Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

کتبہ ……..(Utopia#5)………میر سیما امان

شیئر کریں:

اگر اپکو فرسٹ ائر نصاب میں شامل سٹین بیک کی تحریر دی پرل یاد نہیں تو کم ازکم اسی کہانی سے ماخوذ پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہونے والا ڈرامہ ساگر کے آ نسو تو ضرور یاد ہوگا ۔اس کہانی کا مرکزی کردار ایک غریب مچھیرا کینو ہے جسے قسمت سے ایک روز ساحل کے کنارے موتی مل جاتی ہے ۔اس کہانی میں بڑی خوبصورتی سے معاشرے کے اس بد صورت چہرے کو دکھایا گیا ہے جو آدمی کو معمولی فضیلت کے ساتھ جینے نہیں دیتی۔۔یہ ایک نہایت درد بھری کہانی ہے۔افسوس اس بات کی ہے کہ دہائیوں پہلے کی یہ تحریر ہے لیکن دنیا آ ج بھی اسی ڈگر پہ چل رہی ہے ۔اگر آ پ ایک طالب علم ہیں اور غیر معمولی ذہن اور صلاحیت رکھتے ہیں ۔تو اپکو کینو کے پڑوسی اپنے اردگرد ہی ملیں گے جو ہر ممکن آپکی صلاحیتوں کو تباہ  کرنے کی کوشش کریں گے۔اگر اللہ نے اپکو اچھی صورت دی ہے تو اسے ہر طرح سے گہن لگانے کی کوشش رہے گی۔اخلاق اچھا ہے تو اخلاق بگاڑنے کی کوشش رہے گی۔اپکے پاس مال ذیادہ ہے مال چھن جانے کی خواہش کریں گے ۔۔معاشرے میں نام اچھا ہے تو حاسد اپکو بد نام کرنے کے طریقے ڈھونڈیں گے۔ آپ کسی بھی مقام پر ہوں آپکی کمپنی ایسے لوگوں سے ہرگز صاف نہیں ہو پاتی۔۔ میں اکثر سوچتی ہوں دنیا کیسی جگہ ہے۔۔ آ پکو ملنے والی معمولی ترین خوشی حتیٰ کہ خوبی بھی گلے میں پھنسنے والا ایسا نوالہ بن جاتا ہے جسے نہ نگلا جاسکتا ہے نہ اگلا۔۔۔گو کہ یہ ایک قدرتی نظام بھی ہے ۔۔ہر ذندگی کا انجام موت ہے۔ہر عروج کو زوال ہے حسن کو ماند پڑنا ہے جوانی کو برہاپا نے آ لینا ہی ہے۔تمام تر کامیابیاں سمیٹ کر بھی آدمی کو خالی ہاتھ ہو ہی جانا ہے لیکن وقت سے پہلے قدرت سے پہلے قدرت کے نظام کو ہاتھ پر لینے والے لوگ بھی کیا لوگ ہیں۔۔۔ خراب ہاضمے کے لوگ جن سے دوسروں کی معمولی فضیلت برداشت نہیں ہوتی۔۔۔مجھے کینو کے کہانی  کا بڑا دکھ ہے گو کہ اسکو پڑھے ہوئے ایک عرصہ گزر گیا لیکن مجھے آج بھی اس  کا انجام افسردہ کرتا ہے ۔۔ آ خر کیا تھا اگر اسکے محلے کے لالچی گیدڑ اسے ملنے والی معمولی خوشی کو برداشت کر لیتے ۔۔

کیا  تھا اگر کینو اس ایک موتی کی بدولت اپنی چھوٹی خواہشات پوری کرلیتا۔۔مگر نہیں۔۔۔انسان اس معاملے میں  بڑ ا ہی کم ظرف واقع ہوا ہے۔۔سٹین بیک نے یہ کہانی سیاہی سے نہیں خون سے لکھی ہے ۔۔ دنیا آج بھی اسی خون سے رنگین ہے ۔ہمارے درمیان ہر دوسرا شخص کینو ہے جو اللہ کی طرف سے ملنے والی ہر انعامات کو جب تک واپس سمندر میں پھینک نہیں آ تا ۔لوگ اسے جینے نہیں دیتے۔۔۔۔اسلیے مجھے ذاتی طور پر   دنیا کی تما م تر چیزوں میں جو ایک چیز قابل قبول قابل پسند حتیٰ کہ قابل ہضم لگی۔۔جس پر کوئی فساد نہیں ہوتا جسکی چوری کا ڈر نہیں ۔۔یہ واحد چیز ہے جسے آپکا بد ترین دشمن بھی آپ سے چھیننے کی خواہش نہیں کرتا ۔جس پر آپکا حاسد حسد نہیں کرپا تا۔۔جسکی حفاظت کے لیے آپکا سکون برباد نہیں ہوتا بلکہ یہ خود آپکی حفاظت کرتا ہے ۔۔دنیا کہ ہر چیز کینو کو ملنے والی موتی کی مانند ہے جسے واپس سمندر میں پھینکے بغیر چین نہیں ملتا ۔اسلیے کوشش کریں جس ایک چیز کو دنیا آ پکو بخشنے پر رضامند ہے اسے روشن رکھیں ۔ آ پ دوسروں کو خوشی نہیں دے سکتے دکھ مت دیں۔عزت نہیں دے سکتے تو بے وجہہ ذلیل بھی نہ کریں ۔بھلائی نہیں کرسکتے تو برائی بھی مت کریں ۔میں ایک بار پھر دہراونگی کہ کوشش کریں وہ ایک چیز جو دنیا اپکو بخشنے پر تیار ہے آپ سے چھیننے کی خواہش نہیں رکھتی۔۔اسے روشن رکھیں۔۔۔۔

مجھے کتبہ پسند آ یا۔۔

ہزاروں مقبروں کے بیچ ۔۔

جھانکتا ہوا کتبہ۔۔

انہونی خواہشوں کا نوح کتبہ ۔ ۔

اندھیرے قبر پہ روشن

میرا آ خری رتبہ ۔۔۔

میرا بے مول کتبہ۔۔۔


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, خواتین کا صفحہ, مضامینTagged
39849