Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

چھ ستمبر کی رات….. تحریر: شمس الحق نوازش غذری

شیئر کریں:


مملکت پاکستان کے دلوں میں چھ ستمبر کی یادہمیشہ تازہ رہے گی۔ کیونکہ اس تاریخی اور فیصلہ کن دن کو ہماری شیر دل افواج نے بلا اشتعال اور بغیر اعلان کئے ہوئے حملے کا جس بہادری، شجاعت، جرأت اور جانبازی سے مقابلہ کیا اس کی مثال تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔بھارت کے ساتھ سترہ روزہ جنگ کے دوران ہماری مسلح افواج نے بہادری، جرات، عزم صحیم اور فرض کی ادائیگی میں بے مثال حب الوطنی کا مظاہرہ کیا آج یوم دفاع کا سالگرہ مناتے ہوئے ہمارے سر فخر سے بلند ہیں کہ ہم نے اللہ کے فضل و کرم کے طفیل دشمن کا غرور خاک میں ملا دیا اور ان کا مذموم خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہونے دیا یہ بات اہل دنیا نے شایدہی سنی ہوگی کہ ایک کمپنی نے دشمن کے پورے بریگیڈ کو گھنٹوں مسلسل روکے رکھا ہو۔جس طرح میجر شفقت کی کمپنی نے لاہور کے محاذ پر دشمن کے پورے بریگیڈ کو روکے رکھا بالکل اسی طرح میجر راجہ عزیز بھٹی نے بہادری اور جرات کے ساتھ اپنے جوانوں کی رہنمائی کی، انہوں نے دشمن کے حملوں کو پسپا کرنے کے سلسلے میں ایک کمپنی کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کے پیادہ فوج، ٹینک اور توپ خانے کے سیلاب کو کئی دن مسلسل ایک چٹان بن کر روکے رکھا۔ان کی ثابت قدمی اور بہادری نے دشمن کے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔میجر راجہ عزیز بھٹی ناگہانی جنگ کے ساتویں روز دشمن کی ٹینکوں اور پیادہ فوج پر گولہ باری کر رہے تھے اس وقت ان کی کمپنی کو سخت خطرہ لاحق تھا اسی دن دشمن کی طرف سے آنے والی ایک گولی انہیں شہادت کی نعمت سے سرفراز کر گئی اور انہوں نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ وہ جرات، حب الوطنی اور فرض شناسی کی علامت بن گئے جس پر انہیں بعد مرگ ملک کی بہادری کے سب سے بڑے اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔


ہماری مسلح افواج کے بہادری کے کارناموں پر تبصرہ کرتے ہوئے اس وقت کے بی بی سی کے ماہر اور لندن ٹائمز کے نامہ نگار چارلس ہیوم نے کہا”اس جنگ کے نتیجہ سے جس میں پاکستان نے بھارت کے حملوں کو پسپا کر دیا ہے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوان کے مقابلے میں جوان اور یونٹ کے مقابلے میں یونٹ کے اعتبار سے پاکستان کی فوج بھارت کی فوج کے مقابلے میں اعلیٰ تربیت یافتہ ہے”


اسی طرح پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی اطلاع دیتے ہوئے ٹائمز میگزین نے 17ستمبر کو لکھا “یہ بھارت کی تعداد اور پاکستان کی خوبی کا معاملہ ہے اور یہ کہ پاکستان کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج بھارت کی فوج سے مقابلہ میں بالا تر ہے”


افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بی بی سی کے نامہ نگار رائے میلونی نے 25ستمبر کو لکھا”صحافت کی بیس سالہ زندگی میں میں نے اعلیٰ اعتماد اور انضباط رکھنے والی ایسی فوج نہیں دیکھی جیسی کہ پاکستانیوں کی فوج ہے “
اسی طرح سنڈے ٹائمز کے پیٹر فینز فیلڈ نے غیر مبہم الفاظ میں لکھا”پاکستان نے فضائی جنگ میں مکمل فتح حاصل کی ہے بھارتی طیاروں کو مار گراکر پاکستان بمبار طیاروں نے بھارت پر گولے برسائے اور انبالہ کے عظیم فوجی اڈے کو شعلوں میں بھڑکتا ہوا چھوڑ کر واپس آگئے”


لیکن آج پھر سے وہی لومڑ صفت،مکار، عالم اسلام اور عالم انسانیت کا دشمن مظلوم کشمیریوں کو مقبوضہ کشمیر میں ان کے گھروں کے اندر محصور کر کے ساری دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ بقول اقبالؒ
پنجہ و ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پرو بے بال کیا
توڑ اس دستِ ستم کش کو یا رب جس نے
روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا


بظاہر ایسا لگتا ہے کہ گائے کے پجاریوں نے کافی عرصے بعد چھ ستمبر کی درس کو مکمل بھول گئے ہیں یا ان کی موجودہ نسل کو مسلمانوں کی غیرت و حمیت کی حقیقت کا صحیح ادراک نہیں ورنہ تو اس حقیقت سے ساری دنیا واقف ہے کہ مسلمانوں کو للکارنے کے بعد دنیا کے کافروں کے پاس موت کو پکارنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن بچا ہی نہیں۔ انڈیا کے امن کے غنڈوں کو ذرا غور و فکر اور سوچ و بچار کے بعد جنت نظیر کشمیر کے مبارک سر زمین پر اپنے منحوس قدم جمانے کا سوچنا چاہئے تھااور بھارتی دانشوروں کو پہلے سر جوڑ کر یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت تھی کہ وہ اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے دنیا نام کے اس سیارے میں موجود جن لوگوں کی غیرت ایمانی کو للکارا ہے ان کے نزدیک زندگی بارئچہ اطفال یعنی بچوں کے کھیل تماشے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی ہے۔ ان لوگوں کے ہاں موت کو زندگی سمجھنے کا عقیدہ موجود ہے، یہی لوگ شہادت کی موت کے لئے بیتاب رہتے ہیں، ان کے ہاں لاشہ شہادت کا پیراہن اوڑھ کر گھر کی دہلیز پر آجائے تو وہاں افسردگی اور بیچارگی کے بجائے ایک عجیب قسم کا سکون اور تفاخر محسوس کرتے ہیں، ان کے ہاں ماں کا کڑیل جوان بیٹا ریزہ ریزہ ہو جائے تو یہ آہ و زاری یا بین ڈالنے کے بجائے آسودگی اور فخر محسوس ہوتا ہے، ان کے ہاں شہادت میں چھپی حیات جاویداں دنیا میں زندہ رہنے والوں کوبھی ہمت و جرات سے زندہ رہنے کے حوصلہ عطا کرتی ہے، ان کے ہاں شہادت کے سامنے دنیائے فانی کی تمام تر چیزیں خیال خام نظر آتی ہیں، ان کے ہاں شہادت پر ناز کرنے والے بلند مرتبہ ہستیاں موجود ہیں، ان کے ہاں برستے گولوں میں میزائلوں پر سر رکھ کے سونے کے عادی لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو بزدلانہ کاروائیوں سے ڈرایا یا دھمکایا کیسے جا سکتا ہے؟
دھمکیوں سے تو وہی لوگ مرعوب ہوتے ہیں جن کے دل و دماغ میں ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش کا بھوت سوار ہے جن کے سامنے سب سے بڑی چیز زندگی کی بقاء ہے ایسے لوگ ان دیکھے ان چھوئے آنجہانی خوفوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور موت سے پہلے موت کا نام سن کر موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف مومن کی زندگی علامہ اقبالؒ کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہے:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیاد ہے مومن


شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, گلگت بلتستان, مضامینTagged
39841