Chitral Times

Mar 29, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

.پس وپیش…عوامی ترجیحات اور قائدین کی سیاست…. تحریر: اے۔ایم۔خان

شیئر کریں:


چند دن پہلے موٹر وے پر ایک خاتون کے ساتھ  گینگ ریپ کا واقعہ پیش آئی تو یہ خبر ٹیلی ویژن ، اخبارون اور سماجی رابطے کے ذرائع پر حاوی رہی۔ بعد میں جب ایف۔بی۔آر نے  ٹیکس  دہندگان اور نادہندگان کے حوالے سے  رپورٹ جاری کی، خصوصاً سیاسی رہنماون کا،  تو میڈیا میں سیاست اور سیاست دان کی بات شروع ہوئی۔ اسی اثناء میں جب سیاسی جماعتون کا آل پارٹیز کانفرنس کی بات ہوئی تو ہر خبرپس منظر میں چلی گئ۔  

گزشتہ روز سیاسی جماعتون کے اس اجتماعی اجلاس میں جمہوریت، ووٹ کی عزت، ناجائزحکومت، سلیکٹڈ حکومت ، سپر سٹیٹ وغیرہ کےاصطلاحات  زیر بحث آئے۔ گوکہ یہ الفاظ ایک عام آدمی کیلئے اصطلاحات سے بڑھ کر کچھ نہیں لیکن ملک میں جمہوریت کے تناظرمیں یہ بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

 ملک میں سیاسی جماعتیں اس سے پہلے اور اب تک  چند دن پہلے ہونے والے گینگ ریپ کے حوالے سے قانون سازی ، سزاوجزا کا عمل اور ملک میں پدرانہ تمدن پر بات کرنے کے حوالے سے کوئی اجتماعی اجلاس اب تک نہیں بھلائے ہیں، اور نہ ٹیکس نادہندگان کے حوالے سے کوئی عملی بات اور کام اب تک  ہوئی ہے۔

آل پارٹیز کانفرنس میں سیاست دانوں کی باتوں کا لب لباب  جمہوریت، عوامی نمائندگان کے اختیارات اور عوامی مینڈیٹ کی عزت کے حوالے سے تھی اور اس تناظر میں موجودہ حکومت کو بلاواسطہ اور بالواسطہ حدف تنقید بناتے رہے۔ یہ جو طاقت کا سرچشمہ—عوام ہے اُسے جو مسائل اب درپیش ہیں پر کوئی بھی بات ہوتا نظر نہیں آرہی صرف یہ بات ہوئی کی عوامی مینڈیٹ جسے ملے اُسکا اختیار ہو اور عوامی مینڈیٹ کی قدر کی جائے۔  یہ سیاست دان جو عوامی ووٹ—مینڈیٹ،  کو لیکر حکومت میں آجاتے ہیں وہ خود اس ووٹ کی کتنی عزت کرتے ہیں سب سے بڑا سوال ہے۔ ملک میں  سینٹ کے الیکشن، اور فیٹف کے حوالے سے قانون سازی کے دوران دیکھنے میں آیا، اور عوام کو اور خصوصاً ان طاقتوں کو جو اپنے آئینی حدوت عبور کرتے ہیں، کہ یہ جو عوامی مینڈیٹ کی بات کرتے ہیں وہ خود عوامی اختیار—مینڈیٹ ، کو کسطرح استعمال کرتے ہیں۔

ملک میں بیروزگاری— خصوصاً کورونا کی وجہ سے، مہنگائی اور دوسرے بنیادی سہولیات کی عدم دسیتابی پر وہ بات ہی نہیں کرتے، اور تعلیم اور صحت  پر ان سیاست دانون کی سنجید گی کا اندازہ انہی جماعتون کے حکومت کے دوران تعلیم اور صحت پر مختص بچت دیکھ کر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں۔

پاکستان میں ایک مزارغ، مزدور، اجرتی مزدور، بےروزگار نوجوان، غریب اوراسٹریٹ میں ایک فرد کیلئے جمہوریت اور اس سے منسلک باتیں، جو کل آل پارٹیز کانفرنس میں ہوئے، کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ اُن کیلئے اہمیت کا حامل اُن کے مسائل کا حل ہے۔ اور یہ سیاست دان اپنے سیاسی اختیارات،  جس میں دوسرے ادارے مداخلت نہ کریں، کی بات ہے یہ جمہوری نظام پر بات ہے نہ کہ عوامی مسائل پر نہیں۔ بے شک سیاسی نظام کو جمہوری بنانا، شفاف الیکشن کا نظام ، قوانین اور کروانا بھی اُن کے اختیار میں ہے اور اب تک یہ کام نہ ہوئے ہیں تو یہ اُن کی کمزوری کی خبر ہے۔

معاشرے میں سیاسی اور معاشرتی محقق  اور سیاسیات کے طالب علم کیلئے جمہوریت، جمہوریت کی روح—عوامی مینڈیٹ کی عزت، ووٹ کی عزت اور عوامی رائے کی  کیا قدر ہے، اور یہ ایک کامیاب جمہوریت کے لئے کتنی ضروری ہے وہ بجا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ ہمارے ساتھ قصبے میں ، بازار اور گلی میں جو لوگ ہیں،  وہ اکثریت میں زیادہ ہیں، اُن کیلئے یہ نعرہ اتنی اہمیت کا حامل نہیں جواُن چند لوگوں بشمول سیاست دان کیلئے ہے۔

جب سیاست دان وہ عوامی رائے ، یعنی عوام کیا چاہتی ہے اور کیا مانگتی ہے، پر بات ہی نہیں کرتے  تو ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف جمہوریت کی سیاست ہے۔ یہ سوال زبان زد عام ہے، اور اسٹریٹ میں فرد یہ سوال بار بار پوچھتا ہے، کہ کیا جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے سے مراد سیاست دان کو طاقت ور بنانا ہے اور جس سے عوام کے لئے روزگار کے مواقع ، مہنگائی میں کمی، تعلیم اور صحت کا معیار بہتر، اور زندگی کے بنیادی سہولیات میسر آسکیں گے؟

سیاسیات کی زبان میں بات کی جائے دراصل سیاست میں یہ سیاسی طاقت کا کھیل اور جنگ ہے جسمیں ہر سیاستدان، حاکم ، حکومت اور فرد اپنی طاقت، اختیار، اثر اوررسوخ زیادہ کرنے کی سعی میں ہے ۔ جمہوری ممالک میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، اور عوامی مینڈیٹ جسے مل جاتا ہے وہ حکومت کرتی ہے۔ اور یہ عوامی مینڈیٹ حاکمیت کوبھی جائز کردیتی ہے۔ جمہوریت اور سیاست کی نوعیت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں مختلیف ہے اور جمہوریت کی مضبوطی اور کامیابی میں سیاست دان کے ساتھ عوام میں سیاسی تبدیلی— سیاسی شعور، اُس پر سیاست دان زور دیتے ہیں اگر معاشی اور معاشرتی ترقی بھی ساتھ ہوجائے تو اس کا بھرپور فائدہ اور عوام سے اس جدوجہد میں شامل ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔


شیئر کریں: