Chitral Times

Apr 20, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

آبی بحران، دہشت گردی سے بڑا خطرہ….. پروفیسرعبدالشکورشاہ

شیئر کریں:

پانی زندگی ہے، اسے دنیا کا نیلا سونا کہا جا تا ہے۔ مستقبل کی جنگیں پانی پر لڑی جائیں گی۔ پانی کی قلت یا یا آلودہ پانی آج تک لڑی جانے والی تمام جنگوں سے 10% زیادہ انسانوں کی موت کا سبب بنتا ہے۔ آبی بحران ایک عالمی مسئلہ ہے بن چکا ہے۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور پانی کے ذخائر میں کمی جنوبی ایشیاء کو بنجر بنا دے گا۔ پاکستان دنیا میں پانی استعمال کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور ہماری معیشت کا انحصار پانی پر ہے۔ اقوام متحدہ کی خوراک اور زراعت کی تنظیم FAO  نے قومی آبی ذخائر سے پانی کی نکاسی اور آبی ذخائر میں وقوع پذیر ہونے والی خطرناک کمی کوتشویشناک قرار دیا ہے۔ پانی کی نکاسی اور آبی ذخائر پر دباؤ کا تناسب 25%ہونا چاہیے جبکہ پاکستان میں یہ دباؤ 74% ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر ہم پاکستان کا موازنہ اپنے پڑوسی ممالک سے کریں تو انڈیا میں پانی کی نکاسی کا دباؤ 34% اور افغانستان میں 31% ہے۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سال 2035تک فی کس پانی کی قلت 500 کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی۔زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کی 80% زراعت پانی پر منحصر ہے پانی کی کمی اور آبی آلودگی کی وجہ سے 35% زمین سیم و تھور اور خشک سالی کا شکار ہے جس کے سبب زراعت کی پیداوار میں 25% کمی واقع ہو چکی ہے۔پاکستان ایشیاء میں اپنی جغرافیائی، معاشی اور سیاسی اہمیت کے باوجود پانی سے متاثرہ ملک بن چکا ہے۔ چند سال قبل آئی ایم ایف نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے جن کو مستقبل قریب میں پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ محقیقن بارہا یہ بات باور کر وا چکے ہیں کہ پاکستان کو 2040تک پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑے گا مگرکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک اور قومی المیہ یہ بھی ہے کہ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم سالانہ پانی کی ایک بڑی مقدار ضائع کر تے ہیں۔ ہم جنگلات کوگاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں شدید قدرتی آفات کا سامناہے۔ 1947 میں جنگلات ملک کے 5% حصے پر مشتمل تھے اور اب یہ مقدار کم ہو کر صرف 2% رہ گئی ہے۔ بہت سے ڈیم جو ملک کو اس آبی بحران سے نکالنے میں سنگ میل ثابت ہو سکتے تھے انہیں ہم نے سیاست اور صوبائیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ اگر ہم پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا موازنہ دیگر ممالک سے کریں تو بھارت کے پاس190 دن تک پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہے، امریکہ کے پاس یہ صلاحیت 900دنوں کی ہے اور پاکستان محض 30 دن تک پانی ذخیرہ کر سکتا ہے۔ پاکستان سالانہ تقریبا 145 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کر تا ہے مگر یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ ہم صرف 13.7ملین ایکڑ فیٹ پانی جمع کر سکتے ہیں۔ ہمیں 40ملین ایکڑ فیٹ پانی کی ضرورت ہے مگر ہمارا 29 ملین فیٹ پانی سیلابوں کی نظر ہو جا تا ہے کیونکہ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم ہی موجود نہیں ہیں۔ انڈیا نے پانی کے ضیائع کا مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا ہے اور پاکستان کے خلاف آبی جنگ کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بھارت کا دعوی ہے کہ پاکستان کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے اور سالانہ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں کے پانی کے استعمال کا حق اسے دیا جائے۔ پانی کا بحران اتنا سادہ نہیں جتنا حکومتی مشنری اس کو سمجھ رہی ہے۔ پانی کابحران پاکستان کے لیے سلامتی کے خدشات کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہم اپنی کار دھونے کے لیے 100لیٹر پانی استعمال کر نے کے ساتھ ساتھ پانی کے نلکے کو کھلا چھوڑ کر پانی کے ضیائع کا سبب بن رہے ہیں۔ ہمیں پانی بچاؤ، ملک بچاؤ کے کے لائحہ عمل پر قومی یکجہتی کا ثبوت دینا ہو گا۔ اگرچہ پاکستان میں پانی پر قومی پالیسی کا اعلان ہو چکا ہے مگر یہ اعلان سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہے۔ سیاسی پارٹیاں قوم اور ملک کے مستقبل کی فکر کرنے کے بجائے اپنے مستقبل کے الیکشن کی فکر میں مگن ہیں۔ یو ان ڈی پی اور پاکستان کونسل آف ریسرچ برائے آبی ذرائع کی رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان کو مستقبل قریب میں شدید آبی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے پاکستان کے لیے کوآرڈینیٹر نیل بوحان نے بھی اس مسئلے کی سنگینی کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کر وائی ہے۔ آبی ذخائر پر تحقیق کرنے والے ادارے 2016 میں حکومت پاکستان کو اس خطرے کے بارے متنبہ کر چکے ہیں مگر یہ سب بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی سالانہ فی کس پانی کی دستیابی 1,017کیوبک میٹر ہے جو خطرناک تناسب سے کم ہو رہی ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ یہ تناسب کم ہو کر 1000کیوبک میڑ رہ جائیگا۔ پاکستان کی زیادہ تر زرعی اراضی کو نہروں کے زریعے سیراب کیا جا تا ہے، آئی ایم ایف کی رپورٹ نے یہ واضع کر دیا ہے کہ نہری نظام عدم توجہ اور لاپروائی کی وجہ سے ملک میں زراعت کی آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ملک کے آبی وسائل تیزی سے کم ہو تے جا رہے ہیں، آبادی میں مسلسل خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور آبادی دیہاتوں سے شہروں کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔واشنگٹن کی وڈرو ویلسن سینٹر کے جنوبی ایشیاء کے ماہر مائیکل کگلمین نے وزارت پانی کو آبی بحران کی سنگینی سے آگاہ کیا ہے مگر وزارت ابھی تک خواب خرگوش میں گم ہے۔ آبی ذخائر میں کمی کی وجہ سے ملک میں ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہیں جن کی وجہ سے 2015 میں 65 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اور تقریبا 1200 افراد موسم کی شدت سے متاثر ہوئے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شرح اموات میں سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں حالیہ طوفانی بارشیں اور کراچی کی صورت حال ایک نکارہ ہیں کہ ہم ان مسائل کی طرف توجہ دیں ورنہ سارا ملک کراچی کا منظر پیش کر ے گا۔ مون سون نعمت سے زحمت بنتا جا رہا ہے۔ موسم سرما کا دورانیہ 4 ماہ سے کم ہو کر 2 ماہ  رہ گیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی پانی مافیا کے شکنجے میں تھا اور لوگ پینے کے پانی کو ترس رہے تھے، اگر ہم نے پانی کے مسائل پر توجہ نہ دی تو خدانخواستہ سارے پاکستان میں پانی کا بحران ہو جائے گا۔ ہمیں کسی مسیحا کی انتظار میں بیٹھنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ مستقبل قریب میں اس مسئلے سے نپٹا جا سکے۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
40335