Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

میرے دیس میں ۔۔۔۔۔ڈاکٹر خلیل

شیئر کریں:

موٹروے ریپ پرایک سنیر پولیس اھل کار کا بیان جسمیں کہا گیا کہ عورت اکیلی سفر کیوں کر رھی تھی، یا اس سے ملتی جلتی باتیں کہ عورت نے پاجامہ کیوں پہنا یا لڑکی نیم برہنہ کیوں تھی، اس نے برقعہ کیوں نہیں پہنا وغیرہ کو Victim Shaming یا victim blaming کہا جاتا ھے ۔ یعنی کسی عورت کے تنگ لباس وغیرہ کی وجہ سے اسکے ساتھ زیادتی کے جواز کو داقیانوسی نظریہ کہکر 100 سال پہلے کہیں دفن کیا گیا ھے ۔ اس کا فلاں پردو نہیں تھا اس نے برقعہ کیوں نہیں پہنا ۔ یا فلان چیز پر کوئی پہرہ کیوں نہیں تھا اسوجہ سے چوری کرنا میرا حق تھا وغیرہ ۔ یاد رھے اسطرح کے عذر اج کی دنیا میں ردی کی ٹوکری میں پھینکے جاتے ھیں ۔۔

اگر عورت نے پاجامہ پہن رکھی ھے تو ان پر تنقید کرنے کی بجائے اپنی انکھوں کو دوسری طرف کیوں نہیں پھرتے اپ کی انکھوں میں حیا کیوں نہیں ھے اپ کے اندر اتنا ایمان ھو کہ دوسرے کو مورد الزام ٹہیرانے کی بجائے اپنے اپ پر قابو رکھیں ۔

بحیثیت مسلمان ایمان اتنا مظبوط کریں کہ ایسی باتوں کو اپکی انکھیں دیکھ ہی نہ پائیں ۔ بلفرض اپ نے یہ ساری پابندیاں لگوادیں، کل کواس ملک سے باھر کہیں جانا پڑا تو کیا اپ وھاں عورتوں پر جھپٹ پڑیں گے یہ کہکر کہ اسکی ٹنگیں بلکل ننگی تھی یا اس کا ادھے سے زیادہ چھاتی ننگی تھی؟ کیا ایسی باتیں کرتے ھوے ھم سوچتے نہیں، ایسی صورت میں ھمیں مرد کیلیے کوی احکامات نہیں؟ کیا یہ ھمارے ایمان کا پول نہیں کھولتا جس کا ھم بار بار تذکرہ کرتے پھرتے ھیں ۔ کیا اس عورت پر تنقید کرنے کی بجائے ھمیں اپنے ایمان پر نظر ثانی نہیں کرنی چاھیے ۔۔

آج ھم ایک گلوبل ویلج میں رہ رھے ھیں ھماری زندگی دنیا کے دوسرے ممالک سے جڑے بغیر چلنا ممکن نہیں ھے ۔ ملک سے باھر اور تو اور تبلیغ والوں کو بھی جانا پڑتا ھے ۔ دنیا کا کوی ایسا ملک نہیں جہاں عورت پتلون نہیں پہنتی ۔ ھماری معیشیت کاروبار لین دین یہاں تک کہ مذھب باقی دنیا سے جڑی ھوی ھے ۔

کیا ھم خود کو پورے کائنات سے لاتعلق کرکے زندہ رہ سکتے ھیں جب سعودی عرب ایران جیسے ممالک کو بھی اپنے اقدار بدلنے پڑ رھے ھیں جن کے پاس تیل گیس کے لامحدود وسائل ھیں. اگر ھمیں دنیا نے بلیک لسٹ کرکے اپنے سے جدا کر لیا تو ھمارے پاس وہ کونسا خزانہ ھے جس کو استعمال کرکے زندہ رہ سکتے ھیں ۔ ایران تیل کے بدلے خوراک پر گزارہ کرتا رھا. سعودی والوں نے بھی اپنے طور طریقے بدلنا شروع کیا ھے ۔ کیا ھمیں یہ بدلتی دنیا نظر نہیں اتی ۔ کیا ھم خیالوں کی دنیا ھی یہ سمجھ کر زندہ رہ سکتے ھیں کہ ھمارے پاکستان کی طرح ملک دنیا میں کہیں اور موجود ھی نہیں یا ھمارے جیسے مسلمان ھم پاکستان جیسا اسلام روئے زمین پر کہیں موجود نہیں ۔

ھوش میں اکر حقیقت کی دنیا میں رھنا سیکھیں تو امید کی جاسکتی ھے کہ ھم دنیا زندہ رہ پایں گے۔ اگر چند افغانوں کے نقش قدم پر چلیں تو ھمارا انجام نھی وھی ھوگا جو اج افغانستان شام عراق وغیرہ کی ھے ۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامینTagged
40481