی کہ یہ کس قسم کے مطالبات ہیں ہیں۔مثلاقرارداد کے شق نمبر ۱ کے مطابق سیاسی جماعتوں کے اس اتحاد کا نام،،پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ رکھا گیا ہے جس کا مقصد عوام اور غریب دشمن حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک چلانا ہے۔شق نمبر۴ کے مطابق حکومتی ناکام پالیسیوں کے سبب تباہ حال معشیت پاکستان کے دفاع،ایٹمی صلاحیت اور ملک کی باوقار خودمختاری کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہے۔شق نمبر ۷ اور ۸ کے مطابق حکومت وقت کو سقوط کشمیر اور ناکام افغانستان پالیسی کاذمہ دار ٹھرایا گیا ہے،شق نمبر 15 میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے قبائلی علاقوں کو نو گو ایریا بنادیا ہے۔مختصرا اس قراردار کے زریعے پاکستان تحریک انصاف کو ملک کے اندرونی اور بیرونی تمام مسائل اور برایؤں کا جڑھ قرار دی گئی ہے۔


لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ان میں ایک سیاسی جماعت نے تین دفعہ اقتدار میں ایا تھا دوسرا دو دفعہ جبکہ تیسرا ہر دفعہ ان کے ساتھ اقتدار کے مزے چکھتا رہا،حالانکہ پی ٹی آئی کی دورانیہ صرف دو سال ہے۔ جو مطالبات انہوں نے اس قرارداد میں کیئے ہیں ان میں انکے سابقہ پروگریس کیا ہے؟ سب کو پتہ ہے کہ زیرو ہے اور اپنی ناکامی موجودہ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔۔اج کل موجودہ حکومت کو جو چیلنچز درپیش ہیں یہ ان کے ادوار کے بقیات ہیں جن کا ازالا موجودہ حکومت بھگت ر ہا ہے۔ ملکی تاریخ ستر اور اسی کے دھائی کے عشروں کو دہرارہی ہے جب ان جیسی حرکتوں کی بدولت ملک تنزل کی طرف گامزن تھی اور لیدرشب گیپ پیدا ہوا تھا اج وہی لوگ عمران خان کے خلاف نبرد ازما ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر یہ زیادہ دیر اقتدار میں رہا تو ان کی سیاسی کھیل ختم ہونے کے قوی امکانات ہیں اور ساتھ ان کے مزے کے دن بھی ختم ہو سکتے ہیں اگر مولانا صاحب کو کشمیر کا قلمدان دیا جائے تو کبھی بھی وہ حکومت کے خلاف وہ نہیں بول سکتا۔دوسرا بڑا دکھ اس کے سیٹ کھونے کے ہیں جن میں بڑے سیای پہلواں ان کو شکست نہیں دے سکے۔ دیگر جماعتیں این آر او کی تلاش میں ہیں کہ حکومت پر ہر قسم کے دباو ڈالا جائے تاکہ ان کو این ار او مل جائے جو ان کے لیے ناممکن ہے کیونکہ عمران کسی صورت میں یہ نہیں دے گا کیونکہ یہ کسی بھی با ضمیر ادمی کو گوارا نہیں کرے گا۔ یہ وقت سوچنے کا ہے اور منفی حالات جن میں covid 19 سر فہرست ہیں کے خلاف حکومت کی مثبت اور جامع پالیسان جاری ہیں ان حالات میں ایک پر خلوص،دیانتداراور درد رکھنے والی لیڈر کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ملکی کشتی کو سلامتی کے ساتھ ساحل تک پہنچاسکے۔جو فرقہ واریت،لسانیت اور صنعتی ایمپائر بنانے کے لالچ سے پاک ہو ایسا لیڈر صرف عمران خان کے علاوہ کوئی دوسرا دستیاب نہیں۔


اگر ال پارٹیز کانفرنس میں شامل اتحادیوں کا ماضی دیکھا جائے تو ان کے منشور اور سوچ و فکرمیں بڑا فرق ہے ان کی الائینس بنے کا وجہ ہمیں پندرہویں صدی عیسوی کے میکاولین اصولوں کی یاد دھانی کراتی ہے کہ اقتدار کے خاطر تما م اخلاقی اور قانونی اصولوں کو پائمال کرنی چاہئے فریب اور لالچ سیاسی الہ کا ر ہونی چاہئے۔اس کو ہم سادہ الفاظ میں (marriage of conveneince) بھی کہہ سکتے ہیں یا یہ کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔یہ تمام سیاسی جماعتین اور ان کے رہنما ایک دوسرے کو کبھی بھی دل سے قبول کر نے کے لیے تیار نہیں ہیں،لیکن عمران خان کے خلاف متحد ہو نا ان کی سیاسی مجبوریان ہیں تاکہ وہ اپنے کیے پر پکڑ نہ سکیں اور مزے سے قومی دولت کو لوٹاتے رہیں۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
40549