Chitral Times

Apr 24, 2024

ﺗﻔﺼﻴﻼﺕ

درحقیقت ( رکشہ چلاناپاک اور حلال روزگار کا ذریعہ ھے) ….. تحریر:-ڈاکٹر محمد حکیم

شیئر کریں:

کوئی  لمبی چوڑی داستان لکھ کر قارئین کو بور کرنا مقصد ہرگز نہیں ۔البتہ ایک تجویذ میری طرف سے نوجوانان چترال کو اس مضمون کی صورت میں آگاہی فراھم کرنا ھے۔اور موجودہ انتظامیہ کی خدمت میں ایک گزارش ھے۔چترال انتظامیہ رکشہ سروس کو بند کرنے کی بجائے اس کو اپنے معاشرتی حصہ کا زینت بنائیں۔اور قوانین کو انفرادی حصہ داری سے آزاد کرکے دوسرے اضلاع کی طرح ھموار رویہ اختیار کریں۔جس سے معاشرتی  پریشانیان کم ھونگیں۔ھماری زندگی کے ایام اندرونی ملک سے لیکر بیرون تک کے سفر میں تجربات پر مبنی ھیں۔وہ یہ کے رکشہ سے لیکر جہاز تک کاسفر کیا۔رکشہ ڈرائیوروں سے گفتگو کرنے کا بہت اور پائلٹ سے بات کرنے کا ایک دو بار موقع ملا۔جب بھی میں نے کسی رکشہ ڈرائیور سے اس کے تعلیمی کوائف کے بارے میں پوچھا تو کچھ  نوجوانوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی  سے ایم ۔ایس۔سی کررھے ھیں۔حتٰی کے تھوڑا سا پختہ عمر والوں نے کہا انہوں نے ماسٹر کیا ھوا ھے۔اور اب ایم فل ان کا شروع ھوچکا ھے۔لیکن موثر روزگار نہ ھونے  کی وجہ سے مطالعہ سے وقت بچاکر وہ رکشہ چلا رہے ھیں۔کیونکہ ان کے گھریلو کیفیت غربت کی لکیر سے بھی نیچے ھے۔اسلئے وہ اپنے گھر کے اخراجات کے ساتھ ساتھ اپنے نصابی سرگرمیوں کے اخراجات کسی سی بھیک مانگے بیغیر خود سے پورا کر رھے ھیں۔اس لئے میری تجویز حکومت وقت اور چترال انتظامیہ کو یہی ھے۔کہ وہ چترال میں ایک ایسے روزگارنوجوانوں کو اپنانے میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔جس روزگار کو اپناکر وہ اپنے سکول وکالج اور یونیورسٹی کے اخراجات پیدا کرکے اپنے روشن مستقبل کو بچاکر معاشرہ کا صحت مند فرد بن سکتے ھیں۔اس لئےانتظامیہ مؤثراقدام اٹھا کر رکشوں پر پابندی نہ  لگائیں ورنہ نوجوانان چترال کی حالت تو سب کے سامنے عیان ھے۔کہ پہلے ھی سے دوسرے اضلاع کی نسبت گھریلو ناچاقیوں اور غربت کے شکار ھوکر خودکشی کرنے والوں میں ترقی کرتےجارہےھیں۔یا چرس اور پاؤڈر بیجھنے اور پینے میں مبتلا ھوتےجارھے ھیں۔جس کی بنا پر ھمارا معاشرہ تاریکی میں ڈوبا ھوا ھے۔اور اکثر نوجوان زندگی سے بیزار ھوکر خودکشی کرنے پر مجبور سے مجبور ھوتےجارھےھیں۔اور چترال میں ترقیاتی کام اور مستقل روزگار دوسرے شہروں کے مقابلہ میں نہ ھونے کے برابر ھے۔اس مضمون میں، میں نے نہ کسی کی حمایت کی ھے۔اور نہ کسی کے خلاف لکھا ھے۔بلکہ زندگی کے ارتقائی مرحلے سے گزر کر خود پتہ لگتا ھے۔کہ یہی اسباب ھیں۔جن سے ھم کس طرح برائیوں کو روک سکتے ھیں۔اور ترقی کے راستوں پر گامزن ھوسکتے ھیں۔جناب ڈی سی صاحب یہ معاشرہ صرف گننے چننے ٹھیکہ داروں کی ہی نہیں ھے۔ان کو کیا پتہ ھوتا ھے اس بیچارہ نوجوان کا جس کو اس معاشرہ کے نا ھمواریوں نے چور اور ڈاکو بنایا ھوتا ھے۔ھمیشہ معاشرہ کی نا ھمواریوں کا سبب یہی ھے۔کہ ان کے لئے قانون سازی اور روزگار کے تعین میں بھی ان کو مدعو کیا جاتا ھے۔جو ملک کے سب سے بڑے ڈاکو ھوتے ھیں۔لیکن ان کی مالداری ھمیشہ ان پر پردہ ڈال دیتی ھے۔اس معاشرہ میں وہ جوان بھی رہتے ھیں ۔جنہیں معاشرتی حقوق کے غیر مساویانہ تقسیم نے ھیروئن فروش چرس فروش اور ڈاکو بنایا  ھواھوتاھے۔افغانستان سے ھزاروں دو نمبر کی گاڑیوں نے معاشرہ کو فائدہ دیا جس سے معاشرہ کے نوجوان حلال کےرزق اور عزت کی روزگارحاصل کررھے ھیں۔اسی طرح جو لوگ بڑی ٹیکسی اگر خرید نہیں سکتے تو کم ازکم ایک نمبر کا رکشہ لیکر یا کسی کا رکشہ چلاکر معاشرہ میں حلال روزگار کماکر اپنے ذاتی اور خاندان کے بنیادی ضروریات کو پورا کرکے اس معاشرہ سے بے راہ روی کے اڈوں اور ناشہ اور چیزوں سے پاک کرنے کا ذریعہ بن سکتے ھیں۔اس سے معاشرہ میں تناؤ کی بیماری ختم ھوجائے گی۔اور لوگوں کو اپنے منزل تک رسائی میں آسانی ھوگی۔معاشرہ کے نوجوان کسی پر بوجھ بننے کی بجائے معاشرہ کو ترقی دینے میں سہارا بنیں گے۔ا

rakshaw chitral

شیئر کریں:
Posted in تازہ ترین, مضامین
39664